داعش نے ’میسی‘ کو اغوا کرلیا

طویل عرصے تک داعش کی قیدمیں رہنے والے ’’میسی‘‘ اور اس کے گھر والوں کو حال ہی میں آزادی نصیب ہوئی ہے

طویل عرصے تک داعش کی قیدمیں رہنے والے ’’میسی‘‘ اور اس کے گھر والوں کو حال ہی میں آزادی نصیب ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

عراق میں داعش کی قید سے آزاد ہونے والے ایک یزیدی گھرانے کا کہنا ہے کہ ان کے پانچ سالہ بیٹے کو داعش نے صرف اس لیے اغوا کرلیا تھا کیونکہ اس کے والد نے اس کا نام ''میسی'' رکھ دیا تھا۔

یہ گھرانہ 2014 سے داعش کی قید میں تھا اور چھ ماہ پہلے آزاد ہوکر پناہ گزین کیمپ میں پہنچا تھا۔ بچے کے والد کو فٹ بال کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ انہوں نے 2012 میں لڑکے کی پیدائش پراس کا نام ہی فٹ بال کے مشہورکھلاڑی کے نام پر ''میسی'' رکھ دیا۔




جب داعش جنگجوؤں کو اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے وہ بچہ اغوا کرلیا اور اس کے باپ سے کہا کہ وہ اپنے بچے کا غیراسلامی نام رکھ کر ناقابلِ تلافی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور جب تک وہ اس بچے کا نام تبدیل کرکے مسلمانوں جیسا نام نہیں رکھتا، تب تک اس بچے کو اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

اس دوران داعش نے بچے کا اسلامی نام ''حسن'' رکھا اور اس کی برین واشنگ بھی جاری رکھی تاکہ وہ اپنے اسی اسلامی نام سے شناخت کیا جانا پسند کرے۔ اگرچہ کئی ماہ بعد ''میسی'' یا ''حسن'' کو اس کے گھر والوں کے پاس واپس بھیج دیا گیا لیکن تب تک اس کا ذہن اتنا منتشر ہوچکا تھا کہ وہ ان میں سے کسی بھی نام سے پکارے جانے پر چونک جاتا تھا اور خوف زدہ ہوکر ادھر اُدھر دیکھنے لگتا تھا۔

2016 میں کرد افواج نے کئی گھرانوں کو داعش کی قید سے آزاد کروانے کے بعد عقرہ کے پناہ گزین کیمپ میں پہنچادیا جن میں ننھے ''میسی'' کا گھرانہ بھی شامل ہے۔

کیمپ میں تعینات ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بچہ بتدریج ذہنی طور پر دوبارہ نارمل ہورہا ہے لیکن کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹی عمر میں انتہائی شدت پسندی کا ماحول دیکھ چکا ہے اس لیے اسے مکمل طور پر بحال ہونے میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔
Load Next Story