کراچی میں پانی کا شدید بحران
مستقبل میں قلتِ آب خانہ جنگی کا سبب بن سکتی ہے۔
MUZAFFARABAD:
انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافے سے صنعتی، گھریلو اور زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کی طلب و رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے واضح فرق اور پانی کی قلت کی وجہ سے ملکی اور عالمی سطح پر جو صورت حال بنتی نظر آرہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے اور یوں لگتا ہے کہ طاقت ور ممالک جس طرح ماضی میں مختلف چھوٹے ممالک کے جملہ وسائل پر قبضہ کرکے اپنے زیر تصرف لاتے رہے ہیں، بالکل اسی طرح مستقبل قریب میں طاقت ور ممالک کی جانب سے پانی کے وسائل پر قبضے اور حصول کے لیے کم زور اور مخالف ممالک پر فوج کشی کرکے ان کے وسائل کو اپنے قبضے میں لینے کا جنون مزید پروان چڑھے گا۔
بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے اس انتہائی سنگین مسئلے پر کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں کی بل کہ دنیا کے بیشتر ممالک سمیت بھارت اور بنگلا دیش بھی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر اور ان کی منصوبہ بندی پر توجہ دے رہے ہیں۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ جس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے وہ اربوں روپے خرچ کررہے ہیں وہ دراصل پاکستان کے حصے کا پانی ہے جو وہ چوری کرکے اپنے مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ذخیرہ کررہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا سلسلہ گزشتہ 40 سال سے رکا ہوا ہے۔ مستقبل کی پیش بندی اور دور اندیشی کا تقاضا تو یہ تھا کہ تربیلا ڈیم کے فوراً بعد اسی جیسا کوئی اور بڑا منصوبہ بنانے پر فوری توجہ دی جاتی اور اس پر فوری طور پر عمل بھی کیا جاتا، لیکن وطن عزیز میں جاری معاشی ابتری، سیاسی بحران، سیاست دانوں کی آپس میں حکومت کے لیے کھینچا تانی، جمہوریت کی بساط کا بار بار لپیٹا جانا اور دیگر کئی وجوہات ہیں جن کے باعث اس اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی جاسکی۔ جب کہ اس دوران بھارت خاموشی کے ساتھ مسلسل پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں کا رخ تبدیل کرنے میں مصروف ہے جس پر ہمارے حکم رانوں کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی میں بھی پانی کی طلب اور رسد میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اس وقت شہر کراچی کو تمام تر ذرایع سے جو پانی فراہم کررہا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ادارہ اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے۔ پھر کراچی الیکٹرک اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی باہمی کش مکش سے پانی کی فراہمی شدید مثاتر ہوئی ہے۔ اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کی سنجیدگی اور کوشش بھی سب ہی نظر آرہی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال میں جب کہ ہمیں شہری ضروریات کے مطابق مطلوبہ مقدار میں پانی میسر ہی نہیں ہے کیا ہم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ہم اس نعمت ربی کا کس قدر غیر ضروری اور بے دریغ استعمال کرکے اپنی آئندہ نسلوں کو پیاسا مارنے کا سامان کررہے ہیں، جی ہاں یہ حقیقت ہے لیکن اس کا ادراک ہم سے اس لیے نہیں ہو پارہا کہ ہماری ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم ہونے کے سبب دنیا میں ہونے والے موسمی تغیرات و تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہے اور نہ گلوبل وارمنگ جیسی اصطلاح سے آشنا ہے۔
آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش کے روز مرہ معمولات پر نظر ڈالیں تو کہیں نلکے سے پائپ لگا کر گھروں کے در و دیوار کو گھنٹوں دھویا جارہا ہے تو کہیں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی ہم اپنی گاڑیوں کو دھونے دھلانے میں ضایع کررہے ہیں یا پھر بڑی بستیوں میں لوگ اپنے وسیع و عریض لان میں سبزہ سینچنے کے لیے پائپ کے ذریعے پانی لگاکر بھول جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس بھی ہمیں نہیں ہے جب گھر کے بالائی ٹینک کا پانی ہماری عدم توجہی کے سبب لان کے ذریعے گلیوں اور سڑکوں پر بلاوجہ بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، بہ ہر حال اخلاقیات اور ہمارا دین کسی بھی صورت پانی کے استعمال میں بے پروائی کی اجازت نہیں دیتا۔
شہر میں پانی کی کم یابی کے ساتھ بے قدری اور چوری بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جن علاقوں میں میڈیا یا عدالتی دبائو کی وجہ سے غیر قانونی ہائیڈرینٹس توڑ دیے جاتے ہیں تو بااثر افراد کا اشارہ ملتے ہی یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس دوبارہ تعمیر ہوجاتے ہیں اور پیسا بنانے کی ان مشینوں کو دوبارہ فعال کردیا جاتا ہے اور شہر میں پانی کی چوری کا یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران اور عملہ اس پورے عمل کے پیچھے ہوتا ہے۔
اگرچہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کارروائی کے وقت نہ صرف یہ منظر سے مکمل طور پر غائب ہوجاتے ہیں بل کہ بعض اوقات یہ افراد اسی مقام پر موجود بھی ہوتے ہیں کہ جہاں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف آپریشن ہورہا ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کراچی کے ہر علاقے میں پانی کا شدید بحران ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹینکر مافیا کو پانی دستیاب ہے جو اسے اپنے منہہ مانگے دام پر فروخت کرکے عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالا ڈال رہے ہیں لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، تو کیا اس کا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ایک منظم منصوبے کے تحت کراچی میں چوری کے پانی کی فروخت جاری ہے۔
اس ضمن میں سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو پانی کا یہ بحران کراچی میں ہی نہیں ملک بھر میں شدید خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری طرف سماجی تنظیموں اور آبی ماہرین کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر پانی کی موجودی اور اس کی دست یابی میں متواتر کمی پوری دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ اور ایک چیلینج ہے، سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کا عمل وسائل کی کمی کے باعث ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک انتہائی مشکل بل کہ ناممکن عمل ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کی استعداد رکھتے ہیں اور وہ یہ عمل کرکے اپنی آبی ضروریات کو کسی حد تک پورا بھی کررہے ہیں۔
ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت نوشتۂ دیوار کو پڑھتے ہوئے اس سنگین مسئلے پر فوری اور سنجیدگی سے توجہ دے تاکہ حیات انسانی کو درپیش مسائل اور صنعتوں کو بند ہونے سے بچایا جاسکے۔ جب کہ دوسری جانب صنعتوں کے بند ہونے سے اور تعمیراتی عمل کے رک جانے سے لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا بھی خدشہ رہے گا۔ اس کے لیے فوری طور پر چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر ضروری ہے تاکہ پانی ذخیرہ کرکے یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔
انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافے سے صنعتی، گھریلو اور زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کی طلب و رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے واضح فرق اور پانی کی قلت کی وجہ سے ملکی اور عالمی سطح پر جو صورت حال بنتی نظر آرہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے اور یوں لگتا ہے کہ طاقت ور ممالک جس طرح ماضی میں مختلف چھوٹے ممالک کے جملہ وسائل پر قبضہ کرکے اپنے زیر تصرف لاتے رہے ہیں، بالکل اسی طرح مستقبل قریب میں طاقت ور ممالک کی جانب سے پانی کے وسائل پر قبضے اور حصول کے لیے کم زور اور مخالف ممالک پر فوج کشی کرکے ان کے وسائل کو اپنے قبضے میں لینے کا جنون مزید پروان چڑھے گا۔
بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے اس انتہائی سنگین مسئلے پر کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں کی بل کہ دنیا کے بیشتر ممالک سمیت بھارت اور بنگلا دیش بھی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر اور ان کی منصوبہ بندی پر توجہ دے رہے ہیں۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ جس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے وہ اربوں روپے خرچ کررہے ہیں وہ دراصل پاکستان کے حصے کا پانی ہے جو وہ چوری کرکے اپنے مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ذخیرہ کررہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا سلسلہ گزشتہ 40 سال سے رکا ہوا ہے۔ مستقبل کی پیش بندی اور دور اندیشی کا تقاضا تو یہ تھا کہ تربیلا ڈیم کے فوراً بعد اسی جیسا کوئی اور بڑا منصوبہ بنانے پر فوری توجہ دی جاتی اور اس پر فوری طور پر عمل بھی کیا جاتا، لیکن وطن عزیز میں جاری معاشی ابتری، سیاسی بحران، سیاست دانوں کی آپس میں حکومت کے لیے کھینچا تانی، جمہوریت کی بساط کا بار بار لپیٹا جانا اور دیگر کئی وجوہات ہیں جن کے باعث اس اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی جاسکی۔ جب کہ اس دوران بھارت خاموشی کے ساتھ مسلسل پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں کا رخ تبدیل کرنے میں مصروف ہے جس پر ہمارے حکم رانوں کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی میں بھی پانی کی طلب اور رسد میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اس وقت شہر کراچی کو تمام تر ذرایع سے جو پانی فراہم کررہا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ادارہ اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے۔ پھر کراچی الیکٹرک اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی باہمی کش مکش سے پانی کی فراہمی شدید مثاتر ہوئی ہے۔ اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کی سنجیدگی اور کوشش بھی سب ہی نظر آرہی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال میں جب کہ ہمیں شہری ضروریات کے مطابق مطلوبہ مقدار میں پانی میسر ہی نہیں ہے کیا ہم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ہم اس نعمت ربی کا کس قدر غیر ضروری اور بے دریغ استعمال کرکے اپنی آئندہ نسلوں کو پیاسا مارنے کا سامان کررہے ہیں، جی ہاں یہ حقیقت ہے لیکن اس کا ادراک ہم سے اس لیے نہیں ہو پارہا کہ ہماری ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم ہونے کے سبب دنیا میں ہونے والے موسمی تغیرات و تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہے اور نہ گلوبل وارمنگ جیسی اصطلاح سے آشنا ہے۔
آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش کے روز مرہ معمولات پر نظر ڈالیں تو کہیں نلکے سے پائپ لگا کر گھروں کے در و دیوار کو گھنٹوں دھویا جارہا ہے تو کہیں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی ہم اپنی گاڑیوں کو دھونے دھلانے میں ضایع کررہے ہیں یا پھر بڑی بستیوں میں لوگ اپنے وسیع و عریض لان میں سبزہ سینچنے کے لیے پائپ کے ذریعے پانی لگاکر بھول جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس بھی ہمیں نہیں ہے جب گھر کے بالائی ٹینک کا پانی ہماری عدم توجہی کے سبب لان کے ذریعے گلیوں اور سڑکوں پر بلاوجہ بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، بہ ہر حال اخلاقیات اور ہمارا دین کسی بھی صورت پانی کے استعمال میں بے پروائی کی اجازت نہیں دیتا۔
شہر میں پانی کی کم یابی کے ساتھ بے قدری اور چوری بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جن علاقوں میں میڈیا یا عدالتی دبائو کی وجہ سے غیر قانونی ہائیڈرینٹس توڑ دیے جاتے ہیں تو بااثر افراد کا اشارہ ملتے ہی یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس دوبارہ تعمیر ہوجاتے ہیں اور پیسا بنانے کی ان مشینوں کو دوبارہ فعال کردیا جاتا ہے اور شہر میں پانی کی چوری کا یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران اور عملہ اس پورے عمل کے پیچھے ہوتا ہے۔
اگرچہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کارروائی کے وقت نہ صرف یہ منظر سے مکمل طور پر غائب ہوجاتے ہیں بل کہ بعض اوقات یہ افراد اسی مقام پر موجود بھی ہوتے ہیں کہ جہاں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف آپریشن ہورہا ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کراچی کے ہر علاقے میں پانی کا شدید بحران ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹینکر مافیا کو پانی دستیاب ہے جو اسے اپنے منہہ مانگے دام پر فروخت کرکے عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالا ڈال رہے ہیں لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، تو کیا اس کا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ایک منظم منصوبے کے تحت کراچی میں چوری کے پانی کی فروخت جاری ہے۔
اس ضمن میں سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو پانی کا یہ بحران کراچی میں ہی نہیں ملک بھر میں شدید خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری طرف سماجی تنظیموں اور آبی ماہرین کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر پانی کی موجودی اور اس کی دست یابی میں متواتر کمی پوری دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ اور ایک چیلینج ہے، سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کا عمل وسائل کی کمی کے باعث ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک انتہائی مشکل بل کہ ناممکن عمل ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کی استعداد رکھتے ہیں اور وہ یہ عمل کرکے اپنی آبی ضروریات کو کسی حد تک پورا بھی کررہے ہیں۔
ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت نوشتۂ دیوار کو پڑھتے ہوئے اس سنگین مسئلے پر فوری اور سنجیدگی سے توجہ دے تاکہ حیات انسانی کو درپیش مسائل اور صنعتوں کو بند ہونے سے بچایا جاسکے۔ جب کہ دوسری جانب صنعتوں کے بند ہونے سے اور تعمیراتی عمل کے رک جانے سے لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا بھی خدشہ رہے گا۔ اس کے لیے فوری طور پر چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر ضروری ہے تاکہ پانی ذخیرہ کرکے یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔