شیخ صاحب یہ کس کا جنازہ ہے

ویسے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے سے حکمران جماعت کو یقینا بہت بڑ ا ریلیف ملا ہے

mnoorani08@gmail.com

20 اپریل2017ء کو ہماری عدالتِ عظمی نے بالآخر اُس کیس کا فیصلہ سناہی دیا جس کا سبھی کو بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ویسے تو یہ فیصلہ قانون کے ماہرین کے تجزیوں کے عین مطابق ہی تھا لیکن پھر بھی تنقید کرنے والے اِس پر اپنی اپنی سوچ کے مطابق جانبدارانہ اور غیر ذمے دارانہ نکتہ نظر پیش کرکے اِس کے ساتھ وہی سلوک کررہے ہیں جس کی اُن سے توقع کی جاسکتی تھی۔

یہ بات تو طے شدہ تھی ہمارے آئین و دستور میں درج آرٹیکل 184/3کے موجودگی میں سپریم کورٹ صرف ایسا ہی فیصلہ دے سکتی تھی لیکن پھر بھی اُس کے پاس یہ صوابدیدی اختیار موجود تھا کہ وہ اپنے طور پر کوئی بھی سخت ترین فیصلہ لکھ کر ایک نئی مثال قائم کردیتی اور کچھ لوگوں کی خواہشوں اور حسرتوں کی تسکین کا سامان پیدا کردیتی مگر فیصلہ کرنے والے پانچ ججوں میں سے تین ججوں نے ایسا کرنے سے اجتناب برتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس کیس سے متعلق دونوں بڑے فریق یعنی مدعی اورمدہ علیہ اِس فیصلے پر خوشیاں اورشادمانیاں منا رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) والوں کی خوشی اور مسرت تو قابلِ فہم ہے کہ اُس کے وزیرِاعظم نااہلی سے بچ گئے لیکن پٹیشن داخل کرنے والے تین فریقوں میں سے سوائے جماعت اسلامی کے سراج الحق کے باقی دو فریق یعنی عمران خان اور شیخ رشید نجانے کیوں اِس فیصلے پر اظہارِ مسرت کررہے ہیں یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔

خصوصاً شیخ صاحب جو گزشتہ تین چار ماہ سے مسلسل یہی کہتے چلے آرہے تھے کہ ''نون یا قانون میں سے کسی ایک کا جنازہ نکلے گا۔'' اب وہ یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ اِس فیصلے سے کس کا جنازہ نکلا۔فی الحال وہ کھسیانی بلی کی مانند اِسی میں خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں کہ وزیرِ اعظم اور اُن کے بچوں کو جے آئی ٹی کے سامنے جوابدہی کے لیے جانا پڑے گا۔ البتہ فل بینچ کے ایک رکن جسٹس آصف کھوسہ کے اختلافی ریمارکس اُن کے اگلے دنوں کی سیاست کے لیے بہت کچھ مواد فراہم کررہے ہیں جس کے سہارے وہ کم ازکم آٹھ دس ماہ توگزار ہی لیں گے۔یہی حال عمران خان کا بھی ہے۔ الیکشن سے پہلے سیاسی ہلچل مچانے کے لیے پانامہ کیس کا زندہ رہنا بہت ضروری تھا اور وہ اِس فیصلے سے اپنے اِس مقصد کے حصول میں یقینا کامیاب اورسرخرو ہوئے ہیں۔

پاناما لیکس کا یہ معاملہ سپریم کورٹ کے احاطے سے نکل کر اب جے آئی ٹی کے دفترکی دہلیز تک پہنچ گیا ہے جس کی مکمل رپورٹ کے لیے عدالت عظمی نے محض دو ماہ کاقلیل وقت دیا ہے۔یہ با ت بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ خود سپریم کورٹ جس معاملے کو چھ ماہ میں بھی حل نہ کرپائی وہ بھلا جے آئی ٹی صرف دو ماہ میں کیسے مکمل کرپائے گی۔ہمارے کچھ لوگوں کے خیال میں جے آئی ٹی اِس کیس میں کوئی خاطر خواہ اورصاف شفاف تحقیقات نہیں کرپائے گی۔ویسے بھی ہمارے یہاں جے آئی ٹی کا تجربہ ابھی تک کچھ اتنا سود مند ثابت نہیں ہوا ہے۔ مشہورزمانہ ماڈل ٹاؤن کیس میں بھی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی لیکن تین سال ہونے کے آئے ہیں ابھی تک کسی بڑے مجرم کوکوئی سزا سنائی نہیں گئی ہے۔


اِس کے علاوہ ڈی لیکس کا معاملہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے انتظار میں ہی لٹکا ہوا ہے۔پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ سپریم کورٹ پانامہ کیس کی مکمل تحقیقات کے لیے حاضر سروس ججوں پر مشتمل شاید کوئی ایسا بااختیار کمیشن تشکیل دیدے گی جسے یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ ملک کے اندر اور بیرونِ ملک ہر جگہ جہاں جہاں ضرورت ہو ایک ایک پیپر اوردستاویز کی مکمل چھان بین کرکے حقائق عوام کے سامنے لائے گا۔ مگر نجانے پھر کیوں صرف جے آئی ٹی کی تشکیل پر ہی اکتفا کرلیا گیا۔اِس جے آئی ٹی پر ابھی سے کچھ سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد اور تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ آگے آگے دیکھتے ہیں کہ عدلیہ کے اِس فیصلے پر کتنا اورکس طرح عملدرآمد ہو پاتا ہے۔

ویسے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے سے حکمران جماعت کو یقینا بہت بڑ ا ریلیف ملا ہے اور اُس کے سرپر سے وہ تلوار تقریباً ہٹ چکی ہے جس کاخوف بہر حال اُس کے اعصاب پر سوار تھا۔اب وہ اگلے دوماہ تویقینا بلکہ ہوسکتا ہے کئی ماہ سکون و اطمینان سے گزار لے گی۔دوماہ کا عرصہ جب پورا ہوگا تو رمضان شریف کامہینہ آچکا ہوگااور اِس کے بعد ساری قوم اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مشغول ہوچکی ہوگی۔لہذا یہ کہنا فی الحال ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ کسی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں میاں صاحب اگلے انتخابات سے قبل اقتدار سے محروم ہوسکتے ہیں۔البتہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی کوشش بہرحال یہی ہوگی کہ میاں صاحب کو اطمینان اور سکھ چین کے ساتھ یہ سال گزارنے نہیں دیاجائے۔ اِسی طرح خود میاں صاحب بھی اِس ایک سال کو اپنے نامکمل منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک نعمت ِ غیر مترقبہ جانتے ہوئے حتی المقدور کوشش یہی کرینگے کہ 2018ء سے پہلے پہلے وہ تمام کے تمام منصوبے مکمل کرپائیں اور کم ازکم بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے اپنے وعدے اوردعوے میں سرخروہ ہوجائیں۔

پانامہ لیکس کا اچانک انکشاف جب گزشتہ برس اپریل کے مہینے میںہوا تو خان صاحب کی اُس مزاحمتی سیاست کو ایک بار پھر نئی زندگی مل گئی جو 126دنوں کے ناکام دھرنے کے بعد رفتہ رفتہ دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی۔اُنہوں نے اِس معاملہ کو فوراً کیش کروانے کا تہیہ کرلیا اورکمر کس کے میدان میں اُتر آئے۔ساتھ ہی ساتھ لال حویلی والے ہمارے شیخ رشید جو میاں صاحب سے اپنی پرانی دشمنی کا حساب کتاب برابر کرنے کی جستجو میںلگے ہوئے تھے کفن پہن کر خان صاحب کے اِس قافلے میں شامل ہوگئے۔دوسروں کے تابوت نکالنے کی خواہش رکھنے والے شیخ رشید خود اپنے بارے میں بھی یہی کہتے رہتے ہیں کہ میں توایک خود کش حملہ آور کی طرح اپنا کفن ساتھ لیے پھرتا ہوں۔

خان صاحب نے پانامہ کے انکشاف کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ازخود لیاجانے والا سوموٹوقراردیا تھا۔اُن کے بقول یہ ہمارے کسی سیاستداں یا ایجنسی کی کوشش کی وجہ سے منظرِ عام پر نہیں آیا جسے ہم کسی سازش کاالزام دے سکیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک سوموٹو ہے۔مگر وہ شاید یہ بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی سوموٹو کی حاجت نہیں ہوا کرتی۔ وہ تو''کن فیکون'' کہہ کر جو چاہے کرسکتا ہے اور نہ اُسے اپنے کسی کام کی تکمیل کے لیے کسی سیاستداں کی تحریک، دھرنے یا عدالتوں کامحتاج ہونا پڑتا ہے۔وہ جب چاہے کسی کو اعلیٰ عہدہ اور منصب سے سرفراز کرسکتا ہے اور جب چاہے ذلت ورسوائی کے اندھیروں میں غرق کرسکتا ہے۔

وہ اپنے کاموں کے لیے اپنی کسی مخلوق کا محتاج نہیں ہے۔ پانامہ کا معاملہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا ہی اہم ہوتاتو اُسے اِس کا فیصلہ کرنے کے لیے ہماری عدالتوں کے فیصلوں اور جے آئی ٹی کی رپورٹوں کے رحم وکرم پر نہیں ہونا تھا۔وہ پل بھر میں میاں صاحب کاکام تمام کر چکا ہوتا۔ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے سیاسی اور دنیاوی معاملات میں اللہ تعالی، انبیاء اور اولیائے اکرام کو بلاوجہ شریک نہ کریں۔نہ ہم اتنے پاک اور پارسا ہیں اور نہ ہمارے اعمال اور اوصاف اتنے اچھے ہیں کہ نعوذباللہ ہم یہ کہہ سکیں کہ جس طرح ہمارے انبیاء کو اپنی کامیابی کے حصول میں بڑی سخت اورطویل جدوجہد کاسامنا کرنا پڑاتھا اِسی طرح ہم بھی اُنہی مراحل سے گزر رہے ہیںاورشاید اللہ تعالیٰ بھی ہم سے کوئی بہت بڑا اہم کام لینا چاہتا ہے۔

پانامہ کا یہ فیصلہ اپنے اندر ایسے ہی خود سر اور ضدی سیاستدانوں کے لیے ایک سبق اور پیغام بھی رکھتا ہے۔ اُنہیں کسی ایسے بڑے بول سے اجتناب کرنا چاہیے جس کے وہ کسی طور متحمل نہیں ہوسکتے ۔انسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ہم نہیں وہی رب العزت کی ذات کریم ہے جو سارے جہانوں کا مالک و مختار ہے۔ ہمارے تمام تجزیے ،تبصرے اور اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب وہ اپنا فیصلہ ہم پر صادرکرتا ہے۔
Load Next Story