سڑک حادثات کیوں پیش آتے ہیں

کراچی میں 28 لاکھ 26 ہزار گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں موٹرسائیکل کی تعداد 14 لاکھ اور گاڑیوں کی تعداد 10 لاکھ ہے۔


Shabbir Ahmed Arman January 20, 2013
[email protected]

KARACHI: 35 سالہ محمد صدیق ایکسپورٹ کا کام کرنے والی ایک کمپنی کا ملازم تھا، وہ 3 بچوں کا باپ تھا،وہ بچوں کو گھر کے قریب واقع اسکول سے لے کر گھر آرہا تھا کہ بلال کالونی تھانے کے علاقے نارتھ کراچی دو منٹ چورنگی کے قریب تیز رفتار ٹرک نے محمد صدیق اور اس کی 6 سالہ بیٹی طوبیٰ کو کچل ڈالا اور متوفی صدیق کا بیٹا 4 سالہ مزمل معجزانہ طور پر محفوظ رہا جب کہ 2 سالہ بیٹا جاوید اس وقت ماں کے پاس گھر پر کھیل رہا تھا وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ وہ ٹرک ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے باپ کے سائے سے محروم ہوچکا ہے۔ دونوں باپ اور بیٹی کو آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا اور پولیس نے متوفی کے بھائی صادق کی مدعیت میں گرفتار ٹرک ڈرائیور امان اللہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یہ حادثہ 22 دسمبر 2012 کو پیش آیا تھا۔ اس طرح ایک اور ہنستا بستا گھر ویران ہوگیا بلکہ اجڑ گیا ہے، جس کی تلافی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔

سڑک حادثات کیوں پیش آتے ہیں؟ یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے۔ اس کی وجوہات سے ارباب اختیارات اور ٹرانسپورٹر مافیا بخوبی آگاہ ہیں کہ جدید ٹرانسپورٹ سسٹم کی کمی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، نابالغ ڈرائیورز، پرانی پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ، گاڑیاں حادثات کے بڑھتے ہوئے اسباب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کراچی میں سالانہ 26 ہزار سے زائد حادثات رونما ہوتے ہیں جس کے باعث ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 32 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوتے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر کراچی میں گزشتہ 11 ماہ میں 700 ٹریفک حادثات کے دوران 359 افراد ہلاک جب کہ 338 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ٹریفک پولیس کراچی کے ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے گیارہ ماہ کے دوران سڑک عبور کرتے ہوئے 110 افراد کو گاڑیوں نے کچل دیا جب کہ زخمیوں کی تعداد 69 ہے جب کہ سال 2011 میں پیدل چلنے والے افراد کی ہلاکتوں کی تعداد 159 اور زخمیوں کی تعداد 97 تھی، اس طرح رواں سال میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف 7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں سال میں 30 نومبر تک سائیکل چلاتے ہوئے ٹریفک حادثوں میں 14 افراد ہلاک اور 4 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ سال 2011 میں سائیکل چلاتے ہوئے ٹریفک حادثات میں 10 افراد ہلاک اور 10 افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس طرح رواں سال میں سائیکل چلاتے ہوئے ٹریفک حادثات کے واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں سال 2011 کے مقابلے میں 1 اعشاریہ 55 فیصد اضافہ ہوا جب کہ زخمی ہونے کے واقعات ایک فیصد کم ہوئے ہیں، رواں سال 2012 میں اب تک مختلف ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے موٹر سائیکل سوار افراد کی تعداد 182 ہے جب کہ مختلف ٹریفک حادثات میں 155 موٹر سائیکل سوار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، 2011 میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے موٹر سائیکل سوار افراد کی تعداد 204 اور زخمیوں کی تعداد 19 تھی، اس سال ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں3 فیصد اور زخمیوں میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

2012 میں گاڑیوں کے درمیان تصادم، بے قابو ہوکر گاڑیاں الٹ جانے سمیت دیگر حادثات میں 53 افراد ہلاک اور 110 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ سال 2011 میں 54 افراد ہلاک اور 187 افراد زخمی ہوئے تھے۔ 2011 میں مجموعی طور پر 912 ٹریفک حادثات میں 424 افراد ہلاک اور 485 افراد زخمی ہوئے تھے جب کہ نومبر 2012 تک مجموعی طور پر 700 کے قریب ٹریفک حادثات ہوئے ہیں جن میں 359 افراد ہلاک اور 338 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

محکمہ ایکسائز کے مطابق کراچی میں 28 لاکھ 26 ہزار گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں موٹرسائیکل کی تعداد 14 لاکھ، کاروں و جیپوں کی تعداد 10 لاکھ، کمرشل گاڑیاں 40 لاکھ ہیں اس کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت ہے۔ بسوں میں ایک سیٹ کے لیے 3 مسافروں کا تناسب ہے ۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی ناقص حکمت عملی کے باعث اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام کی شکایات عام ہیں جب کہ فلائی اوورز اور انڈرپاسز کا خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا، بڑھتی آبادی، ماس ٹرانزٹ سسٹم کی عدم موجودگی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جو ترقی یافتہ ممالک کے شہروں سے مسابقت کرتا ہے، شہر میں صرف 15 ہزار پبلک ٹرانسپورٹ آپریٹ کی جاتی ہے جو مسافروں کی مجموعی تعداد کا 42 فیصد بوجھ اٹھاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں جامع ٹرانسپورٹ پالیسی ناگزیر ہوگئی ہے جس کے تحت ذاتی گاڑیوں کی خریداری اور استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے اور فوری طور پر 7 سے 8 ہزار بڑی بسیں آپریٹ کی جائیں جب کہ طویل المعیاد منصوبہ بندی کے تحت ماس ٹرانزٹ سسٹم تعمیر کیا جائے۔

اس طرح شہر کراچی میں ایک طرف بڑھتے ہوئے ٹرانسپورٹ کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ یہ عجب صورت حال ہے شہر کراچی کی۔ سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ کا تصور ختم ہوکر رہ گیا ہے جو پیدل چلنے والوں کا حق ہوا کرتا تھا اب فٹ پاتھ کے بدلے تجاوزات نے جگہ لے لی ہے اور یہ تجاوزات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب یہ سڑکوں کو بھی اپنے گھیرے میں لیے ہوئے نظر آتے ہیں جو بسا اوقات حادثات کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ تجاوزات کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے تو باقاعدہ متعلقہ محکمے کے عملے پر حملہ کیا جاتا ہے اور پتھرائو اور فائرنگ تک کی جاتی ہے۔ یہ تجاوزات مفت میں نہیں لگائے جاتے اس کے لیے باقاعدہ مختلف اداروں اور گروپوں کی مٹھی گرم کی جاتی ہے۔

کیا جائے تو کیا کیا جائے، بہرحال لوگ پریشان ہیں، پیدل چلنے کے لیے فٹ پاتھ نہیں، سڑک کے کنارے چلو تو حادثے کا خطرہ ہے، روڈ پار کرنے کے لیے جو آہنی پل تعمیر کیے گئے ہیں ان پر لوگ چڑھنا گوارہ نہیں کرتے اور وہ چلتی ٹریفک میں سڑک کے دوسرے کنارے کو اس طرح پار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے خودکشی پر آمادہ ہو، بچ گیا اس کی خوش قسمتی، کسی گاڑی کے نیچے آگیا تو اس کی بد نصیبی والی بات ہے۔ کراچی گاڑیوں کا جنگل ہے ہی ایسے میں جنگل میں ٹریفک قوانین کا تصور کیونکر ممکن ہو؟ ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے جو پانچ ہزار افراد بھرتی کیے گئے تھے وہ صرف مخصوص ایام میں سڑکوں پر نظر آتے ہیں باقی دنوں میں کہاں ڈیوٹی دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

محکمہ ٹریفک پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً ٹریفک حادثات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف آگاہی مہم چلائی جاتی رہی ہیں تاکہ ٹریفک حادثات کو کم سے کم کیا جاسکے پھر بھی ٹریفک حادثات زیادہ ہوتے ہیں۔ جب تک محکمہ ٹریفک پولیس ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قانون کی حکمرانی کا بول بالا نہیں کرتا اور لوگ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کریں گے، یہ حادثات ہوتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں