کرخت رویہ اور خشک مزاجی ترک کر دیں
خوشیاں بانٹیں اور خوش رہیں!
آپ چاروں طرف سے پریشانیوں میں گھر گئے ہیں' کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔
دکھوں نے آپ کو ذہنی طور پر ہی نہیں جسمانی طور پر بھی بیمار کر دیا ہے۔ ایسے میں جب کوئی راستہ نظر نہ آئے تو پریشانی دور کرنے کا ایک راستہ ہے۔آپ یہ سوچیے کہ آپ دوسروں کی پریشانیاں کیسے دور کر سکتے ہیں اور دوسروں کو کیسے خوش کرسکتے ہیں۔ بظاہر یہ ناقابل یقین سی بات نظر آتی ہے کہ دوسروں کو خوش کرنے سے آپ کی پریشانیاں دور ہو جائیں لیکن وہ لوگ جو دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں' ان کے مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں، قدرت کی طرف سے ان کو یہ انعام ہوتا ہے کہ ان کی پریشانیاں خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ دوسروں کی خدمت اور مدد کر کے ایک روحانی خوشی ملتی ہے اور جب آپ رات کو سوتے ہیں تو ایک سکون اور اطمینان بخش احساس آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہمارے محلے میں ایک صاحب کی عادت ہے کہ جب بھی ان کو کوئی پریشانی یا مصیبت درپیش آئے تو وہ کھانے کی ایک دیگ،روٹیاں اور کپڑے جوتے وغیرہ خرید کر غریبوں کی بستی کا رخ کرتے ہیںاور پھر وہاں پر یہ اشیاء لوگوں میں بانٹ آتے ہیں۔ان کے مطابق جب وہ یہ کام انجام دے کر واپس آتے ہیں تو ان کی پریشانی اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہو جاتی ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق اگر انسان خوش رہنا چاہتا ہے تو وہ اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کی خوشیوں کا بھی خیال رکھے اور انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک بنائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قدرت اسے دکھوں اور پریشانیوں سے دور کر کے خوشیوں سے مالا مال نہ کرے۔ خاص کر وہ نوجوانوں کوبار ہا یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ اس عادت کو جوانی میں ہی اپنا لو تاکہ یہ تا عمر آپ کو خوشیاں فراہم کرتی رہے۔
اسلام فطرت سے انتہائی قریب مذہب ہے اور زندگی گزارنے کا بہترین لائحہ عمل ہمیں صرف اسلام نے ہی دیا ہے۔ اسلام میں پڑوسی کا خیال رکھنے اور اس کی خیر خواہی کے لیے سخت تاکید کی گئی ہے۔ بیمار کی عیادت انتہائی ثواب ہے۔ صلہ رحمی یعنی اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قطع رحمی کو سخت گناہ کہا گیا ہے۔ اس سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم صرف اپنی ذات کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دوسروں کا خیال بھی کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوں۔
مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر ایڈلر ہر روز ایک نیکی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ہم دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے متعلق بھول جاتے ہیں۔ پریشانی' خوف اور خفقان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ صرف اپنے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔دوسروں کے متعلق سوچنے سے نہ صرف آپ اپنے متعلق پریشان ہونے سے بچ جائیں گے بلکہ اس سے آپ کو دوست بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ وقت ضائع ہونے والی چیز ہے' اس لیے جو نیکی کر سکتے ہوں' اسے فی الفور کرنا چاہیے کیونکہ آپ اس راستے سے دوبارہ نہیں گزریں گے۔اگر ہم خوش' مطمئن اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک ہی طریقہ ہے۔ دوسروں میں دلچسپی لیں اور ہر روز کوئی ایسا نیک کام کریں جو کسی کے چہرے پر تبسم بکھیر دے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں بظاہر کوئی بھی غیر معمولی خوبی یا صلاحیت نہیں ہوتی پھر بھی لوگ انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔جبکہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حسن' دولت' ذہانت' معاشرے میں اعلٰی مقام' ہر خوبی سے نوازا ہوتا ہے لیکن لوگ ان سے کتراتے ہیں اوران سے دوستی کرنا پسند نہیں کرتے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟اس کی بنیادی وجہ انسان کا مزاج اور عادات ہیں۔
٭کیا آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا برا مان جاتے ہیں؟
٭آپ کو ہر دم یہ احساس رہتا ہے کہ لوگ آپ کو اہمیت نہیں دیتے؟
٭اگر کوئی آپ پر تنقید کرے تو آپ کو غصہ آ جاتا ہے؟
٭اگر کوئی آپ سے ناراض ہو جائے تو آپ منانے میں پہل کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں؟
٭اگر آپ سے کوئی مذاق کرے تو آپ سنجیدہ ہو جاتے ہیں؟
اگر ان سب باتوں کا جواب اثبات میں ہے تو آپ تنک مزاجی کا شکار ہیں اور آپ کو اپنی شخصیت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر برا مان جاتے ہیں' لوگ ان سے دور رہنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ احساس تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خوش مزاج بننا مشکل نہیں ہے۔اگر کوئی آپ پر تنقید کرتا ہے تو برا نہ مانیں' سوچیں کہ اس کی بات کس حد تک صحیح ہے' اگر آپ میں کوئی خامی ہے تو اپنی اصلاح کر لیں۔ اگر اس نے غلط تنقید کی ہے تو یہ سوچ کر بھول جائیں کہ یہ اس کا نقطہ نظر ہے۔کوئی روٹھ جائے تو اسے خود بڑھ کر منا لیں۔ اس میں آپ کی ہتک نہیں ہے بلکہ بڑائی ہے۔کوئی آپ کو نظر انداز کرتا ہے تو خود آگے بڑھ کر بات کریں۔کوئی آپ سے بڑا ہو یا چھوٹا' اس کی عزت کریں۔لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں گے اور آپ کے دوست بن جائیں گے ،اس لیے کہ ہنستے مسکراتے چہرے' خوش گفتار لوگ سب کو بھلے لگتے ہیں۔
ایسے لوگ جن کی پیشانی پر بل ہوں' لب نفرت سے سکڑے ہوں اور لہجے میں کرختگی ہو' آپ کا ان سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے؟ نہیں ناں! تو پھر آج سے طے کر لیں کہ آپ ایک خوش مزاج شخصیت ہوں گے کیونکہ جب آپ کو خود تنک مزاج اور کرخت لوگ پسند نہیں ہیں تو آپ دوسروں سے بھی یہ امید نہ رکھیں کہ وہ بلاوجہ آپ کی کرختگی کو برداشت کریں گے۔آپ تجرباتی طور پر ہی سہی کچھ عرصہ کیلئے اپنی طبیعت کو خوش مزاجی کی طرف مائل کریں،ہمیں یقین ہے کہ لوگوں کا بدلتا ہوا مثبت رویہ آپ کو خوش مزاج رہنے پر مجبور کر دے گا اور آپ پر ظاہر ہو گا کہ آس پاس کے لوگوں کے ساتھ ہی آپ کی خوشیاں وابستہ ہیں اور اگر آپ کے ارد گرد کے لوگ خوش وخرم ہیں تو یقیناً آپ بھی ان خوشیوںمیں حصہ دار ہوں گے۔
دکھوں نے آپ کو ذہنی طور پر ہی نہیں جسمانی طور پر بھی بیمار کر دیا ہے۔ ایسے میں جب کوئی راستہ نظر نہ آئے تو پریشانی دور کرنے کا ایک راستہ ہے۔آپ یہ سوچیے کہ آپ دوسروں کی پریشانیاں کیسے دور کر سکتے ہیں اور دوسروں کو کیسے خوش کرسکتے ہیں۔ بظاہر یہ ناقابل یقین سی بات نظر آتی ہے کہ دوسروں کو خوش کرنے سے آپ کی پریشانیاں دور ہو جائیں لیکن وہ لوگ جو دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں' ان کے مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں، قدرت کی طرف سے ان کو یہ انعام ہوتا ہے کہ ان کی پریشانیاں خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ دوسروں کی خدمت اور مدد کر کے ایک روحانی خوشی ملتی ہے اور جب آپ رات کو سوتے ہیں تو ایک سکون اور اطمینان بخش احساس آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہمارے محلے میں ایک صاحب کی عادت ہے کہ جب بھی ان کو کوئی پریشانی یا مصیبت درپیش آئے تو وہ کھانے کی ایک دیگ،روٹیاں اور کپڑے جوتے وغیرہ خرید کر غریبوں کی بستی کا رخ کرتے ہیںاور پھر وہاں پر یہ اشیاء لوگوں میں بانٹ آتے ہیں۔ان کے مطابق جب وہ یہ کام انجام دے کر واپس آتے ہیں تو ان کی پریشانی اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہو جاتی ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق اگر انسان خوش رہنا چاہتا ہے تو وہ اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کی خوشیوں کا بھی خیال رکھے اور انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک بنائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قدرت اسے دکھوں اور پریشانیوں سے دور کر کے خوشیوں سے مالا مال نہ کرے۔ خاص کر وہ نوجوانوں کوبار ہا یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ اس عادت کو جوانی میں ہی اپنا لو تاکہ یہ تا عمر آپ کو خوشیاں فراہم کرتی رہے۔
اسلام فطرت سے انتہائی قریب مذہب ہے اور زندگی گزارنے کا بہترین لائحہ عمل ہمیں صرف اسلام نے ہی دیا ہے۔ اسلام میں پڑوسی کا خیال رکھنے اور اس کی خیر خواہی کے لیے سخت تاکید کی گئی ہے۔ بیمار کی عیادت انتہائی ثواب ہے۔ صلہ رحمی یعنی اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قطع رحمی کو سخت گناہ کہا گیا ہے۔ اس سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم صرف اپنی ذات کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دوسروں کا خیال بھی کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوں۔
مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر ایڈلر ہر روز ایک نیکی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ہم دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے متعلق بھول جاتے ہیں۔ پریشانی' خوف اور خفقان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ صرف اپنے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔دوسروں کے متعلق سوچنے سے نہ صرف آپ اپنے متعلق پریشان ہونے سے بچ جائیں گے بلکہ اس سے آپ کو دوست بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ وقت ضائع ہونے والی چیز ہے' اس لیے جو نیکی کر سکتے ہوں' اسے فی الفور کرنا چاہیے کیونکہ آپ اس راستے سے دوبارہ نہیں گزریں گے۔اگر ہم خوش' مطمئن اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک ہی طریقہ ہے۔ دوسروں میں دلچسپی لیں اور ہر روز کوئی ایسا نیک کام کریں جو کسی کے چہرے پر تبسم بکھیر دے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں بظاہر کوئی بھی غیر معمولی خوبی یا صلاحیت نہیں ہوتی پھر بھی لوگ انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔جبکہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حسن' دولت' ذہانت' معاشرے میں اعلٰی مقام' ہر خوبی سے نوازا ہوتا ہے لیکن لوگ ان سے کتراتے ہیں اوران سے دوستی کرنا پسند نہیں کرتے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟اس کی بنیادی وجہ انسان کا مزاج اور عادات ہیں۔
٭کیا آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا برا مان جاتے ہیں؟
٭آپ کو ہر دم یہ احساس رہتا ہے کہ لوگ آپ کو اہمیت نہیں دیتے؟
٭اگر کوئی آپ پر تنقید کرے تو آپ کو غصہ آ جاتا ہے؟
٭اگر کوئی آپ سے ناراض ہو جائے تو آپ منانے میں پہل کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں؟
٭اگر آپ سے کوئی مذاق کرے تو آپ سنجیدہ ہو جاتے ہیں؟
اگر ان سب باتوں کا جواب اثبات میں ہے تو آپ تنک مزاجی کا شکار ہیں اور آپ کو اپنی شخصیت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر برا مان جاتے ہیں' لوگ ان سے دور رہنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ احساس تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خوش مزاج بننا مشکل نہیں ہے۔اگر کوئی آپ پر تنقید کرتا ہے تو برا نہ مانیں' سوچیں کہ اس کی بات کس حد تک صحیح ہے' اگر آپ میں کوئی خامی ہے تو اپنی اصلاح کر لیں۔ اگر اس نے غلط تنقید کی ہے تو یہ سوچ کر بھول جائیں کہ یہ اس کا نقطہ نظر ہے۔کوئی روٹھ جائے تو اسے خود بڑھ کر منا لیں۔ اس میں آپ کی ہتک نہیں ہے بلکہ بڑائی ہے۔کوئی آپ کو نظر انداز کرتا ہے تو خود آگے بڑھ کر بات کریں۔کوئی آپ سے بڑا ہو یا چھوٹا' اس کی عزت کریں۔لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں گے اور آپ کے دوست بن جائیں گے ،اس لیے کہ ہنستے مسکراتے چہرے' خوش گفتار لوگ سب کو بھلے لگتے ہیں۔
ایسے لوگ جن کی پیشانی پر بل ہوں' لب نفرت سے سکڑے ہوں اور لہجے میں کرختگی ہو' آپ کا ان سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے؟ نہیں ناں! تو پھر آج سے طے کر لیں کہ آپ ایک خوش مزاج شخصیت ہوں گے کیونکہ جب آپ کو خود تنک مزاج اور کرخت لوگ پسند نہیں ہیں تو آپ دوسروں سے بھی یہ امید نہ رکھیں کہ وہ بلاوجہ آپ کی کرختگی کو برداشت کریں گے۔آپ تجرباتی طور پر ہی سہی کچھ عرصہ کیلئے اپنی طبیعت کو خوش مزاجی کی طرف مائل کریں،ہمیں یقین ہے کہ لوگوں کا بدلتا ہوا مثبت رویہ آپ کو خوش مزاج رہنے پر مجبور کر دے گا اور آپ پر ظاہر ہو گا کہ آس پاس کے لوگوں کے ساتھ ہی آپ کی خوشیاں وابستہ ہیں اور اگر آپ کے ارد گرد کے لوگ خوش وخرم ہیں تو یقیناً آپ بھی ان خوشیوںمیں حصہ دار ہوں گے۔