اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ تبدیلی کی طرف پہلا موثرقدم
طاہر القادری کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ صرف ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی مرضی کا نگران سیٹ اپ منظور نہیں ہوگا۔
میں کئی ہفتوں سے مسلسل لکھ رہاتھا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا '' مک مکا نگران سیٹ اپ '' اب چلنے والا نہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی میں نگران سیٹ اپ پردرون ِ خانہ سمجھوتہ ہوگیا تھا ، اور اگر طاہر القادری کا لانگ مارچ رکاوٹ نہ بن جاتا، تو نگران سیٹ اپ ''ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حلیف پارٹیوں کے تحفظات کے علی الرغم نافذ ہوجاناتھا۔
مینار ِ پاکستان ریلی سے اسلام آباد لانگ مارچ تک ، طاہر القادری کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ صرف ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی مرضی کا نگران سیٹ اپ منظور نہیں ہوگا۔'' اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ'' میں طاہرالقادری کا یہ مطالبہ من وعن تسلیم کر لیا گیا ہے، کہ نگران سیٹ اپ ، اب صرف ن لیگ اورپیپلزپارٹی کا نہیں، سب پارٹیوں کا متفقہ ہوگا ۔معلوم ہوتا ہے کہ نگران سیٹ اپ پر ا ب ازسرِ نومشاورت ہوگی ، اور سب'' پارٹیاں'' اس میں شریک ہوں گی۔طاہر القادری لانگ مارچ کا یہ نتیجہ بہت غیرمعمولی ہے ، اورآیندہ انتخابات پر براہ راست اثرانداز ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ بے نظیر بھٹو ، نوازشریف سمیت سب نے اپنے اپنے مطالبات کے لیے لانگ مارچ کیے ، لیکن یہ صرف طاہر القادری کا لانگ مارچ ہے ، جو اپنی منزل ِ مقصود تک پہنچ پایا۔ طاہرالقادری کو ان سب سے کم آسانیاں میسر تھیں ۔طاہرالقادری ، تنِ تنہا صرف اپنے بل پر لانگ مارچ کے لیے نکلے۔ نہ صرف یہ کہ پنجاب حکومت ، اوروفاقی حکومت ان کی راہ میں حائل تھیں ، بلکہ ایم کیوایم ، مسلم لیگ ق ، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماے اسلام جیسی پارٹیاں ، جو اصولی طورپرطاہرالقادری کے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کی درست سمجھتی ہیں، عملی طورپر اُن کاساتھ دینے پر تیار نہ تھیں۔عمران خان ، طاہر القادری کے نظریا ت کے بہت قریب ہیں ، لیکن عمران خان نے اظہارِیکجہتی کے طورپر بھی لانگ مارچ میں شریک ہونا مناسب نہ سمجھا ۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بیشتر حصہ متعصبانہ حد تک طاہر القادری کی مخالفت کر رہا تھا۔ اس تناظر میںعام خیال یہ تھاکہ طاہر القادری لانگ مارچ کاارادہ ترک کر دیں گے۔ گزشتہ سے پیوستہ کالم ''طاہر القادری فیکٹر'' میں ، میں نے عرض کیا تھا کہ طاہرالقادری پلٹ کر آنے والے آدمی ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس ناسازگارصورت حال نے ان کی ہمت کو مزید مہمیز دیدی۔13 جنوری کی سہ پہرکو ماڈل ٹاون لاہور سے طاہر القادری لانگ مارچ اس طرح نمودار ہواکہ اول قدم پرہی اس نیعوام کو متاثر کیا۔آگے چل کر اس محیرالعقول لانگ مارچ نے لاہور اوراسلام آباد کا درمیانی فاصلہ 36 گھنٹے میں طے کرکے عدلیہ بحالی لانگ مارچ کا 27 گھنٹے کا ریکارڈ بھی پیچھے چھوڑ دیا۔پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے بزرجمہروں کوپورا یقین تھا کہ یہ لانگ مارچ ، پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل شاہراہ پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔ طاہرالقادری نے یہ اندازہ بھی غلط ثابت کردیا۔لانگ مارچ کے دوسرے روز طاہرالقادری اس طرح پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل فروکش تھے کہ پیپلز پارٹی ،اوراس کے اتحادی ،ن لیگ اوراس کے حلیف سب حیران و پریشان نظر آرہے تھے۔ طاہرالقادری کاجادو سرچڑھ کربول رہا تھا۔
نوازشریف ، جو ایک دن پہلے تک کہہ رہے تھے کہ ''پلے نئیں دھیلہ ، تے کردی میلہ میلہ ''اس حد تک پریشان ہوگئے کہ ذاتی طورپر رابطے کر کے رائے ونڈ میں اپنے حلیفوں کو جمع کیا ۔نوازشریف، سید منورحسن، فضل الرحمان ، شہباز شریف، غلام مصطفیٰ کھر اور محموداچکزئی، سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہوگئے ۔ یہ سید منورحسن ہیں ، ہمیشہ یہ ارشاد فرمایاکہ قوم کی نجات ، نوازشریف اورآصف علی زرداری سے جلدازجلد نجات میں مضمر ہے ۔ یہ فضل الرحمان ہیں ، صرف ایک ماہ پیشتر یہ فتویٰ دیا کہ جماعتِ اسلامی کو متحدہ مجلس ِ عمل میں دوبارہ شامل کرنا، ،متحدہ مجلس ِ عمل کو ناپاک کرنا ہو گا۔ سب لوگ غالباً دل ہی دل میں ''قادری انقلاب''سے پناہ مانگ رہے ہیں۔ اور یہ محمود اچکزئی ہیں،'' مُک مُکانگران حکومت'' کے ''نگران وزیرِاعظم''۔ آج لانگ مارچ کے بعد ، ''اپوزیشن'' کے اس ''نمایندہ اجلاس''کے مشترکہ اعلامیہ پر ایک نظر ڈالیں، تو ان '' قائدین'' کی سراسیمگی پر ہنسی آتی ہے۔ طاہر القادری لانگ مارچ نے ''حکومت '' ہی نہیں، ''اپوزیشن '' کا کھوکھلا پن بھی طشت ازبام کردیا۔
طاہر القادری لانگ مارچ، اپنے آغاز کی طرح، اپنے اختتام میں بھی منفرد ثابت ہوا۔ وزیرِداخلہ رحمن ملک، لانگ مارچ کے دوران میں لانگ مارچ کے شرکا کو باربار یہ انتباہ کرتے رہے کہ اُن پر دہشت گردی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پھر دھرناختم کرانے کے لیے آپریشن کا منصوبہ سامنے آیا۔ شکرہے کہ چوہدری شجاعت حسین اورآصف علی زرداری کی بروقت مداخلت پر یہ ختم کردیاگیا۔ دھرنیکو پُرامن رکھنا آسان نہ تھا۔ دھرنے کے آخری روز، ایک مرحلہ پریہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اب حالات طاہرالقادری کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں۔اسلام آباد اور راولپنڈی الرٹ ہوچکے تھے۔اس نازک مرحلہ پر چوہدری شجاعت حسین نے جو مصالحانہ کردار ادا کیا ، اس نے اسلام آباد کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا ۔
نائب وزیرِاعظم چوہدری پرویزالٰہی عمرہ کی ادائیگی کے دوران میں اس مرحلہ پر مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا بھرپور اثرورسوخ استعمال کر رہے تھے ۔لال مسجد مذاکرت کے تلخ تجربات کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے صدرآصف علی زرداری سے وعدہ لیا کہ مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام ، لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف آپریشن نہیں ہو گا۔ سرکاری وفد اورطاہرالقادری کے درمیان یہ مذاکرات پارلیمنٹ ہاوس کے باہر دھرنا کے درمیان ایک کنٹینر کے اندر اس طرح شروع ہوئے کہ کنٹینر کے باہر ہر خاص وعام اُن کا مشاہدہ کر سکتا تھا ۔ طاہرالقادری نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا کہ اب مذاکرات ''عوامی اسمبلی'' میں پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ہوں گے۔ ٹرانسپئرنٹ ڈائیلاگ کایہ نظارہ قوم پہلی بار دیکھ رہی تھی ۔
حیرت ہے کہ وہ سیاست دان اور تجزیہ کار ،جو مذاکرات سے پہلے طاہرالقادری پر زور دے رہے تھے کہ بہت ہوگیا، دھرنا ختم کریں اور مذاکرات کریں، اب طاہر القادری اور حکومت میں مذاکرات پر اعتراضات کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اعتراضات برائے اعتراضات ہیں۔یہ تو ایک ملک کا اندرونی تنازع تھا، اگر دو ملکوں کے درمیان جنگ ہورہی ہو ، جب بھی کوئی ملک اس بنیاد پر مذاکرات سے انکار نہیں کرتا کہ اب جنگ شروع ہو چکی، دونوں طرف سے لوگ مرر ہے ہیں ، اسلیے اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ لانگ مارچ اور دھرناکے بعدطاہر القادری نے مذاکرات کی میز پر بھی اپنا آپ منوایا۔نگران حکومت اور امیدواروں کی اہلیت پر اپنا مطالبہ اس طرح تسلیم کرایا کہ مذاکرات کار کے طورپر ان کی ذہانت کی داددینا پڑتی ہے ۔ ''اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن'' آیندہ عام انتخابات کو صاف ، شفاف بنانے میں کلیدی کردار اداکرسکتا ہے ، بشرطیکہ اب سب پارٹیاں اس پر عمل درآمد کا عزم کر لیں ۔ یہ پارٹیاں مانیں یا نہ مانیں، لیکن طاہر القادری نے تنِ تنہا وہ کر دکھایا ، جویہ سب پارٹیاں مل کر بھی نہیں کرپارہی تھیں۔ ویل ڈن ، لانگ مارچ۔