میجر اسحاق محمد کی یاد میں
پورا کشمیر آزاد ہوگا مگر اس اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت نے مزید پیش قدمی سے روک دیا۔
بنا کسی تمہید کے عرض کرتا چلوں کہ میجراسحاق محمد 4 اپریل 1911ء کو مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر سے سولہ سترہ میل دور گائوں اکھاڑہ میں پیدا ہوئے،ان کے والد کا نام نور محمد تھا۔ وہ ایک شریف النفس وسیدھے سادے کسان تھے۔
البتہ میجر اسحاق کی والدہ زیور تعلیم سے ضرور آراستہ تھیں۔ وہ خود چونکہ مدرس کی بیٹی تھیں لہٰذا ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے چنانچہ والدہ کی کوشش سے ان کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، یہ ضرور تھا کہ انھیں پانچ سے چھ میل دور دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا وہاں سے انھوں نے آٹھویں درجہ تک تعلیم حاصل کی جب کہ میٹرک تک تعلیم انھوں نے جالندھر کے ہائی اسکول سے امتیازی پوزیشن سے حاصل کی۔
البتہ مزید حصول تعلیم کے لیے M.A.O کالج امرتسر میں داخلہ لے لیا جہاں کالج کے پرنسپل اس زمانے کے نامور مارکسی دانشور، ادیب محمود الظفر تھے ان کی شریک حیات رشیدہ جہاں جوکہ خود بھی ایک اچھی ادیبہ و شاعرہ تھیں جب کہ شہرۂ آفاق شاعر و ادیب فیض احمد فیض بھی انگریزی کی تعلیم دینے پر مامور تھے۔ دانشور ظہیرکشمیری میجر اسحاق محمد کے ہم جماعت تھے۔
پرنسپل محمود الظفر کے کمیونسٹ پارٹی کے ورکرز و رہنمائوں سے رابطے تھے۔ ان کے گھر پر اسٹڈی سرکل ہوا کرتے تھے جہاں مارکسی تعلیم دی جاتی چنانچہ اسی اسٹڈی سرکل سے میجر اسحاق محمد نے مارکسی تعلیمات پر مکمل عبور حاصل کیا جب کہ اسی زمانے میں انھوں نے ظہیر کشمیری کے ساتھ مل کر چند ادبی مضامین لکھے جوکہ مختلف رسائل میں چھپتے رہے۔
1940ء میں انھوں نے مسلمانوں و سکھوں کی ایکتا کے لیے ایک مضمون لکھا جو کہ روزنامہ 'احسان' لاہور میں چھپا۔ یہ اپنے منفرد موضوع کے اعتبار سے اولین تحریر ثابت ہوا البتہ 1942ء میں جب کہ دوسری عالمگیر جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی تو اتحادی فوجوں نے جرمنی کی قیادت میں سوویت یونین پر حملہ کردیا۔ اس حملے کو دنیا بھرکے محنت کشوں و مارکسی ترقی پسند نظریات رکھنے والوں نے اپنی ذات پر حملہ جانا چنانچہ دنیا بھر کے دانشور، شاعر، اہل قلم، ادیب و محنت کش اتحادیوں سے ملکوں ملکوں لڑنے کے لیے سپہ کا روپ دھارچکے تھے۔
ان حالات میں میجر اسحاق محمد نے دین محمد تاثیر و فیض احمد فیض کے ہمراہ فوج میں جانے کا فیصلہ کیا اس وقت تک میجر اسحاق محمد BA تک تعلیم حاصل کرچکے تھے چنانچہ وہ فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوگئے۔ 1944ء میں انھیں میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی کیونکہ اسی برس انھوں نے جاپانی فوجیوں و برما کے مقام پر شکست فاش دی اور جاپانیوں کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے کیونکہ جاپانیوں کا اگلا ہدف بھارت تھا۔
1948ء میں برصغیر کی تقسیم کے اگلے برس جب میجر اسحاق محمد بریگیڈیئر میجر تھے تو انھیں میجر جنرل اکبرخان کی قیادت میں کشمیر کے محاذ پر بھارتی فوجوں کے مقابل بھیجا گیا۔ وہ بھارتی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے سری نگر سے فقط چار پانچ میل کی دوری پر تھے تو ملک کی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت نے حکم دیا کہ جہاں ہو وہیں اپنے قدم روک لو، مگر میجر اسحاق کا اصرار تھا کہ ہم فقط دو گھنٹے بعد سری نگر میں داخل ہوجائیں گے پھر بعد میں سری نگر میں داخل ہوجائیں گے۔
پورا کشمیر آزاد ہوگا مگر اس اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت نے مزید پیش قدمی سے روک دیا۔ یوں کشمیر آج تک آزاد نہ ہوسکا بصورت دیگر اس وقت کشمیر کی آزادی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا جب کہ اسی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت نے یہ بیان جاری کیا کہ ابھی ابھی ایک بہت بڑی سازش کا انکشاف ہوا ہے یہ 9 مارچ 1951ء کی تاریخ تھی اور اگلے روز یعنی 10 مارچ 1951ء کو مغربی پاکستان میں عام انتخابات ہونے والے تھے اور ان انتخابات میں دو کمیونسٹ رہنمائوں کی جیت کے قوی امکانات تھے۔
بہرکیف اس سازش کے الزام میں میجر اسحاق محمد کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سید سجاد ظہیر، کامریڈ عطا، جنرل اکبر خان ان کی زوجہ نسیم جہاں، ظفر اﷲ پوشنی وغیرہ پر حیدر آباد میں مقدمہ چلایا گیا اس کیس کو حکومت کی جانب سے پنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا اور تمام لوگوں کو پانچ پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی جب کہ 26 جولائی 1944ء کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی۔ قید کی سزا پوری ہونے پر ان افسران کو ملازمت کی بحالی کی پیشکش ہوئی جسے بشمول میجر اسحاق سب نے ٹھکرادیا۔
اس وقت میجر اسحاق محمد کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے باعث عوامی لیگ میں شامل ہو گئے جب کہ بعد ازاں مولانا بھاشانی کی قیادت میں قائم ہونے والی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) میں شامل ہو گئے۔ رہائی کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی اور وکالت شروع کردی۔اس شعبے میں وہ ایک کامیاب ترین وکیل ثابت ہوئے۔ ایک روز لاہور میں کافی ہائوس پر نامور قانون دان منظور قادر کے ہمراہ بیٹھے تھے کہ میجر اسحاق محمد کو گرفتار کر لیا گیا، اگرچہ اس موقعے پر منظور قادر نے سخت مزاحمت کی تھی اور پھر 1960ء میں ایوبی آمریت میں منظور قادر وزیر قانون مقرر کردیے گئے۔
13 نومبر 1960ء کو جب شاہی قلعہ لاہور میں نامور کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کو اذیت دے کر شہید کردیا گیا اور اس کی موت کو خود سوزی کا نام دیا گیا تو میجر اسحاق محمد خاموش نہ رہ سکے اور ہر فورم پر یہ ثابت کیا کہ حسن ناصر نے خود سوزی نہیں کی بلکہ اسے تشدد سے ہلاک کیا گیا ہے۔ میجر اسحاق محمد نے حسن ناصر کی شہادت نامی کتاب بھی تحریر کی جب کہ 1964ء میں انھوں نے وکالت کو خیرباد کہہ دیا اور دنیا تیاگ کر سیدو والا پتن کے قریب ککروانی کھوہ پر بیٹھ گئے اور پنجاب کے قدیم ترین باشندوں، مصلیوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرتے رہے اور چھ ماہ کے مشاہدے کے بعد ڈرامہ مصلی تیار کیا جسے مختلف مواقعے پر اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
1966ء میں مولانا بھاشانی کے گائوں میں نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کانگریس منعقد ہوئی تو میجر اسحاق محمد کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل چن لیا گیا البتہ 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد وہ مزدور کسان پارٹی سے وابستہ ہوگئے اور 1973ء میں پارٹی کی مرکزی کانگریس شیر گڑھ ضلع مردان میں انھیں مزدور کسان پارٹی کا صدر چنا گیا مختصر یہ کہ 1981ء میں میجر اسحاق محمد کو CR اسلم، عابد حسن منٹو وغیرہ کے ساتھ گرفتار کرکے بہاولپور جیل میں رکھا گیا، جہاں 1982ء میں ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔
اگر بروقت علاج ممکن ہوتا تو جان بچنے کا امکان تھا مگر میجر صاحب نے مشروط رہائی قبول نہ کی البتہ بعد ازاں سول اسپتال فیصل آباد میں دوران علاج 23 اپریل 1981ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ ان کی جسمانی موت تھی نظریاتی نہیں۔ ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے اور جب تک دنیا میں بھوک غربت افلاس جہالت ہے یہ نظریہ زندہ رہے گا 23 اپریل 2017ء کو ہم میجر صاحب کی 35 ویں برسی پر عہد کرتے ہیں کہ میجر صاحب کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے مساوات کا سماج قائم کرکے دم لیںگے۔