جمہوریت کیخلاف ایک اور سازش ناکام
شاید عمران خان کی طرح آصف علی زرداری بھی وزیر اعظم کی نااہلی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
سیاسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا پاناما لیکس پر فیصلہ پاکستان کی سیاست میں دور رس نتائج کا حامل ہے۔سپریم کورٹ نے 57 روز تک محفوظ رکھنے کے بعد بالآخر فیصلہ سنادیا۔
اپوزیشن کی خواہش تھی کہ فیصلہ ایسا آئے کہ وزیراعظم اپنے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیے جائیں، لیکن وزیراعظم پرکرپشن کے جو الزامات عائد کیے گئے تھے وہ ناکافی تھے اور ان کی بنیاد پر ان کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، البتہ سپریم کورٹ نے ان الزامات کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے جو 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے گی۔ وزیراعظم نوازشریف کا صاف بچ جانا دراصل ان کے مخالفین کے لیے مایوس کن ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ اخلاقیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کی بنیاد پر ہے۔ عدالتی فیصلہ میں وزیر اعظم کے مستعفیٰ ہونے کا کوئی حکم نہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے متضاد موقف اختیار کیا ہے انھوں نے کہا کہ انھیں فیصلہ قبول ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے وزیر اعظم محمد نوازشریف سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کیا ہے تو عمران خان بتائیں کہ فیصلے میں مستعفیٰ ہونے کا حکم کہاں دیا گیا ہے۔ یہ ان کی ذاتی خواہش ہے۔ وہ کئی برسوں سے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن استعفیٰ کا مطالبہ عدالتی فیصلے کے منافی ہے۔ استعفے کا مطالبہ کرنا زیب نہیں دیتا کیونکہ نوازشریف کو اس ملک کا وزیر اعظم 20 کروڑ عوام نے بنایا ہے۔ وہ منتخب وزیر اعظم ہیں کسی کی ذاتی خواہش پر وہ کیوں مستعفیٰ ہوں؟ عمران خان کی کوشش یہ تھی کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے مگر اس بار بھی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے مگر پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی نوازشریف پرکرپشن کے الزامات عائد کیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال کیا ہوسکتی ہے آصف زرداری پر کرپشن کے جو الزامات کئی عشروں سے لگائے جاتے رہے ہیں،ان سے اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے انھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ الیکشن میں اپنی ساکھ بحال کرنے کی غرض سے بے سروپا الزامات عائد کریں۔
وزیراعظم نے اس تاریخی فیصلے پر شکرانے کے نوافل ادا کیے اور اپنے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو گلے لگایا جب کہ اس ساری صورتحال سے اپنی والدہ کو بھی آگاہ کیا۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مخالفین کی شکست ہے، درخواست گزار کوئی الزام ثابت نہیں کرسکے۔ عمران خان کو انگلی کے ذریعے نوازشریف کی وکٹ لینے میں ناکامی ہوئی۔ چار ماہ کی سماعت کے بعد تحقیقات کا حکم درخواست گزاروں کی شکست ہے۔ اس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صادق اور امین ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ پاناما فیصلے میں سرخرو ثابت ہوئے۔ مخالفین کی سازش اور مذموم سیاست کا جنازہ نکل گیا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات بھی مخالفین کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ سچ یہی ہے کہ چور دروازے سے شب خون مارنے والوں کی سازش ناکام ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے اس تاریخ ساز فیصلے پر کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں ریلیاں نکالیں، مٹھائی تقسیم کی اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا۔
بلاشبہ یہ فیصلہ سچ کی فتح ہے کیونکہ وزیر اعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں اور ضمیر مطمئن ہے۔ وزیر اعظم نے پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آنے کے فوری بعد اپوزیشن کو یہ پیشکش بھی کی تھی کہ پانامالیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے مگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بار بار یوٹرن لیتے رہے اور سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اب سپریم کورٹ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو وزیر اعظم محمد نوازشریف کی پیشکش کا پہلے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
قارئین میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے وہی پیش کرتا ہے جس کا دامن صاف ہو جس نے کوئی غلط کام نہ کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف ابتدا ہی سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تیار تھے اور اب وہ جے آئی ٹی کی تحقیقات سے سرخرو ہوں گے اور مخالفین کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس فیصلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی سیاسی جانشین مریم نواز کو عدالتی فیصلے میں تقریباً تمام الزمات سے بری کردیا گیا ہے جو پیٹشنرز اور اپوزیشن جماعتوں کاہدف بنی ہوئی تھیں۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے قرار دیا گیا ہے کہ مریم اپنے والد کے زیر کفالت نہیں ہیں جب کہ عدالت نے یہ بھی نہیں کہا کہ مے فیئر کی جائیداد کی بینیفیشل اور ٹرسٹی کسی طرح سے ان کی ہے۔ مزید برآں مریم کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آف شور کمپنیوں سے کسی قسم کے تعلق اور اس کے نتیجے میں نا اہل ہونے سے سپریم کورٹ کی جانب سے کلیئر ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس فیصلے کا یہ پہلو بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں مریم نواز کو بھی اپنے مذموم سازشوں کے جال میں پھسنانا چاہتی تھیں مگر وہ ناکام رہیں۔
پانامہ کیس کی سپریم کورٹ میں چار ماہ تین دن تک 36 سماعتیں ہوئی ہیں۔ اس دوران 25 ہزار سے زائد دستاویزات پیش کی گئیں مگر سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور شیخ رشید کی تقریباً ہر استدعا کو مسترد کردیا اور ان کی طرف سے پیش کی گئیں دستاویزات کی صحت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ فی الحال پاکستان کی سیاست میں اپوزیشن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں ناکام رہی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کا مزید موقع مل گیا ہے۔
اگر اس فیصلے کی بنیاد پر بننے والی جے آئی ٹی کی تحقیقات بھی وزیر اعظم کے حق میں آئیں تو اپوزیشن کو آئندہ الیکشن میں خالی ہاتھ گھر لوٹنا ہوگا جب کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف آیندہ انتخابات میں ایک طاقتور سیاسی رہنما کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے قطع نظر سیاسی میدان میں اس وقت وزیر اعظم نے اپنے مخالفین کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اور خاص طور پر سندھ میں نوازشریف کی سیاسی حکمت عملی سے پیپلز پارٹی کے کیمپ میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور اسی لیے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر پیپلز پارٹی نے شدید مایوسی کا اظہارکیا۔
شاید عمران خان کی طرح آصف علی زرداری بھی وزیر اعظم کی نااہلی کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن وزیراعظم نے سیاست کے میدان خار ذار کے ساتھ ساتھ عدالتی محاذ پر شاندار کامیابی حاصل کرکے اپنا سکہ جما لیا۔ اب اس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاناماکیس کے حالیہ فیصلے نے وزیر اعظم کی دیانتداری پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ یہی بات وزیر اعظم کے سیاسی امور کے معاون خصوصی آصف کرمانی نے بھی کی ہے جس پر میں پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کل بھی وزیر اعظم محمد نوازشریف دیانتدار تھے اور قوم کی خدمت کررہے تھے اور آیندہ بھی قوم کی خدمت کرتے رہیں گے۔
اپوزیشن کی خواہش تھی کہ فیصلہ ایسا آئے کہ وزیراعظم اپنے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیے جائیں، لیکن وزیراعظم پرکرپشن کے جو الزامات عائد کیے گئے تھے وہ ناکافی تھے اور ان کی بنیاد پر ان کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، البتہ سپریم کورٹ نے ان الزامات کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے جو 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے گی۔ وزیراعظم نوازشریف کا صاف بچ جانا دراصل ان کے مخالفین کے لیے مایوس کن ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ اخلاقیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کی بنیاد پر ہے۔ عدالتی فیصلہ میں وزیر اعظم کے مستعفیٰ ہونے کا کوئی حکم نہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے متضاد موقف اختیار کیا ہے انھوں نے کہا کہ انھیں فیصلہ قبول ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے وزیر اعظم محمد نوازشریف سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کیا ہے تو عمران خان بتائیں کہ فیصلے میں مستعفیٰ ہونے کا حکم کہاں دیا گیا ہے۔ یہ ان کی ذاتی خواہش ہے۔ وہ کئی برسوں سے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن استعفیٰ کا مطالبہ عدالتی فیصلے کے منافی ہے۔ استعفے کا مطالبہ کرنا زیب نہیں دیتا کیونکہ نوازشریف کو اس ملک کا وزیر اعظم 20 کروڑ عوام نے بنایا ہے۔ وہ منتخب وزیر اعظم ہیں کسی کی ذاتی خواہش پر وہ کیوں مستعفیٰ ہوں؟ عمران خان کی کوشش یہ تھی کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے مگر اس بار بھی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے مگر پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی نوازشریف پرکرپشن کے الزامات عائد کیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال کیا ہوسکتی ہے آصف زرداری پر کرپشن کے جو الزامات کئی عشروں سے لگائے جاتے رہے ہیں،ان سے اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے انھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ الیکشن میں اپنی ساکھ بحال کرنے کی غرض سے بے سروپا الزامات عائد کریں۔
وزیراعظم نے اس تاریخی فیصلے پر شکرانے کے نوافل ادا کیے اور اپنے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو گلے لگایا جب کہ اس ساری صورتحال سے اپنی والدہ کو بھی آگاہ کیا۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مخالفین کی شکست ہے، درخواست گزار کوئی الزام ثابت نہیں کرسکے۔ عمران خان کو انگلی کے ذریعے نوازشریف کی وکٹ لینے میں ناکامی ہوئی۔ چار ماہ کی سماعت کے بعد تحقیقات کا حکم درخواست گزاروں کی شکست ہے۔ اس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صادق اور امین ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ پاناما فیصلے میں سرخرو ثابت ہوئے۔ مخالفین کی سازش اور مذموم سیاست کا جنازہ نکل گیا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات بھی مخالفین کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ سچ یہی ہے کہ چور دروازے سے شب خون مارنے والوں کی سازش ناکام ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے اس تاریخ ساز فیصلے پر کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں ریلیاں نکالیں، مٹھائی تقسیم کی اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا۔
بلاشبہ یہ فیصلہ سچ کی فتح ہے کیونکہ وزیر اعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں اور ضمیر مطمئن ہے۔ وزیر اعظم نے پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آنے کے فوری بعد اپوزیشن کو یہ پیشکش بھی کی تھی کہ پانامالیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے مگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بار بار یوٹرن لیتے رہے اور سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اب سپریم کورٹ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو وزیر اعظم محمد نوازشریف کی پیشکش کا پہلے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
قارئین میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے وہی پیش کرتا ہے جس کا دامن صاف ہو جس نے کوئی غلط کام نہ کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف ابتدا ہی سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تیار تھے اور اب وہ جے آئی ٹی کی تحقیقات سے سرخرو ہوں گے اور مخالفین کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس فیصلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی سیاسی جانشین مریم نواز کو عدالتی فیصلے میں تقریباً تمام الزمات سے بری کردیا گیا ہے جو پیٹشنرز اور اپوزیشن جماعتوں کاہدف بنی ہوئی تھیں۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے قرار دیا گیا ہے کہ مریم اپنے والد کے زیر کفالت نہیں ہیں جب کہ عدالت نے یہ بھی نہیں کہا کہ مے فیئر کی جائیداد کی بینیفیشل اور ٹرسٹی کسی طرح سے ان کی ہے۔ مزید برآں مریم کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آف شور کمپنیوں سے کسی قسم کے تعلق اور اس کے نتیجے میں نا اہل ہونے سے سپریم کورٹ کی جانب سے کلیئر ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس فیصلے کا یہ پہلو بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں مریم نواز کو بھی اپنے مذموم سازشوں کے جال میں پھسنانا چاہتی تھیں مگر وہ ناکام رہیں۔
پانامہ کیس کی سپریم کورٹ میں چار ماہ تین دن تک 36 سماعتیں ہوئی ہیں۔ اس دوران 25 ہزار سے زائد دستاویزات پیش کی گئیں مگر سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور شیخ رشید کی تقریباً ہر استدعا کو مسترد کردیا اور ان کی طرف سے پیش کی گئیں دستاویزات کی صحت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ فی الحال پاکستان کی سیاست میں اپوزیشن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں ناکام رہی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کا مزید موقع مل گیا ہے۔
اگر اس فیصلے کی بنیاد پر بننے والی جے آئی ٹی کی تحقیقات بھی وزیر اعظم کے حق میں آئیں تو اپوزیشن کو آئندہ الیکشن میں خالی ہاتھ گھر لوٹنا ہوگا جب کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف آیندہ انتخابات میں ایک طاقتور سیاسی رہنما کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے قطع نظر سیاسی میدان میں اس وقت وزیر اعظم نے اپنے مخالفین کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اور خاص طور پر سندھ میں نوازشریف کی سیاسی حکمت عملی سے پیپلز پارٹی کے کیمپ میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور اسی لیے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر پیپلز پارٹی نے شدید مایوسی کا اظہارکیا۔
شاید عمران خان کی طرح آصف علی زرداری بھی وزیر اعظم کی نااہلی کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن وزیراعظم نے سیاست کے میدان خار ذار کے ساتھ ساتھ عدالتی محاذ پر شاندار کامیابی حاصل کرکے اپنا سکہ جما لیا۔ اب اس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاناماکیس کے حالیہ فیصلے نے وزیر اعظم کی دیانتداری پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ یہی بات وزیر اعظم کے سیاسی امور کے معاون خصوصی آصف کرمانی نے بھی کی ہے جس پر میں پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کل بھی وزیر اعظم محمد نوازشریف دیانتدار تھے اور قوم کی خدمت کررہے تھے اور آیندہ بھی قوم کی خدمت کرتے رہیں گے۔