ناقابلِ فراموش واقعات جو صحیح راستے کی خبر دیتے ہیں
کسی قوم کے عروج کا سورج ڈوبنے کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی شعبے کا زوال ہوتا ہے
جس قوم کے اخلاق ڈوب جائیں وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہا کرتی۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ سبق بار بار ملتا ہے۔
کسی قوم کے عروج کا سورج ڈوبنے کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی شعبے کا زوال ہوتا ہے، بقیہ تمام شعبہ جات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں وہ عظیم اور حیرت انگیز مثالیں موجود ہیں، جو حقیقی بھی ہیں اور ترقی حاصل کرنے کا صحیح راستہ بھی۔ اقبال نے بھی مسلم نوجوانوں کو مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک اور مادہ پرستانہ سوچ سے خبردار کرتے ہوئے، اپنی تہذیب کے روشن کرداروں کے قائم کئے ہوئے اعلی معیارات و اقدار پر جمے رہنے کی تلقین کی تھی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
شاید دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنے عظیم، بے غرض اور مخلص لوگ مہیا نہ کرسکے جتنے اسلامی تہذیب نے پیدا کیے ہیں۔ دل کی آنکھیں کھول کے پڑھو تو یہاں بیان کردہ ایک ایک واقعہ زندگی پلٹ کے رکھ دے گا۔ اپنی زندگی میں مثبت تحرک اور تبدیلی کے خواہش مند افراد کو ان واقعات سے ضرور سیکھنا چاہیے۔
صحیح سمت
شفیق بلخی ؒ، ابراہیم ادھم ؒ سے ملنے گئے۔ فرمایا، ''تجارت کے لیے جارہا ہوں، کچھ ماہ لگ جائیں گے۔ اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا۔'' چند دن بعد نماز میں ابراہیم ادھم نے شفقیق کو مسجد میں دیکھا۔ پوچھا، آپ تو چلے گئے تھے، یہاں کیسے؟ شفقیق بولے: میں راستے میں ایک ویران جگہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ دیکھا ، ایک چڑیا ہے جو اڑنے سے معذور ہے۔ سوچا کہ یہ کیسے کھانا کھاتی ہوگی۔ اتنے میں ایک اور چڑیا منہ میں خوراک دبائے آئی۔ اس کے منہ سے خوراک گر گئی جو اِس چڑیا نے اٹھالی۔ میں نے سوچا کہ اللہ جب اس معذور چڑیا کو رزق اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھے شہر شہر بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے۔ بس میں واپس آگیا۔ ابراہیم نے جواب دیا: شفیق، تم نے وہ پرندہ بننا پسند کیا جو محتاج ہے۔ وہ بننا کیوں پسند نہ کیا جو اپنے پروں پہ اڑ کے جاتا ہے۔ اپنے بازوئوں کی طاقت سے خود بھی زندہ ہے اور دوسروں کی زندگی کا سامان بھی کرتا ہے۔ شفیق نے ابراہیم کا ہاتھ چوما اوربولے، ابراہیم، اللہ تم پہ رحمتیں کرے۔ تم نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا۔ بات جو تم نے کی وہی صحیح ہے۔ یہ وہ صحیح ترین رویہ ہے جو انسان اختیار کرتا ہے۔ صالح اور مفید لوگ دنیا کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں لگاتے۔ وہ اشیا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اور ان سے متعلق دی گئی ہدایات سے بھی۔ شاعرِحقیقت نے کمزوری کا نتیجہ بیان فرمایا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
بد کرداروں کے نزدیک تو ضعیفی ہے ہی ناقابلِ معافی جرم۔ اسی بنا پہ خدا دینے والے طاقتور صالح ہاتھ کو پسند فرماتا ہے۔
اخلاص کا انعام
سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں۔ لکھنؤ کے بازار میں ایک درزی کی دکان تھی۔ وہ ہر جنازے کے لیے اپنی دکان بند کرتا۔ لوگوں نے کہا اس طرح تو تمہاری دکان کا نقصان ہوتا ہوگا۔ کہنے لگا، صلحا سے سنا ہے، جو مسلمان کے جنازے پہ جاتا ہے، کل اس کے جنازے پہ ان شاء اللہ ہجوم ہوگا۔ میں ایک غریب آدمی ہوں میرے جنازے پہ کون آدمی آئے گا۔ ایک تو بھائی کا حق بھی ہے اور اللہ پاک بھی راضی ہوتے ہیں۔ شانِ خداوندی دیکھیے۔ 1902ء میں ریڈیو پہ اعلان ہواکہ مولانا عبدالحی کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے جنازے پر ہزاروں کا مجمع تھا۔ جنازہ ہوچکا تو ایک اور جنازہ داخل ہوا۔ اعلان ہوا سب لوگ اس بھائی کا جنازہ پڑھ کہ جائیں۔ یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔ جو لوگ پچھلا جنازہ نہیں پڑھ سکے تھے وہ بھی اور جو دوسرے جنازے کے ساتھ آئے تھے دونوں اس جنازے میں شریک ہو گئے۔ اللہ نے اپنے مخلص بندے کے قول کی لاج رکھ لی۔ اخلاص کے بغیر عمل بے کار ہوتا ہے۔ دور آیا ہے کہ میک اپ بہت جلدی پہچان لیا جاتا ہے اوراخلاص دل فتح کرلیتا ہے۔
یقین
اشفاق احمد کہتے ہیںمیر ے پاس ایک بلی تھی۔ جب اسے بھوک لگتی میرے پائوں چاٹنے لگتی۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلی مجھ سے کہیں بہتر ہے۔ اسے پکا یقین ہے کہ مالک کے پاس سے اس کی طلب پوری ہوگی۔ لیکن انسان کو یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ ان کاموں کی بھی جو اس کے اختیار میں نہیں۔ اپنی ہر طلب اپنے رب سے مانگو اور قبولیت کا مکمل یقین رکھو۔
بڑا پن
شفیق بلخی اور عبداللہ بن مبارک ہماری تاریخ کے دو بڑے نام ہیں۔ شفیق ، ابن مبارک سے ملنے بلخ سے چلے۔ بغداد پہنچے تو پتہ چلا کو وہ مدینے میں ہیں۔ سوچا اتنی دور آیا ہوں وہاں بھی چلتے ہیں۔ دونوں بزرگ چہرے سے ایک دوسرے کے شناسا نہیں تھے۔ ملے تو عبداللہ نے پوچھا، بلخ میں ہمارے ایک دوست رہتے ہیں شفیق۔ جانتے ہو؟ بولے جی ہاں۔ اچھا یہ بتائو کہ دن رات کیسے گزارتاہے؟کہا، خود نیک بننے اور دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ مطلب نہیں تھا، عبداللہ کہنے لگے۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ شب و روز گزارہ کیسے کرتاہے۔ جواب دیا، مل جائے تو شکر کرتا ہے۔ نہ ملے تو صبر کرتاہے۔ فرمایا، یہ تو مدینے کی گلی کا کتا بھی کرتا ہے۔ شفیق سٹپٹائے، پوچھا: حضرت آپ کیسے گزارہ کرتے ہیں۔ جواب وہاں سے شروع ہوا جہاں انہوں نے ختم کیا تھا، نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔ اور مل جائے تو بانٹ دیتے ہیں۔
یہ وہ ہیں جن کے در پہ بادشاہ حاضری دیتے ہیں۔ دنیا جن کی دہلیز پہ ناک رگڑتی ہے۔ ان کے ہاتھ کبھی نہیں رکتے اور خالی بھی نہیں ہوتے۔ یہ وہ ہیں جن کے باعث چکی کے دو پاٹ زمین آسمان آپس میں ملنے سے رکے ہوئے ہیں۔ ان کے رستے چلنا ترقی اور فلاح کا باعث ہے۔ محض نام جپنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اپنا رنگ
میرے عزیز دوست طاہر اعوان فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں دبئی پہنچے۔ جس عربی کے محل میں شوٹنگ چل رہی تھی، اس کے وسطِ ہال میں ایک نہایت قیمتی اور بہت بڑا قرآن حکیم رکھا تھا۔ ایک دن یہ وقت سے پہلے وہاں پہنچے۔ سورہ یوسف کی تلاوت شروع کی۔ دلیر سنگھ مہدی کی بیٹی بھی اتفاق سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ گئی۔ آواز سنی تو قریب آئی ۔ کچھ دیر بعد پوچھا، آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ''یہ ہماری ہدایت کی کتاب ہے۔'' آپ اس کا مطلب جانتے ہیں؟ ''میں جھینپ گیا، اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے کہا کہ کچھ مفہوم مجھے آتا ہے، ترجمہ نہیں''۔ وہ مسکرائی اور بولی، میرے پاس بھی یہ کتاب موجود ہے اور اس کا انگلش ترجمہ میں پڑھتی ہوں۔ طاہر حسرت سے یہ واقعہ دہراتے ہیں کہ کاش میں نے زندگی میں وہ ترجمہ قرآن کورس کیا ہوتا جسے لاعلمی میں گنوا دیا۔ یہ واقعہ ہر فیلڈ کے لیے اہم ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے رنگ میں رنگ جانے والے بھلا کیا متاثر کریں گے۔ جو تمہاری قدرت اور کردار ہے اسے ظاہر کرو۔ عجیب ہے جس کے پاس نسخہ شفا ہو، وہ نیم حکیموں کے پاس بھاگے۔ عجب ہے جس کے پاس عصائے موسی ہو وہ رسیوں کو دیکھ کے کانپے۔
بڑا مقصد، بڑی کامیابی
محمد شریف میرے ہئیر ڈریسر ہیں۔ علاقے میں اپنے کام پر گرفت کے حوالے سے معروف ہیں۔ پڑھ لکھ نہیں سکتے لیکن خود کو بنا سنوار کے رکھتے ہیں۔ دوپہر کے وقت ان کے اسسٹنٹ موجود نہ پا کر میں نے پوچھا کہ کیا کھانا کھانے گھر گئے ہیں۔ ''میں انہیں یہیں قریب میں کھلا دیتا ہوں۔ اگر گھر بھیجوں تو ایک گھنٹے میں آتے ہیں۔ اس دوران اگر دو گاہک بھی آجائیں تو دونوں کے چار گاہک بنے۔ میں انہیں پچاس روپے دے کر تین سو کا نقصان بچا لیتا ہوں۔'' میں ان کی سوچ سے متاثر ہوا لیکن حیرت ابھی باقی تھی۔ کہنے لگے، ''شاہ صاحب ہمارے بچے ان کی وجہ سے روٹی کھاتے ہیں، اگر ہم نے ان پر بھی پچاس روپے لگا دیے تو کون سی بڑی بات ہوگئی۔ دیتی تو اوپر والے کی ذات ہے۔'' میں خاموش تھا اور مسرت میں جھوم رہا تھا۔ انسان کا مقصد بڑا ہو تو چھوٹی چیزیں حاصل ہو ہی جاتی ہیں۔ اپنی ورکشاپس میں اکثر یہ بات دہراتا ہوں کہ جو پنڈی کے لیے چلے گا وہ گوجرانوالہ پہنچ ہی جائے گا۔ لیکن جو گوجرانوالہ کا قصد باندھے گا، وہ پنڈی کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ پس زندگی میں مقاصد اونچے ہوں تو کامیابی بھی اسی کے مطابق ملتی ہے۔
ایکسیلنس
اتوار کے دن عصر کے وقت ظفروال سے واپسی پر بس سے اترا ۔ ایک رکشہ والے نے آواز لگائی۔بائو جی چورس ٹینکی جانا ہے کہ گرین ٹائون۔ راستے میں حیرت سے پوچھا۔کیا تم میرے علاقے میں رہتے ہو؟ نہیں صاحب جی۔ کیا میرے ساتھ پہلے بھی سفر کیا ہے؟ نہیں جی۔کیا مجھے جانتے ہو؟ نہ جی۔ تو پھر آپ کو پتہ کیسے لگا کہ میں نے کہاں جانا ہے؟ جوابات نے میرے دماغ کے فیوز بھک سے اڑا دیے۔ ''بائو جی رکشہ چلاتے بیس سال ہوگئے۔ اب گاہک پہچانا جاتا ہے۔'' حیرت دوچند ہوگئی۔کیا مطلب؟ ''صاحب جی گرین ٹائون، ٹائونز کی طرف کا آخری علاقہ ہے، جیسے واپڈا ٹائون، گارڈن ٹائون، ماڈل ٹائون وغیرہ۔ جب گرین ٹائون کا نام لیا جاتا ہے تو ان تمام اطراف کی سواری خود بول پڑتی ہے۔'' دل چسپی بڑھی۔ پوچھا، اس طرح تو چونگی امرسدھو بھی آخری علاقہ ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ بھی۔ کہا، ''چونگی امرسدھو کے لوگ رکشہ استعمال نہیں کرتے۔
یہ ٹائونز کے لوگوں میں استطاعت ہے۔ اور ٹھوکر نیاز بیگ کے لوگ اس وقت رکشہ استعمال نہیں کرتے''۔ پھر ان ٹائونز میں لوگ اندرون لاہور سے جا آباد ہوئے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے اور ملوانے چھٹی کے دن یہاں لاتے ہیں اور اس وقت واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ امکان ہوتا ہے کہ اس وقت ان علاقوں کی سواری مل جائے گی۔ جانے وہ کون خوش اخلاق تھا۔ مجھے حیرانیوں میں گم چھوڑگیا۔ اس کی شکل بھی یاد نہیں۔ سکھا بہت کچھ گیا۔ جو بھی اپنے ذوق کے کام میں منہمک ہو جاتا ہے، اس پر جزئیات کا علم کھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بھلا اس کے علاوہ کون گُرو ہوگا۔ کامیاب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایکسیلنس معمولی چیزوں میںبھی ممکن حد تک کمال حاصل کرنے کا نام ہے۔ اسے حاصل وہی کریں گے جو اپنے رجحان کے کام میں مشغول ہیں۔
یہ واقعات محض پڑھ کے گزر جانے کے لیے کب ہیں۔ یہ وقت ِ فرصت کی ذہنی عیاشی نہیں۔ یہ کامیاب لوگوں کی مثالیں ہیں۔ ان کو زندگی میں جگہ دینے والا ان کا اثر محسوس کرے گا۔ عام لوگ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، حوصلہ مند وننگ لائن پار کرتے ہیں۔
کسی قوم کے عروج کا سورج ڈوبنے کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی شعبے کا زوال ہوتا ہے، بقیہ تمام شعبہ جات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں وہ عظیم اور حیرت انگیز مثالیں موجود ہیں، جو حقیقی بھی ہیں اور ترقی حاصل کرنے کا صحیح راستہ بھی۔ اقبال نے بھی مسلم نوجوانوں کو مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک اور مادہ پرستانہ سوچ سے خبردار کرتے ہوئے، اپنی تہذیب کے روشن کرداروں کے قائم کئے ہوئے اعلی معیارات و اقدار پر جمے رہنے کی تلقین کی تھی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
شاید دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنے عظیم، بے غرض اور مخلص لوگ مہیا نہ کرسکے جتنے اسلامی تہذیب نے پیدا کیے ہیں۔ دل کی آنکھیں کھول کے پڑھو تو یہاں بیان کردہ ایک ایک واقعہ زندگی پلٹ کے رکھ دے گا۔ اپنی زندگی میں مثبت تحرک اور تبدیلی کے خواہش مند افراد کو ان واقعات سے ضرور سیکھنا چاہیے۔
صحیح سمت
شفیق بلخی ؒ، ابراہیم ادھم ؒ سے ملنے گئے۔ فرمایا، ''تجارت کے لیے جارہا ہوں، کچھ ماہ لگ جائیں گے۔ اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا۔'' چند دن بعد نماز میں ابراہیم ادھم نے شفقیق کو مسجد میں دیکھا۔ پوچھا، آپ تو چلے گئے تھے، یہاں کیسے؟ شفقیق بولے: میں راستے میں ایک ویران جگہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ دیکھا ، ایک چڑیا ہے جو اڑنے سے معذور ہے۔ سوچا کہ یہ کیسے کھانا کھاتی ہوگی۔ اتنے میں ایک اور چڑیا منہ میں خوراک دبائے آئی۔ اس کے منہ سے خوراک گر گئی جو اِس چڑیا نے اٹھالی۔ میں نے سوچا کہ اللہ جب اس معذور چڑیا کو رزق اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھے شہر شہر بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے۔ بس میں واپس آگیا۔ ابراہیم نے جواب دیا: شفیق، تم نے وہ پرندہ بننا پسند کیا جو محتاج ہے۔ وہ بننا کیوں پسند نہ کیا جو اپنے پروں پہ اڑ کے جاتا ہے۔ اپنے بازوئوں کی طاقت سے خود بھی زندہ ہے اور دوسروں کی زندگی کا سامان بھی کرتا ہے۔ شفیق نے ابراہیم کا ہاتھ چوما اوربولے، ابراہیم، اللہ تم پہ رحمتیں کرے۔ تم نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا۔ بات جو تم نے کی وہی صحیح ہے۔ یہ وہ صحیح ترین رویہ ہے جو انسان اختیار کرتا ہے۔ صالح اور مفید لوگ دنیا کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں لگاتے۔ وہ اشیا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اور ان سے متعلق دی گئی ہدایات سے بھی۔ شاعرِحقیقت نے کمزوری کا نتیجہ بیان فرمایا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
بد کرداروں کے نزدیک تو ضعیفی ہے ہی ناقابلِ معافی جرم۔ اسی بنا پہ خدا دینے والے طاقتور صالح ہاتھ کو پسند فرماتا ہے۔
اخلاص کا انعام
سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں۔ لکھنؤ کے بازار میں ایک درزی کی دکان تھی۔ وہ ہر جنازے کے لیے اپنی دکان بند کرتا۔ لوگوں نے کہا اس طرح تو تمہاری دکان کا نقصان ہوتا ہوگا۔ کہنے لگا، صلحا سے سنا ہے، جو مسلمان کے جنازے پہ جاتا ہے، کل اس کے جنازے پہ ان شاء اللہ ہجوم ہوگا۔ میں ایک غریب آدمی ہوں میرے جنازے پہ کون آدمی آئے گا۔ ایک تو بھائی کا حق بھی ہے اور اللہ پاک بھی راضی ہوتے ہیں۔ شانِ خداوندی دیکھیے۔ 1902ء میں ریڈیو پہ اعلان ہواکہ مولانا عبدالحی کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے جنازے پر ہزاروں کا مجمع تھا۔ جنازہ ہوچکا تو ایک اور جنازہ داخل ہوا۔ اعلان ہوا سب لوگ اس بھائی کا جنازہ پڑھ کہ جائیں۔ یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔ جو لوگ پچھلا جنازہ نہیں پڑھ سکے تھے وہ بھی اور جو دوسرے جنازے کے ساتھ آئے تھے دونوں اس جنازے میں شریک ہو گئے۔ اللہ نے اپنے مخلص بندے کے قول کی لاج رکھ لی۔ اخلاص کے بغیر عمل بے کار ہوتا ہے۔ دور آیا ہے کہ میک اپ بہت جلدی پہچان لیا جاتا ہے اوراخلاص دل فتح کرلیتا ہے۔
یقین
اشفاق احمد کہتے ہیںمیر ے پاس ایک بلی تھی۔ جب اسے بھوک لگتی میرے پائوں چاٹنے لگتی۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلی مجھ سے کہیں بہتر ہے۔ اسے پکا یقین ہے کہ مالک کے پاس سے اس کی طلب پوری ہوگی۔ لیکن انسان کو یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ ان کاموں کی بھی جو اس کے اختیار میں نہیں۔ اپنی ہر طلب اپنے رب سے مانگو اور قبولیت کا مکمل یقین رکھو۔
بڑا پن
شفیق بلخی اور عبداللہ بن مبارک ہماری تاریخ کے دو بڑے نام ہیں۔ شفیق ، ابن مبارک سے ملنے بلخ سے چلے۔ بغداد پہنچے تو پتہ چلا کو وہ مدینے میں ہیں۔ سوچا اتنی دور آیا ہوں وہاں بھی چلتے ہیں۔ دونوں بزرگ چہرے سے ایک دوسرے کے شناسا نہیں تھے۔ ملے تو عبداللہ نے پوچھا، بلخ میں ہمارے ایک دوست رہتے ہیں شفیق۔ جانتے ہو؟ بولے جی ہاں۔ اچھا یہ بتائو کہ دن رات کیسے گزارتاہے؟کہا، خود نیک بننے اور دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ مطلب نہیں تھا، عبداللہ کہنے لگے۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ شب و روز گزارہ کیسے کرتاہے۔ جواب دیا، مل جائے تو شکر کرتا ہے۔ نہ ملے تو صبر کرتاہے۔ فرمایا، یہ تو مدینے کی گلی کا کتا بھی کرتا ہے۔ شفیق سٹپٹائے، پوچھا: حضرت آپ کیسے گزارہ کرتے ہیں۔ جواب وہاں سے شروع ہوا جہاں انہوں نے ختم کیا تھا، نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔ اور مل جائے تو بانٹ دیتے ہیں۔
یہ وہ ہیں جن کے در پہ بادشاہ حاضری دیتے ہیں۔ دنیا جن کی دہلیز پہ ناک رگڑتی ہے۔ ان کے ہاتھ کبھی نہیں رکتے اور خالی بھی نہیں ہوتے۔ یہ وہ ہیں جن کے باعث چکی کے دو پاٹ زمین آسمان آپس میں ملنے سے رکے ہوئے ہیں۔ ان کے رستے چلنا ترقی اور فلاح کا باعث ہے۔ محض نام جپنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اپنا رنگ
میرے عزیز دوست طاہر اعوان فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں دبئی پہنچے۔ جس عربی کے محل میں شوٹنگ چل رہی تھی، اس کے وسطِ ہال میں ایک نہایت قیمتی اور بہت بڑا قرآن حکیم رکھا تھا۔ ایک دن یہ وقت سے پہلے وہاں پہنچے۔ سورہ یوسف کی تلاوت شروع کی۔ دلیر سنگھ مہدی کی بیٹی بھی اتفاق سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ گئی۔ آواز سنی تو قریب آئی ۔ کچھ دیر بعد پوچھا، آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ''یہ ہماری ہدایت کی کتاب ہے۔'' آپ اس کا مطلب جانتے ہیں؟ ''میں جھینپ گیا، اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے کہا کہ کچھ مفہوم مجھے آتا ہے، ترجمہ نہیں''۔ وہ مسکرائی اور بولی، میرے پاس بھی یہ کتاب موجود ہے اور اس کا انگلش ترجمہ میں پڑھتی ہوں۔ طاہر حسرت سے یہ واقعہ دہراتے ہیں کہ کاش میں نے زندگی میں وہ ترجمہ قرآن کورس کیا ہوتا جسے لاعلمی میں گنوا دیا۔ یہ واقعہ ہر فیلڈ کے لیے اہم ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے رنگ میں رنگ جانے والے بھلا کیا متاثر کریں گے۔ جو تمہاری قدرت اور کردار ہے اسے ظاہر کرو۔ عجیب ہے جس کے پاس نسخہ شفا ہو، وہ نیم حکیموں کے پاس بھاگے۔ عجب ہے جس کے پاس عصائے موسی ہو وہ رسیوں کو دیکھ کے کانپے۔
بڑا مقصد، بڑی کامیابی
محمد شریف میرے ہئیر ڈریسر ہیں۔ علاقے میں اپنے کام پر گرفت کے حوالے سے معروف ہیں۔ پڑھ لکھ نہیں سکتے لیکن خود کو بنا سنوار کے رکھتے ہیں۔ دوپہر کے وقت ان کے اسسٹنٹ موجود نہ پا کر میں نے پوچھا کہ کیا کھانا کھانے گھر گئے ہیں۔ ''میں انہیں یہیں قریب میں کھلا دیتا ہوں۔ اگر گھر بھیجوں تو ایک گھنٹے میں آتے ہیں۔ اس دوران اگر دو گاہک بھی آجائیں تو دونوں کے چار گاہک بنے۔ میں انہیں پچاس روپے دے کر تین سو کا نقصان بچا لیتا ہوں۔'' میں ان کی سوچ سے متاثر ہوا لیکن حیرت ابھی باقی تھی۔ کہنے لگے، ''شاہ صاحب ہمارے بچے ان کی وجہ سے روٹی کھاتے ہیں، اگر ہم نے ان پر بھی پچاس روپے لگا دیے تو کون سی بڑی بات ہوگئی۔ دیتی تو اوپر والے کی ذات ہے۔'' میں خاموش تھا اور مسرت میں جھوم رہا تھا۔ انسان کا مقصد بڑا ہو تو چھوٹی چیزیں حاصل ہو ہی جاتی ہیں۔ اپنی ورکشاپس میں اکثر یہ بات دہراتا ہوں کہ جو پنڈی کے لیے چلے گا وہ گوجرانوالہ پہنچ ہی جائے گا۔ لیکن جو گوجرانوالہ کا قصد باندھے گا، وہ پنڈی کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ پس زندگی میں مقاصد اونچے ہوں تو کامیابی بھی اسی کے مطابق ملتی ہے۔
ایکسیلنس
اتوار کے دن عصر کے وقت ظفروال سے واپسی پر بس سے اترا ۔ ایک رکشہ والے نے آواز لگائی۔بائو جی چورس ٹینکی جانا ہے کہ گرین ٹائون۔ راستے میں حیرت سے پوچھا۔کیا تم میرے علاقے میں رہتے ہو؟ نہیں صاحب جی۔ کیا میرے ساتھ پہلے بھی سفر کیا ہے؟ نہیں جی۔کیا مجھے جانتے ہو؟ نہ جی۔ تو پھر آپ کو پتہ کیسے لگا کہ میں نے کہاں جانا ہے؟ جوابات نے میرے دماغ کے فیوز بھک سے اڑا دیے۔ ''بائو جی رکشہ چلاتے بیس سال ہوگئے۔ اب گاہک پہچانا جاتا ہے۔'' حیرت دوچند ہوگئی۔کیا مطلب؟ ''صاحب جی گرین ٹائون، ٹائونز کی طرف کا آخری علاقہ ہے، جیسے واپڈا ٹائون، گارڈن ٹائون، ماڈل ٹائون وغیرہ۔ جب گرین ٹائون کا نام لیا جاتا ہے تو ان تمام اطراف کی سواری خود بول پڑتی ہے۔'' دل چسپی بڑھی۔ پوچھا، اس طرح تو چونگی امرسدھو بھی آخری علاقہ ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ بھی۔ کہا، ''چونگی امرسدھو کے لوگ رکشہ استعمال نہیں کرتے۔
یہ ٹائونز کے لوگوں میں استطاعت ہے۔ اور ٹھوکر نیاز بیگ کے لوگ اس وقت رکشہ استعمال نہیں کرتے''۔ پھر ان ٹائونز میں لوگ اندرون لاہور سے جا آباد ہوئے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے اور ملوانے چھٹی کے دن یہاں لاتے ہیں اور اس وقت واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ امکان ہوتا ہے کہ اس وقت ان علاقوں کی سواری مل جائے گی۔ جانے وہ کون خوش اخلاق تھا۔ مجھے حیرانیوں میں گم چھوڑگیا۔ اس کی شکل بھی یاد نہیں۔ سکھا بہت کچھ گیا۔ جو بھی اپنے ذوق کے کام میں منہمک ہو جاتا ہے، اس پر جزئیات کا علم کھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بھلا اس کے علاوہ کون گُرو ہوگا۔ کامیاب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایکسیلنس معمولی چیزوں میںبھی ممکن حد تک کمال حاصل کرنے کا نام ہے۔ اسے حاصل وہی کریں گے جو اپنے رجحان کے کام میں مشغول ہیں۔
یہ واقعات محض پڑھ کے گزر جانے کے لیے کب ہیں۔ یہ وقت ِ فرصت کی ذہنی عیاشی نہیں۔ یہ کامیاب لوگوں کی مثالیں ہیں۔ ان کو زندگی میں جگہ دینے والا ان کا اثر محسوس کرے گا۔ عام لوگ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، حوصلہ مند وننگ لائن پار کرتے ہیں۔