اذان کیا کچھ کرتی ہے
سونونگم نے تو خوامخواہ آذان کی آواز سے ڈسٹرب ہونے کا شوشا چھوڑا تھا۔
ہم نے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ اچھا ہوا شریمان مودی جی برسر اقتدار آگئے۔ ان کا اقتدار میں آنا ہندوستان کے سیکولرازم کی قلعی کھول دے گا اور ہندو ذہن کو آشکار کردے گا۔
مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مشرکانہ معاشرے ایک دوسرے کے حمایتی ہوتے ہیں۔ ہندو انتہا پسندی پر عالمی ضمیر کو پھانس بھی نہیں چبھی اور مودی جی کی مسلم دشمن سرگرمیوں بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ گائو کشی کے باعث نہیں بلکہ اس کے شبہ میں آئے دن کوئی نہ کوئی مسلمان قتل کیا جاتا رہتا ہے مگر انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں اور حقوق انسانی کے دعویدار ان پر اس طرح خاموش ہیں جیسے ان کے ہونٹ سی دیے گئے ہوں۔
ہم جو اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ مودی جی کے اقتدار سے ہندو انتہا پسندی کھل کر سامنے آ جائے گی جس طرح ہر مسلم انتہا پسند نہیں اسی طرح ہر ہندو بھی انتہا پسند نہیں مگر مودی جی کے زیر اثر جب ہندو انتہا پسند اپنا جلوہ دکھائیںگے تو عالم انسانیت انگشت بہ دنداں رہ جائے گا۔ بشرطیکہ عالم میں کہیں انسانیت نام کی چیز پائی جاتی ہو۔
اب ''کسی کی نظرکی شہ پاکر'' ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے ایک گلوکار سونو نگم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں فرمایا ہے کہ علی الصبح اذان کی آواز سے ان کی نیند ڈسٹرب ہوتی ہے جو ظاہر ہے دن میں ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہوگی انھوں نے علی الصبح اذان دے کر ان کی نیند کو خراب کرنے کے عمل کو ''غنڈہ گردی'' (نعوذ باﷲ) قرار دیا۔
اگر ان کے گھر پاس کوئی مندر بھی ہوتا ان کو وہاں سے گھنٹی کی آوازیں بھی سنائی دیتیں اور وہ اس کو کیا قرار دیتے۔ وہ خود ہی طے کرلیں ہم اپنا قلم کیوں آلودہ کریں۔
البتہ مزے کی بات یہ ہوئی کہ بمبئی میں بی بی سی کی نمائندہ سپریا سوگلے نے سونو نگم کے بنگلے کے باہر ڈیرہ جمالیا۔ ان کے ساتھ بمبئی کے چند دیگر صحافی بھی تھے۔ ان لوگوں نے رات سونونگم کے بنگلے کے باہر سڑک پر گزاری اور صبح 4½ تک وہاں موجود رہے مگر سونو نگم کے بنگلے کے باہر سڑک پر اذان کی آواز سنائی نہیں دی۔ سپریا کے کہنے کے مطابق سونو نگم کے بنگلے سے قریب ترین مسجد بھی 600 میٹر دور ہے اور وہاں سے اذان کی آواز سونو کے بنگلے تک نہیں پہنچتی۔
ان صحافیوں نے اندھیری ویسٹ میں واقع اس مسجد (جو مدرسہ تعلیم القرآن سے منسلک ہے) کے امام صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا ہے کہ یہ مدرسہ اور اس سے ملحق مسجد گزشتہ 30 سال سے قائم ہے اور ان سالوں میں کسی نے بھی اذان کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی۔
امام صاحب کے بیان کو کافی نہ سمجھتے ہوئے من چلے صحافیوں نے بعض پڑوسیوں سے بھی رابطہ کیا۔ چنانچہ سونو کے پڑوسنوں کرن داس اور لتا سچدیو نے اس بات کی تصدیق کی کہ اذان کی آواز ان کے گھروں کے اندر سنائی نہیں دیتی البتہ کبھی کبھار جب وہ گھر سے باہر سڑک پر ہوں تو ظہر کی اذان کی غیر واضح آواز سنائی دے دیتی ہے البتہ فجر کی اذان کی آواز نے ان کی نیند میں کبھی خلل نہیں ڈالا۔
صحافیوں کی اس پیشہ ورانہ تحقیق سے قطع نظر بھارتی فلموں کی سابق اداکارہ اور ڈائریکٹر پوجا بھٹ نے سونو نگم کے رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ ''میری رہائش باندرہ میں ہے جہاں اذان، چرچ کی گھنٹیوں کی آوازیں مجھے بیدار کردیتی ہیں۔ اس وقت میں اٹھتی ہوں، اگربتیاں سلگاتی اور بھارت کی روح کو سلام کرتی ہوں۔
سونو نگم کو جو چیز غنڈہ گردی لگتی ہے ور جو آواز اس کو سرے سے سنائی ہی نہیں دیتی وہی آواز پوجا بھٹ کو بیدار کرنے اور اس کے اندر کی روحانی کیفیت کو بھی جگانے کا باعث بنتی ہے۔ وہ اگربتیاں سلگاکر بھارت کی روح کو سلام کرتی ہے۔
سونونگم نے تو خوامخواہ آذان کی آواز سے ڈسٹرب ہونے کا شوشا چھوڑا تھا۔ پوجا بھٹ نے یہ آواز سن کر اپنے رد عمل کا اظہار کرکے ایک شخص کے اندر کی غلاظت کو باہر نکال پھینکا ہے۔ یہی وہ انتہا پسندی ہے جو مودی صاحب کی بھارت کو دین ہے۔ ابھی اس کے خلاف ادھر ادھر سے کوئی آواز سنائی دے جاتی ہے، آہستہ آہستہ یہ آوازیں ماند پڑ جائیںگی اور اگر مودی صاحب اور ان کے لواحقین برسر اقتدار رہے تو پھر ہر اقلیت اپنے وجود پر پشیمان نظر آئے گی۔ اس وقت تو سونو نگم کے خلاف مسلم حلقوں کی طرف سے کوئی بہت زور دار رد عمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کے مصداق ان کا پول زیادہ برحق پرست ہندوئوں ہی کی طرف سے کھولا گیا۔ چنانچہ آج کل معروف اداکارہ پریانکا چوپڑا کا ایک سال پرانا ایک وڈیو کلپ شیئر کیا جارہاہے جس میں پریانکا نے کہاہے کہ دن بھر کام کی تھکاوٹ کے بعد میں سر شام اپنے گھر کے ٹیرس پر آبیٹھتی ہوں۔ اس وقت ہر طرف سے مغرب کی اذان کی آوازیں آتی ہیں، ان آوازوں سے مجھے بڑا سکون ملتا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ یہ اذانیں ہر وقت سنائی دیتی رہیں۔
پوجا بھٹ اور پریانکا چوپڑا کے ان بیانات کو ہم مسلمانوں کی اشک شوئی خیال نہیں کرتے بلکہ یہ صحیح الدماغ اور فکر صبح کی حامل فنکاروں کا وہ رد عمل ہے جو ہندوستان میں اس وقت کی گھٹی گھٹی فضا کے خلاف ایک صحیح رد عمل ہوسکتا ہے اور صحیح الفکری کی دلیل ہے۔
لطف کی بات ہے کہ عین اس وقت جب راجھستان میں گائو کشی کے شبہ میں انسانوں کو قتل کیاجارہاتھا اور پولیس مجرموں کو ڈھونڈنے میں مصروف تھی، بھارت کی ایک اور لیجنڈ اداکارہ جیا بچن نے جو اس وقت لوک سبھا کی ممبر ہیں پارلیمان میںتقریر کرتے ہوئے کہا ''ہم گائے کی حفاظت کے لیے بڑے بڑے اقدام تو کررہے ہیں مگر عورت کے تحفظ کی ہمیں کوئی فکر نہیں اور اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا جارہا۔''
یاد رہے کہ بھارت عورتوں کے لحاظ سے غیر محفوظ ملکوں کی فہرست میں نمایاں ہے۔
کاش! یہ آوازیں اہل اقتدار کی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار سکیں۔
مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مشرکانہ معاشرے ایک دوسرے کے حمایتی ہوتے ہیں۔ ہندو انتہا پسندی پر عالمی ضمیر کو پھانس بھی نہیں چبھی اور مودی جی کی مسلم دشمن سرگرمیوں بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ گائو کشی کے باعث نہیں بلکہ اس کے شبہ میں آئے دن کوئی نہ کوئی مسلمان قتل کیا جاتا رہتا ہے مگر انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں اور حقوق انسانی کے دعویدار ان پر اس طرح خاموش ہیں جیسے ان کے ہونٹ سی دیے گئے ہوں۔
ہم جو اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ مودی جی کے اقتدار سے ہندو انتہا پسندی کھل کر سامنے آ جائے گی جس طرح ہر مسلم انتہا پسند نہیں اسی طرح ہر ہندو بھی انتہا پسند نہیں مگر مودی جی کے زیر اثر جب ہندو انتہا پسند اپنا جلوہ دکھائیںگے تو عالم انسانیت انگشت بہ دنداں رہ جائے گا۔ بشرطیکہ عالم میں کہیں انسانیت نام کی چیز پائی جاتی ہو۔
اب ''کسی کی نظرکی شہ پاکر'' ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے ایک گلوکار سونو نگم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں فرمایا ہے کہ علی الصبح اذان کی آواز سے ان کی نیند ڈسٹرب ہوتی ہے جو ظاہر ہے دن میں ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہوگی انھوں نے علی الصبح اذان دے کر ان کی نیند کو خراب کرنے کے عمل کو ''غنڈہ گردی'' (نعوذ باﷲ) قرار دیا۔
اگر ان کے گھر پاس کوئی مندر بھی ہوتا ان کو وہاں سے گھنٹی کی آوازیں بھی سنائی دیتیں اور وہ اس کو کیا قرار دیتے۔ وہ خود ہی طے کرلیں ہم اپنا قلم کیوں آلودہ کریں۔
البتہ مزے کی بات یہ ہوئی کہ بمبئی میں بی بی سی کی نمائندہ سپریا سوگلے نے سونو نگم کے بنگلے کے باہر ڈیرہ جمالیا۔ ان کے ساتھ بمبئی کے چند دیگر صحافی بھی تھے۔ ان لوگوں نے رات سونونگم کے بنگلے کے باہر سڑک پر گزاری اور صبح 4½ تک وہاں موجود رہے مگر سونو نگم کے بنگلے کے باہر سڑک پر اذان کی آواز سنائی نہیں دی۔ سپریا کے کہنے کے مطابق سونو نگم کے بنگلے سے قریب ترین مسجد بھی 600 میٹر دور ہے اور وہاں سے اذان کی آواز سونو کے بنگلے تک نہیں پہنچتی۔
ان صحافیوں نے اندھیری ویسٹ میں واقع اس مسجد (جو مدرسہ تعلیم القرآن سے منسلک ہے) کے امام صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا ہے کہ یہ مدرسہ اور اس سے ملحق مسجد گزشتہ 30 سال سے قائم ہے اور ان سالوں میں کسی نے بھی اذان کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی۔
امام صاحب کے بیان کو کافی نہ سمجھتے ہوئے من چلے صحافیوں نے بعض پڑوسیوں سے بھی رابطہ کیا۔ چنانچہ سونو کے پڑوسنوں کرن داس اور لتا سچدیو نے اس بات کی تصدیق کی کہ اذان کی آواز ان کے گھروں کے اندر سنائی نہیں دیتی البتہ کبھی کبھار جب وہ گھر سے باہر سڑک پر ہوں تو ظہر کی اذان کی غیر واضح آواز سنائی دے دیتی ہے البتہ فجر کی اذان کی آواز نے ان کی نیند میں کبھی خلل نہیں ڈالا۔
صحافیوں کی اس پیشہ ورانہ تحقیق سے قطع نظر بھارتی فلموں کی سابق اداکارہ اور ڈائریکٹر پوجا بھٹ نے سونو نگم کے رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ ''میری رہائش باندرہ میں ہے جہاں اذان، چرچ کی گھنٹیوں کی آوازیں مجھے بیدار کردیتی ہیں۔ اس وقت میں اٹھتی ہوں، اگربتیاں سلگاتی اور بھارت کی روح کو سلام کرتی ہوں۔
سونو نگم کو جو چیز غنڈہ گردی لگتی ہے ور جو آواز اس کو سرے سے سنائی ہی نہیں دیتی وہی آواز پوجا بھٹ کو بیدار کرنے اور اس کے اندر کی روحانی کیفیت کو بھی جگانے کا باعث بنتی ہے۔ وہ اگربتیاں سلگاکر بھارت کی روح کو سلام کرتی ہے۔
سونونگم نے تو خوامخواہ آذان کی آواز سے ڈسٹرب ہونے کا شوشا چھوڑا تھا۔ پوجا بھٹ نے یہ آواز سن کر اپنے رد عمل کا اظہار کرکے ایک شخص کے اندر کی غلاظت کو باہر نکال پھینکا ہے۔ یہی وہ انتہا پسندی ہے جو مودی صاحب کی بھارت کو دین ہے۔ ابھی اس کے خلاف ادھر ادھر سے کوئی آواز سنائی دے جاتی ہے، آہستہ آہستہ یہ آوازیں ماند پڑ جائیںگی اور اگر مودی صاحب اور ان کے لواحقین برسر اقتدار رہے تو پھر ہر اقلیت اپنے وجود پر پشیمان نظر آئے گی۔ اس وقت تو سونو نگم کے خلاف مسلم حلقوں کی طرف سے کوئی بہت زور دار رد عمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کے مصداق ان کا پول زیادہ برحق پرست ہندوئوں ہی کی طرف سے کھولا گیا۔ چنانچہ آج کل معروف اداکارہ پریانکا چوپڑا کا ایک سال پرانا ایک وڈیو کلپ شیئر کیا جارہاہے جس میں پریانکا نے کہاہے کہ دن بھر کام کی تھکاوٹ کے بعد میں سر شام اپنے گھر کے ٹیرس پر آبیٹھتی ہوں۔ اس وقت ہر طرف سے مغرب کی اذان کی آوازیں آتی ہیں، ان آوازوں سے مجھے بڑا سکون ملتا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ یہ اذانیں ہر وقت سنائی دیتی رہیں۔
پوجا بھٹ اور پریانکا چوپڑا کے ان بیانات کو ہم مسلمانوں کی اشک شوئی خیال نہیں کرتے بلکہ یہ صحیح الدماغ اور فکر صبح کی حامل فنکاروں کا وہ رد عمل ہے جو ہندوستان میں اس وقت کی گھٹی گھٹی فضا کے خلاف ایک صحیح رد عمل ہوسکتا ہے اور صحیح الفکری کی دلیل ہے۔
لطف کی بات ہے کہ عین اس وقت جب راجھستان میں گائو کشی کے شبہ میں انسانوں کو قتل کیاجارہاتھا اور پولیس مجرموں کو ڈھونڈنے میں مصروف تھی، بھارت کی ایک اور لیجنڈ اداکارہ جیا بچن نے جو اس وقت لوک سبھا کی ممبر ہیں پارلیمان میںتقریر کرتے ہوئے کہا ''ہم گائے کی حفاظت کے لیے بڑے بڑے اقدام تو کررہے ہیں مگر عورت کے تحفظ کی ہمیں کوئی فکر نہیں اور اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا جارہا۔''
یاد رہے کہ بھارت عورتوں کے لحاظ سے غیر محفوظ ملکوں کی فہرست میں نمایاں ہے۔
کاش! یہ آوازیں اہل اقتدار کی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار سکیں۔