شام میں انقلاب کی صبح طلوع ہونے کو ہے

فتوحات کے باعث جنگ جوؤں کے حوصلے بلند ہوگئے

بشارالاسد کے قریب ترین ساتھی بھی اس کا ساتھ چھوڑنے لگے۔ فوٹو: فائل

شام کی صورت حال گذشتہ دو سال سے ابتر ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ 2013 انقلابیوں کے لیے خوش خبری کا باعث بن سکتا ہے اور بشارالاسد اور اس کے حامی سال رواں میں انقلابیوں کے غیض و غضب سے اپنی آمریت پر مبنی حکومت نہیں بچا سکیں گے۔

لگ بھگ گذشتہ دو سال سے جاری حکومت نواز فوجیوں اور باغی جنگ جوئوں کے درمیان جھڑپوں میں چوالیس ہزار سے زاید افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تاہم جس تیزی سے انقلابیوں کا ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول بڑھتا جارہا ہے اور بشارالاسد کے حامی اہل کار حکومت کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں، جنگجو انقلابیوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔


اس حوالے سے حکومت مخالف انقلابیوں کے لیے ایک تازہ ترین خوش خبری اس وقت سامنے آئی جب بشارالاسد حکومت کے ایک اہم ترین حامی اور شامی ملٹری فورس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیزجاسم الشلال نے بشارالاسد حکومت کے مزید احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے جنگ جوئوں کی صفوں میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ شام سے خفیہ طور پر ترکی جانے والے عبدالعزیز نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ بہت پہلے کرنا چاہتے تھے، لیکن شامی حکومت کے سخت جاسوسی کے نظام کے باعث وہ مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے۔ شامی حکومت کو قاتل گروہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس دوران پس پردہ حکومت مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور انقلابیوں کو اپنا تعاون فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عنقریب مزید اعلیٰ فوجی اہل کار انقلابیوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔

اگرچہ شامی حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز جاسم الشلال کی بغاوت کو غیر اہم قرار دیا ہے، لیکن دوسری طرف ملٹری پولیس میں جاسوسی کے نظام کو مزید سخت کرنے کے احکامات دیے جاچکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل تین دسمبر کو شامی حکومت کے وزارت خارجہ کے ترجمان جہاد مقدسی بھی حکومت سے منحرف ہوکر انقلابیوں سے جاملے تھے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بارہ دسمبر کو وزارت داخلہ کی عمارت پر ہونے والے کار بم دھماکا، جس میں شامی وزیر داخلہ محمد ''ابراہیم الشعار'' شدید زخمی ہوئے تھے، شامی حکومت کی سیکیوریٹی اداروں پر کم زور گرفت کا مظہر ہے۔ اسی طرح گذشتہ جولائی میں شامی وزیر دفاع اور سابق آرمی چیف آف اسٹاف ''دائود راجحہ، اسسٹنٹ نائب صدر جنرل ''حسن ترکمانی'' اور قومی سلامتی کے سربراہ ''ہشام اختیار'' وزارت دفاع کی عمارت میں خود کش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ حیرت انگیز طور پر خود کش حملہ آور بشارالاسد کی سیکیوریٹی دستے میں شامل سرکاری محافظ تھا۔
Load Next Story