ایک ستارہ اور غروب ہوا

کیا اس معاشرے کو ہم جہل کے معاشرے کے علاوہ کوئی اور نام دے سکتے ہیں؟

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

کسی معاشرے کی ترقی یا تنزل کو دیکھنا ہے تو یہ دیکھو کہ اس معاشرے میں مفکروں، فلسفیوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں کا کیا مقام ہے اور میڈیا کی ترجیحات کیا ہیں؟ جنوری کے پہلے ہفتے میں ملک کے ممتاز محقق، نقاد اور ترقی پسند دانشور ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انھیں آغا خان اسپتال میں داخل کردیا گیا، صدیقی صاحب دل، شوگر، کڈنی ودیگر امراض میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر مظہر حیدر نے مجھے اطلاع دی کہ محمد علی صدیقی کی حالت کافی خراب ہے۔

ظاہر ہے مجھے سخت تشویش ہوئی، دوسرے دن ڈاکٹر مظہر کا ایس ایم ایس آیا کہ انھیں آئی سی یو میں شفٹ کردیا گیا، پھر دو دن بعد معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت اور زیادہ بگڑ گئی ہے اور انھیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے، تین دن بعد ڈاکٹر مظہر حیدر نے بتایا کہ ان کی طبیعت کچھ بہتر ہورہی ہے، پھر ڈاکٹر مظہر نے بتایا کہ صدیقی کی طبیعت بہتر ہورہی ہے اور انھیں وینٹی لیٹر سے ہٹا لیا گیا ہے اور اب وہ آئی سی یو میں ہیں۔ اس کے دو دن بعد ڈاکٹر مظہر نے اطلاع دی کہ محمد علی صدیقی کو آئی سی یو سے کمرے میں شفٹ کردیا گیا ہے کمرے کا نمبر بھی دے دیا گیا۔ میں مطمئن ہوگیا کہ ملک ایک روشن خیال محقق، نقاد اور دانشور سے محروم ہونے سے بچ گیا۔ میں عیادت کے لیے اسپتال جانے کا پروگرام بنا رہا تھا چونکہ میرا زیادہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہے لہٰذا میں بروقت اسپتال نہ جاسکا۔

دوسرے دن میں اپنے موبائل پر ایس ایم ایس دیکھ رہا تھا کہ ڈاکٹر مظہر کے ایک ایس ایم ایس پر میری نظر حیرت سے رک گئی۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے انتقال کی وجہ سے انجمن ترقی پسند مصنفین کی ماہانہ تنقیدی نشست ملتوی کردی گئی۔ میں جو بھائی صدیقی کی صحت کی بہتری کی اطلاع سے بڑا مطمئن ہوگیا تھا اس نئی اطلاع سے بھونچکا رہ گیا۔ میں غور سے ٹی وی چینلز کی پٹیاں دیکھنے لگا، لیکن کسی چینل پر ڈاکٹر محمدعلی صدیقی کے انتقال کی کوئی پٹی چلتی نہیں دکھائی دی۔ مجھے معلوم ہوا کہ کسی اخبار میں ڈاکٹر محمد علی کی علالت کی خبر لگی تھی ویسے بھی مرحوم کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جن میں حکومتی اکابرین بھی شامل ہیں اور مرحوم کے آئی سی یو اور وینٹی لیٹر پر جانے کی اطلاع حکمرانوں کو یقینا ہوئی ہوگی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہمارے سیاستدان کسی کامیڈین، کسی گلوکار، کسی اداکار، کسی صداکار، کسی طبلہ نواز، کسی سارنگی نواز، کسی بانسری نواز، کسی قوال کی بیماری پر دوڑے دوڑے اس کے گھر جاتے ہیں، سرکاری خرچ پر اس کا علاج کراتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اسے بیرون ملکوں میں سرکاری خرچ پر علاج کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور اگر ان فنکاروں میں سے کوئی انتقال کرجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، اس کی یادگاریںقائم کرتے ہیں، اس کے نام پر ٹرسٹ بناتے ہیں۔ ہمارا میڈیا پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے فنکاروں کی برتھ ڈے، برسی، بیماری اور انتقال کی خبریں ہنوز بریک میں دیتا ہے اور ان کی خبروں کو کئی کئی دن چلاتا ہے۔ یہ ایک قابل تعریف روایت اور رویہ ہے۔ فن اور فنکار نوازی ہے۔

محمد علی صدیقی نے اردو زبان کی ترقی پر بہت کام کیا۔ شعر و ادب پر بہت تحقیق کام انجام دیا وہ ملک کے معروف نقادوں میں شمار ہوتے تھے ان کی ادبی تنقیدی صلاحیتوں کو مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروفیسر ممتاز حسین، پروفیسر مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر علی جواد اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسے لوگ سراہتے تھے۔ مرحوم کو اردو، فرانسیسی، انگلش، فارسی، پنجابی، سندھی، سرائیکی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے مرزا غالب، قائد اعظم، علامہ اقبال، سرسید احمد خان، جوش ملیح آبادی وغیرہ پر 16 کتابیں تصنیف کیں۔ 1992 میں پی ایچ ڈی اور 2003 میں ڈی لٹ کیا۔ ان کی ادبی اور ثقافتی خدمات پر انھیں حکومت پاکستان نے 2003 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔

وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر تھے، وہ پاکستان انٹرگلڈ پیرس، فرانس، یورپی یونین سمیت بے شمار عالمی ادبی اور ثقافتی تنظیموں سے منسلک تھے، انھوں نے 100 سے زیادہ مقالے لکھے۔ انھیں 1984 میں ساؤتھ ایشیا، اسٹڈیز کا سب سے بہتر اسکالر قرار دیا گیا ،اور ان کی کروچے کی سرگزشت کو 1979کی بہترین کتاب کا اعزاز ملا، انتقال کے وقت تک وہ ''بزٹیک'' کے ڈین فیکلٹی رہے۔ ہمدرد یونیورسٹی میں 6 سال تک ڈین فیکلٹی رہے۔ ان ساری خدمات، خوبیوں اور صلاحیتوں کے علاوہ میں ان کی جس خوبی سے متاثر ہوں وہ ان کی عقل و دانش اور ان کی روشن خیالی ہے۔ میں جب اس حوالے سے ان کے انتقال پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے جہل کے اس بیکراں اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن کو ڈوبتے دیکھتا ہوں۔ پسماندگی کے اس صحرا میں ایک گونجتی آواز کو صدا بصحرا دیکھتا ہوں۔


اکیسویں صدی کی دنیا ایک بالکل نئی دنیا ہے ، ہزاروں سال پر استوار اقدار، عقائد و نظریات اکیسویں صدی کی دریافتوں اور انکشافات سے مطابقت نہیں رکھتیں، ساری دنیا اپنی زندگی کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کے بالکل برعکس ہم اکیسویں صدی کو قبل مسیح سے ہم آہنگ کرنے کی احمقانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ ہماری قبائلی معاشرت اس مہم میں اس قدر آگے نکل گئی ہے کہ اس مہم میں اپنی انسانی شناخت کھو بیٹھی ہے، ہماری مڈل کلاس کا ایک حصہ اور سیاست کاروں کے کچھ لوگ اپنی کم ظرفی اور ذاتی و جماعتی مفادات کی خاطر قبائلی بربریت میں اپنا تابناک ماضی تلاش کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں اب تک غیرمنطقی طور پر موجود جاگیردارانہ سرداری اور خوانین کا نظام اور اس کے رسم و رواج بیہودہ روایات ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ یہ دیواریں، یہ وحشتیں محض انتظامی اقدامات یا قانون کے استعمال سے ختم نہیں کی جاسکتیں، ان رکاوٹوں اور معاشرے کے گرد قائم ان نظریاتی حصاروں کو فکر نو کے ذریعے ہی توڑ اجاسکتا ہے۔

محمد علی صدیقی اس فکر نو کا نقیب تھا ہمارے معاشرے کی یہ ایک اجتماعی بدقسمتی ہے کہ فکر نو کو آگے آنے سے روکا جارہا ہے اس کے راستے میں طرح طرح کی احمقانہ رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں اور قبائلی جاگیردارانہ فکر اور اس کے داعیوں کو عوام کو اندھیروں میں دھکیلنے کی کھلی آزادی دی جارہی ہے۔ محمد علی صدیقی نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں، 100 سے زیادہ مقالے تحریر کیے، یہ سارے فکر نو کے چراغ ہیں جن کے ذریعے ہم اندھیروں کا جگر چیر سکتے ہیں جو اور گہرے ہورہے ہیں اس کے لیے محمد علی صدیقی اور ان جیسے فکر نو کے نمایندوں کو عوام تک رسائی کی سہولتیں آسانیاں ملنی چاہئیں، محمد علی صدیقی کی کتابیں ان کے مقالے سیمیناروں، ورکشاپوں، ادبی نشستوں ، کانفرنسوں کی چہار دیواریوں سے آگے عوام تک نہ جاسکے، یہی ہمارا المیہ، یہی ہماری بدقسمتی ہے۔

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا

محمد علی صدیقی موت کے اربوں سال پر پھیلے اندھیروں میں گم ہوگئے، افلاطون، ارسطو سے لے کر ہیگل مارکس تک تمام جینئس بھی موت کے اندھیروں میں گم ہوگئے، لیکن ان کے خیالات، ان کی فکر، ان کی تخلیقات زندہ ہیں کیونکہ ان میں حال سے ہم آہنگی کی خو بو ہم ان اکابرین کا آج بھی احترام کرتے ہیں، لیکن جانے والے اس احترام، اس عقیدت، اس توقیر کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ ایک مزدور دن بھر جسمانی محنت کرنے کے بعد شام میں اپنی محنت کا معاوضہ لے کر گھر جاتا ہے۔ ایک ذہنی و فکری محنت کرنے والا گمنامی کے اندھیروں میں زندہ رہتا ہے اور گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔

میں نے ابتداء میں اس حقیقت کی نشاندہی کی تھی کہ ہمارے سیاسی اکابرین، ہمارے حکمران ایک صداکار، ایک اداکار، ایک گلوکار، ایک کامیڈین، ایک طبلہ نواز، ایک سارنگی نواز، ایک بانسری نواز، ایک قوال کی بیماری پر اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر دوڑتے ہیں، اس کے انتقال پر اس کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، اس کے مقبرے تعمیر کراتے ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے، لیکن جو معاشرہ، جو معاشرتی اکابرین، جو حکمران طبقات فن اور ادب جہل اور دانش میں امتیاز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کیا اس معاشرے کو ہم جہل کے معاشرے کے علاوہ کوئی اور نام دے سکتے ہیں؟

محمد علی صدیقی ہر اعتبار سے ایک بڑا انسان تھا لیکن اس بڑے انسان کی بیماری پر کسی ''بڑے'' کی طرف سے کسی تشویش کا اظہار کیا گیا نہ یہ دیکھا گیا کہ اس بیمار کو بیرونی علاج کی ضرورت ہے، نہ اس کے گزر جانے کا کسی ''بڑے'' نے کوئی نوٹس لیا۔ یہ جہل ہے یا خرد؟ محمد علی صدیقی جیسے کئی دوست گزر گئے، ہم انھیں ان کی زندگی میں خراج عقیدت پیش کرکے خوش ہونے کا موقع نہیں دیتے، ان کے مرجانے کے بعد ہم خراج عقیدت کی محفلیں سجاتے ہیں، جسے مرنے والا نہ دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کرسکتا ہے۔ یہ مردہ پرستی نہیں تو کیا ہے؟
Load Next Story