وہ درندہ تھا مگر ہم تو انسان ہیں نا

وہ بار بار اپنا پنجہ کسی نہ کسی بچے کی پشت پر نرمی سے پھیرتی جیسے اُسے اٹھا رہی ہو کہ اُٹھو اور دودھ پی لو۔ ماں جو تھی

دل تو اُداسی میں چلا گیا اور ایک لمحہ منظر نہ دیکھنے کا قصد بھی کیا پھر سوچا دیکھو تو سہی واقعہ اصل میں ہوا کیسے؟ فوٹو: ایکسپریس

گھر میں داخل ہوتے ہی غیر معمولی سکوت نے استقبال کیا۔ حیرانگی اِس لیے بھی ہوئی کہ گڑیا کو تو سکون سے بیٹھنا آتا ہی نہیں تھا، وہ بھی سامنے کونے میں یوں دبکی بیٹھی تھی جیسے کوئی انہونی ہوگئی ہو۔ جس سے بھی سامنا ہوا وہ ایک عجیب طرح کی خاموشی میں تھا۔ بی اماں سے پوچھا تو انہوں نے اُداسی سے بتایا کہ تمہاری پالتو بلی کے بچے کوئی درندہ بے دردی سے مارگیا ہے۔ ایک جھٹکا سا لگا اور اب جب گڑیا کے پاس گیا تو اِس کے دبے دبے سے الفاظ سمجھ آنا شروع ہوئے، وہ تسلسل سے ایک ہی گردان کیے جا رہی تھی۔
''مار دیا، خون، مار دیا، خون ۔۔۔۔۔ اُسے اُٹھا کے گلے لگایا تو اُس نے سختی سے اپنی آنکھیں بھینچ لیں۔

مجھے یاد ہے چند دن پہلے ہی جب بلی کے بچے پیدا ہوئے تو وہ ہر ایک کو خوشی سے ہاتھ پکڑ کر اُس جگہ لے کر جاتی اور خوشی سے ایک ہی بات دہراتی، دیکھو مانو کے بے بیز، دیکھو مانو کے بے بیز۔

دل تو اُداسی میں چلا گیا اور ایک لمحہ منظر نہ دیکھنے کا قصد بھی کیا پھر سوچا دیکھو تو سہی واقعہ اصل میں ہوا کیسے؟ بلی کونے میں بیٹھی تھی، ماں جو تھی۔ اُس کی میاؤں میاؤں میں ایک عجیب طرح کا کرب واضح طور پر سُنا جاسکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ میاؤں کرتے ہوئے بھی شدید تکلیف کا شکار ہے۔ کچھ مزید غور کیا تو پہلے بچے پر نظر پڑی۔ اُس کی حالت ایسی تھی کہ نرخرا اُدھڑا ہوا تھا۔ پورا بدن خون سے لت پت اور رگڑا ہوا تھا، جیسے درندے نے اُس کو سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹا ہو، اِس دلخراش منظر کو دیکھنے کے سبب ایک مرتبہ سے زیادہ نظر نہ ڈال سکا۔ وجہ یہ تھی کہ اُس کی آنکھیں ابھی بھی کھلی ہوئی تھیں۔ اُن آنکھوں میں لکھا نظر آرہا تھا کہ کیسے اُس نے اونچی نیچی جگہوں سے گھسیٹتے ہوئے اُس درندے سے جان بخشی کی فریاد کی ہے، مگر دردندہ جو تھا نہ اُس نے ماننا تھا نہ وہ مانا۔ اُس بچے کے پاؤں کی عجیب انداز سے ترتیب بتا رہی تھی کہ اُس کے ہاتھوں کی جگہ استعمال ہونے والے پنجے بے دردی سے ٹوٹ گئے تھے۔ شاید جب درندے نے اُسے سیڑھیوں یا اونچی نیچی جگہوں پر گھسیٹا ہوگا تو اُس نے بے ساختہ کسی چیز کو پکڑا ہوگا اور درندے نے کوئی چیز پکڑے ہاتھوں پر سختی سے اپنا منہ یا پنجہ کس کے ڈالا ہوگا کہ اُس کی انگلیاں وہ ضرب برداشت نہ کر پائیں۔

دوسرے بچے کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ اُس کی حالت ایسی تھی کہ پورے بدن سے ماس ایسے اترچکا تھا جیسے اُسے درندے نے کسی سخت زمین پر مرنے کے بعد بھی گھسیٹا ہو، جب وہ سانسوں کی ڈور سے بھی آزاد ہوچکا تھا۔

تیسرا بچہ اوندھے منہ پڑا تھا اس کی آنکھیں تو بند ہوگئی تھیں مگر اُس کی کمر پر گوشت نہیں تھا اور خون اُس کی جلد کے بالوں پر بھی جم چکا تھا، شاید اُس پر سختی سب سے پہلی آئی تھی۔


چوتھا بلی کا بچہ کمرے کے اندر پڑا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جب اُس نے باقی بہن بھائیوں کا حال دیکھا تو بھاگ کر اپنی جان بچانا چاہی ہوگی، مگر درندہ اپنی درندگی چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا اور اُس نے اُسے کمرے میں ہی جا لیا تھا۔ وہ بلونگڑا کمرے کے وسط میں ہی خون میں ایسے لت پت پڑا تھا کہ فرش پر اُس کی خون کی عجیب دھاری دھار ترتیب بنتی جا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جب اُس کا خون رواں ہوا تو اُسے درندے نے گھسیٹنا شروع کیا اور گھسیٹنے سے اُس کا بدن اپنے ہی خون میں غلطاں ہوکر گھسٹتا ہوا چلا گیا تھا۔

حیران ہوا کہ چاروں کو درندے نے مارا بھی اور لے کر بھی نہیں گیا تو اس کا ثبوت بھی جلد ہی مل گیا۔

بلی خود بھی زخمی حالت میں تھی اور بچوں کے پاس ایسے بیٹھی تھی جیسے اُس کی دانست میں بچے سو رہے ہیں۔ اُس کا زخمی ہونا بتارہا تھا کہ وہ بچوں کے پاس تب پہنچی جب وہ موت کی قید میں جاچکے تھے، مگر اُس نے درندے کو اُس وقت تک لاشے لے جانے سے روکے رکھا جب تک گھر کا کوئی فرد آ نہیں گیا اور اُس کا زخمی ہونا اُس کی حالتِ زار بتا رہا تھا۔ حیران کن طور پر اُسے گہرے زخم آئے تھے مگر وہ بچوں کے پاس ایسے ایستادہ تھی جیسے کسی کو لے جانے نہیں دے گی۔ وہ بار بار اپنا پنجہ کسی نہ کسی بچے کی پشت پر نرمی سے پھیرتی جیسے اُسے اٹھا رہی ہو کہ اُٹھو اور دودھ پی لو۔ ماں جو تھی، وہ کچھ لمحے بعد ایک عجیب کرب سے میاؤں کی آواز نکالتی۔

وہ اپنے مردہ بچوں کو اپنے پنجوں سے گھسیٹ کر اپنے پاس کر رہی تھی، اور اُس میں وہ اپنا درد بھی بھول گئی تھی۔ وہ نہایت نرمی سے اپنا پنجہ بچوں پر رکھ رہی تھی شاید وہ اب بھی سوچ رہی ہو کہ بچوں پر اُس کا پنجہ سختی سے نہ پڑ جائے، یہ جانے بناء کہ بچے تو درد سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ کافی دیر اُس نے مردہ بچوں کو اٹھانے نہیں دیا جیسے ہی گھر کا کوئی فرد مردہ بچوں کو اٹھانے بڑھتا کہ باہر پھینک دے وہ فوراً آگے بڑھتی، اُس میں طاقت نہیں تھی کہ وہ غراتی بس وہ لاچارگی سے ایسے میاؤں کرتی کہ اُٹھانے والا خود ہی رک جاتا۔ ماں کی اذیت جو اب دیکھی نہیں جارہی تھی کہ ماں کے سامنے سے اُس کے بچوں کے لاشے اُٹھالیں۔

بہت دیر گزری کہ بی اماں نے اِس سارے معاملے کو سمیٹنے کی ٹھانی اور کسی نہ کسی طرح بلی کو بہلا پُھسلا کر دودھ کے بہانے دوسری جانب ہٹایا اور دوسرے فرد نے مردہ بچوں کو اٹھایا۔ پھر مجھ سے اُنہوں نے گڑیا کو لیا اور میرے کاندھے کو تھپتھپا کر بس اتنا کہا، حوصلہ کرو! پالتوبلی ہے، ایسا تو ہوجاتا ہے نہ۔ وہ درندہ تھا، حیوان تھا، اُس کا کام حیوانیت دکھانا ہی تھا، ہم تو انسان ہیں بیٹا ۔۔۔ میرے کانوں میں بار بار اُن کا ایک ہی جملہ گردش کر رہا تھا،
''ہم تو انسان ہیں، ہم تو انسان ہیں''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story