بحروبر میں فساد ایکو ٹیررازم
پاکستان کو دہشتگردی سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہے
65 لاکھ افراد ہر برس ماحولیاتی آلودگی کی بنا پر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 18 ہزار افراد روزانہ آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ یہ یقینا ایک بڑی تعداد ہے۔ یہاں کئی ایک سوال قائم ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ماحولیاتی آلودگی کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اس کا سدباب کیوں کر ممکن ہے؟ اگر عوام ان خطرات و شدائد سے آگاہ نہیں، تو کیوں؟ نیز عام فرد کو کس طرح آگاہ کیا جاسکتا ہے؟ وغیرہ لیکن میرے نزدیک ایک سوال ان سب سوالات سے بڑھ کر ہے۔
وہ یہ کہ ہمیں ماحولیاتی خطرات بلکہ ہلاکت خیزیوں کا احساس کیوں نہیں؟ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف رواں مہینے میں ہی ماحولیاتی تبدیلیاں جس شدت سے وقوع پذیر ہوئی ہیں، وہ تنبیہ کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ ارضِ پاک میں مری، گلیات اور شمالی علاقہ جات میں اپریل کے مہینے میں غیر معمولی طور پر برف باری دیکھنے میں آئی۔ اپریل کے مہینے میں پاکستان میں برف باری کا ہونا قطعی طور پر غیر معمولی ہے۔ مالم جبہ، کالام اور مدین کے علاقوں میں 3 سے 6 انچ تک برف باری ہوئی۔ اسی ماہ اپریل میں اسکردو کے 95 فیصد تک زمینی راستے منقطع ہوگئے۔
گلگت اور اسکردو جانے والے کم از کم 5 مقامات ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیے گئے۔ ان تمام علاقوں میں، ملحقہ علاقوں میں، اسلام آباد، راولپنڈی، سوات، بلتستان اور کشمیر وغیرہ میں شدید بارشیں ہوئیں۔ موسم کی یہ تبدیلیاں نظر انداز کیے جانے والی نہیں لیکن کیا کسی بھی سطح پر اسباب کا کھوج لگانے کی بات ہوئی؟ ملک کے ایک حصے میں تو بے موسم کی برف باری دیکھنے میں آئی، دوسری جانب کراچی سمیت ساحلی پٹی اور اندرون سندھ موسم شدید گرم ہوگیا، یہاں تک کہ درجہ حرارت 41 اور بعض جگہوں پر 45 سیلسیئس تک جا پہنچا۔ گرم ترین 2016 کے بعد 2017ء میں موسم کے یہ تیور قطعی طور پر نظر انداز کیے جانے والے نہیں لیکن کیا کسی کو ذاتی یا محکماتی سطح پر اس کی فکر ہے؟
کہنے کو پاکستان نے 2016 میں ''کلائمیٹ چینج ایکٹ'' بھی پاس کیا ہے، جسے سینیٹ سے توثیق بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں، 3 اہم ادارے بھی وجود پذیر ہیں۔ پاکستان کلائمیٹ چینج کاؤنسل، پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور پاکستان کلائمیٹ چینج فنڈ۔ ان اداروں کی سربراہی وزیرِاعظم اور وزرائے اعلیٰ کر رہے ہیں لیکن کیا کسی کو کوئی مثبت اور واقعی کام ہوتا نظر آتا ہے؟ وزیر ماحولیات کا کہنا ہے کہ آج ہم فضا میں جو آلودگی پھیلا رہے ہیں اس میں صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی 405 میٹرک ٹن ہے۔ مستقبل میں ہواؤں کو زہرناک کرنے کا یہ عمل کم نہیں ہو گا بلکہ بڑھ کر 1603 میٹرک ٹن ہوجائیگا۔ اب کوئی یہ فرمائے کہ جب آپ کے ہوتے آلودگی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بڑھتی ہی جائے گی تو ایسی وزارت اور ایسے وزیروں کا کوئی فائدہ ہے؟ اگر ہے تو کس کو ہے؟
پاکستان کو دہشتگردی سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہے؟ یہ گزشتہ برس فارن پالیسی میں صالحہ نظر نے لکھا تھا۔ آپ نے پاکستان کے معاشی ہب کراچی کو لاحق خطرات کی جانب خصوصی توجہ دلوائی، خاص کر 2014ء میں اقوام متحدہ نے بحیرہ عرب میں ایک مصنوعی سونامی پیدا کر کے جو تجربہ کیا تھا، اس کے نتائج کو دہرایا۔ 2014ء میں یہ خبر شائع ہوئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ کراچی کو سونامی کا شدید خطرہ ہے اور ایک سونامی پورے کراچی کو بہا لے جانے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کے ماہر موسمیات توصیف عالم نے اس تجربے کا مشاہدہ کیا تھا۔ آپ نے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے مزید بتایا تھا کہ کراچی کے لیے سونامی کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ آخری سونامی 1945ء میں آیا تھا جِس میں کم و بیش 4000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کراچی کو سونامی کے علاوہ بھی بہت سے شدید خطرات لاحق ہیں، مثال کے طور پر ڈوبنے کا خطرہ۔ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی سے سمندر بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ گلیشیئرز کی برف پگھل پگھل کر سطح سمندر بلند کرتی جارہی ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہوکر خشکی کو نگلے جارہی ہے۔ گزشتہ 35 برس کے دوران پاکستان کی ساحلی پٹی 2 کلومیٹر کے قریب سمند برد ہو چکی ہے۔
اس میں ملیر کراچی کا بھی بہت سا علاقہ شامل ہے۔ یہ باتیں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشینوگرافی کے ڈی جی ڈاکٹر آصف انعام سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتا چکے ہیں۔ سندھ میں ایک کہاوت برسوں سے اور پرکھوں سے مشہور ہے کہ سندھ قیامت سے برسوں (غالباً 40 برس) قبل سمندر میں غرق ہو گا۔ آج اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی سائنس دان اور پاکستان کے ماحولیات کے سائنس دان کہتے ہیں کہ سندھ کی 200,000 ایکڑ اراضی سمندر ہڑپ کرچکا ہے۔ سندھ کے ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع 2050ء تک زیر آب آجائیں گے اور 2060ء تک کراچی بھی ڈوب چکا ہوگا۔
کراچی کی بات چل نکلی ہے تو چند باتیں مزید۔ لیڈرشپ فار انوائرمنٹ کا کہنا ہے کہ کورنگی، لانڈھی اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے صنعتی فضلے نے کراچی کی سمندری ماحولیات کو برباد کر دیا ہے۔ کورنگی کے 2500 صنعتی یونٹ جن میں 170 ٹینریز بھی شامل ہیں، اپنا تمام تر، خطرناک اور حیات کے لیے مضر فضلہ سمندر میں ڈالتے ہیں۔ پورٹ پر آنے اور جانے والے تمام جہازوں کا تیل اور کچرا وہ بھی یہیں آپ کو بہتا ملے گا، اور تو اور شہری حکومت بھی بجائے سمندر کو صاف رکھنے کے قریباً شہر کا 3 ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر سمندر میں پھینکتی ہے۔
اس آلودگی سے ایک جانب تو سمندر اور سمندری حیات متاثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب ساحل سے شکار کی گئی مچھلیوں کو کھانے والے خون کی کمی، گردوں اور دیگر عوارض میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں، خاص کر وہ مچھیرے جن کا کھاجا ہی یہ ہے۔ لوگ ''سی فوڈ'' کو محفوظ اور صحت بخش جان کر کھاتے ہیں اور نتیجے میں جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ کراچی کا شمار دنیا کے 5 آلودہ ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر برس ماحولیاتی آلودگی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 29000 ہے۔
پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک، بھارت اور چین کا حال ہم سے بہت زیادہ خراب ہے۔ ترقی کے چکر میں پڑ کر دونوں ممالک نے اپنی فضاؤں کو زہریلا کرلیا ہے۔ آج بھارت میں فضائی آلودگی کی بنا پر کم از کم دو افراد روزانہ ہلاک ہوتے ہیں۔ صنعتی انقلاب اور سبز انقلاب کے چکر نے بھارتی پنجاب کو کینسر کا گڑھ بنادیا ہے۔
صرف لدھیانہ کے مضافات میں 1332 فضلاتی آلودگیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ سالانہ 700000 افراد ہلاک ہورہے ہیں۔ پنجاب میں ایک ٹرین چلتی ہے، اس کا نام ہے کینسر ٹرین، تفصیل اس اجمال کی بہت ہولناک ہے، پھر کبھی سہی۔ چین میں فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد 4000 روزانہ کی ہے۔ 2010ء کی ای پی اے کی دستاویز بتاتی ہے کہ 63000 سے 88000 افراد امریکا میں فضائی آلودگی کی بنا پر ہلاک ہوئے۔ دیگر کا اندازہ 200000 تک کا ہے۔ گارجین کہتا ہے کہ 9500 افراد صرف لندن میں فضائی آلودگی کی بنا پر ہلاک ہوتے ہیں۔
آج بحروبر میں ایک فساد برپا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ 30 برس میں اتنے افراد دہشتگردی سے ہلاک نہیں ہوئے جتنے ماحولیاتی آلودگی نے ہلاک کیے۔ یہ ایکو ٹیررازم ہے۔ اس کا جنم ترقی کے بطن سے ہوا ہے۔ ترقی کے لیے ''انرجی'' چاہیے، کیوں کہ انرجی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ''انرجی'' (بجلی) کی پیداوار اور استعمال زمینی ماحولیات کی بربادی کا بڑا سبب ہے۔ جان لیجیے کہ اگر ترقی چاہیے تو آلودگی ختم نہیں ہوسکتی۔