سادہ لوح پاکستانی عوام
طاہر القادری نے بھی عوام کے جذبات میں ابلتے طوفان کو ایک مفاداتی لانگ مارچ کے چمچ کی نذر کردیا۔
KARACHI:
چہرے بدل بدل کر مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ
واقعی یہ قوم بڑی سادہ لوح ہے، محض چند نعروں سے اس قوم کو جذباتی طور پر یرغمال بنایا جاسکتا ہے، اب چاہے وہ روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ ہو یا سب سے پہلے پاکستان کا، احتساب و انقلاب کا ہو یا انصاف کی سیاست کا، اور اب تو ایک نئے نعرے نے پاکستانی سیاست میں اپنی انٹری دی ہے، یہ اور بات کہ ''سیاست نہیں ریاست بچائو'' کا نعرہ لگانے والے طائر لاہوتی نے موسم تبدیل ہوتے ہی اڑان کے لیے پر پھیلا دیے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ قوم (مستثنیٰ لوگوں سے معذرت کے ساتھ) ذہنی کج روی کا شکار ہے، ورنہ ایک باشعور معاشرے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پانچ سالہ خودساختہ جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس آئے اور ایک جذباتی نعرے کے ساتھ عوام کا استحصال اس انداز سے کرے کہ لوگ سخت ٹھٹھرتے موسم میں اپنے بچوں اور بزرگوں کے ساتھ 4 روز تک اس نعرے کے سحر میں گم دھرنا دیے بیٹھے رہیں اور صاحب نعرہ اپنے لہجے کی شعلہ بیانی سمیت کسی ''خفیہ ڈیل''کے طفیل اچانک پیش منظر سے پسِ منظر میں چلا جائے۔
ایک ماہ سے بھی کم مدت پہلے یعنی 23 دسمبر کو طاہر القادری نے لاہور کے ایک جلسے میں ''سیاست نہیں ریاست بچائو'' کا نعرہ کیا بلند کیا، ملک کے طول و عرض میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی ''بھنبھناہٹ'' گونجتی چلی گئی۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ہر کسی کی زبان پر طاہر القادری اور اس نعرے کا تذکرہ تھا، سیاسی دکاندار اس نعرے کو اپنے مفادات کے تناظر میں کبھی مثبت اور کبھی منفی تناظر میں تول رہے تھے تو لاچار، بے بس، مہنگائی کی چکی میں پستے مظلوم عوام کو اس نعرے میں اپنے تمام دکھوں کا مداوا نظر آرہا تھا۔ گوکہ ماضی میں اس ری کنڈیشن نعرے کو ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار اور ذاتی عزائم کے لیے استعمال کیا ہے لیکن عوام کے درد کا درماں ان 65 برسوں میں نہ کبھی فوجی حکومتیں کر پائیں نہ ہی کسی جمہوری حکومت نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا۔
گزشتہ کئی روز سے ذرایع ابلاغ پر ہر طرف طاہر القادری کے ہی چرچے تھے، چاہے وہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔ ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا'' کے مصداق تذکرہ منفی ہو یا مثبت قادری صاحب نے محض ایک ماہ میں جو شہرت کمائی، اس قدر نام کرنے کے لیے ہالی ووڈ و بالی ووڈ اداکارائوں کو کتنے ہی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن برطانیہ پلٹ قادری نے محض عوام کی دکھتی رگ چھیڑ کر ایک نعرے کے ذریعے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ انھیں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ طاہر القادری سے ہزار اختلاف سہی لیکن اس بات کے تمام مخالفین معترف ہیں کہ قادری صاحب اپنی شعلہ بیانی، عقابی نظروں اور اپنے تقریری الفاظ کے ساتھ ساتھ جسمانی حرکات و سکنات سے ''سادہ لوح عوام'' کو اپنے سحر میں باآسانی گرفتار کرسکتے ہیں۔
خیال اغلب ہے کہ مولانا انسانی نفسیات بطور خاص پاکستانی عوام کی نفسیات کا اچھا مطالعہ رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے عوام کو ان کی مظلومیت کا احساس دلانے کے ساتھ مذہبی حوالوں سے بات کی جائے تو پوری قوم اندھی بھیڑوں کی طرح پیچھے چل پڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، یہی وجہ رہی کہ مولانا اپنی تقاریر میں اسلام کی برگزیدہ شخصیات و واقعات کا حوالہ دیتے رہے اور دھرنے میں موجود سادہ لوگ کلمہ لبیک ادا کرتے رہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ طاہر القادری نے جابجا امام حسینؓ اور واقعہ کربلا کا حوالہ دیتے ہوئے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور ساتھ ہی حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو 'یزید' قرار دیتے رہے، ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں ڈاکو اور لٹیرے جیسے الفاظ استعمال کرتے رہے لیکن پھر ان ہی ڈاکوئوں اور لٹیروں سے مذاکرات بھی کیے اور معاہدہ بھی کر ڈالا۔ شاید کربلا کا حوالہ دینے والے طاہر قادری بھول بیٹھے تھے کہ امام حسینؓ نے اسلام کی سربلندی کے لیے سر کٹانا تو گوارا کرلیا لیکن یزید کی بیعت لینا پسند نہ کی۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ یہ تمام دھرنا اور مطالبات لاحاصل ہی رہے اور ''ریاست بچائو'' جیسے نعرے کے سحر میں گرفتار لوگ اب بھی اسے اپنی جیت قرار دے رہے ہیں، کاش کوئی انھیں نیند سے جگا کر بتائے کہ وہ آج بھی رہبروں کی رہزنی کا شکار ہورہے ہیں۔
طاہر القادری کی شخصیت اور ان کے ایجنڈے پر جہاں کئی لوگ رطب اللسان ہیں وہیں میڈیا اور اخبارات بھی خود ساختہ شیخ الاسلام کے تذکرے سے بھرے پڑے ہیں، ہمارا مطمع نظر بھی قادری صاحب کی ذات نہیں بلکہ وہ سادہ لوح عوام ہیں جو ہر بار اپنی ہی ''معصومیت'' کے ہاتھوں ڈسے جاتے ہیں اور دوسروں کو اپنے درد کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ اس دھرنے اور لانگ مارچ پر کئی تبصرے ہوئے اور اب بھی جاری ہیں لیکن ہماری ناقص رائے میں اس کا ایک بہت بڑا منفی پہلو بھی ہے جسے لوگ اب تک نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں آنے والا عوامی انقلاب خاص طور پر شام اور لیبیا جیسے ملکوں میں جس طرح ظلم و جبر کی چکی میں پستے عوام نے اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کی اور سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا تو خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ انقلاب کی یہ لہر بہت جلد ایشیا میں بھی داخل ہوجائے گی، لوگ جاگتی آنکھوں سے سپنا دیکھ رہے تھے کہ پاکستان میں کوئی ایسا ہی انقلاب برپا ہونے والا ہے۔
شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن اس لانگ مارچ کے بعد اب ایک لمبے عرصے تک یہ خطہ ایسے کسی انقلاب سے محروم ہوگیا ہے۔ آپ نے کبھی کسی 'ڈھابے' پر چائے بنتی دیکھی ہے؟ تیز آنچ پر برتن میں جب چائے ابلنے لگتی ہے تو بنانے والا کاریگر اس میں چمچ ہلانا شروع کردیتا ہے، اس کا کمال یہ ہوتا ہے کہ لباب بھرے ہوئے برتن کے باوجود اس تیز آنچ کے زیر اثر چائے ابل کر برتن سے باہر نہیں گرتی ۔ طاہر القادری نے بھی عوام کے جذبات میں ابلتے طوفان کو ایک مفاداتی لانگ مارچ کے چمچ کی نذر کردیا ہے، اب کوئی حقیقی مسیحا ہی اس قوم کو انقلاب کی راہ دکھا سکتا ہے ورنہ شاید لولی لنگڑی جمہوریت کا تسلسل ہی کچھ کمال کرجائے۔ ہم صرف اچھی امید ہی رکھ سکتے ہیں۔
چہرے بدل بدل کر مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ
واقعی یہ قوم بڑی سادہ لوح ہے، محض چند نعروں سے اس قوم کو جذباتی طور پر یرغمال بنایا جاسکتا ہے، اب چاہے وہ روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ ہو یا سب سے پہلے پاکستان کا، احتساب و انقلاب کا ہو یا انصاف کی سیاست کا، اور اب تو ایک نئے نعرے نے پاکستانی سیاست میں اپنی انٹری دی ہے، یہ اور بات کہ ''سیاست نہیں ریاست بچائو'' کا نعرہ لگانے والے طائر لاہوتی نے موسم تبدیل ہوتے ہی اڑان کے لیے پر پھیلا دیے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ قوم (مستثنیٰ لوگوں سے معذرت کے ساتھ) ذہنی کج روی کا شکار ہے، ورنہ ایک باشعور معاشرے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پانچ سالہ خودساختہ جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس آئے اور ایک جذباتی نعرے کے ساتھ عوام کا استحصال اس انداز سے کرے کہ لوگ سخت ٹھٹھرتے موسم میں اپنے بچوں اور بزرگوں کے ساتھ 4 روز تک اس نعرے کے سحر میں گم دھرنا دیے بیٹھے رہیں اور صاحب نعرہ اپنے لہجے کی شعلہ بیانی سمیت کسی ''خفیہ ڈیل''کے طفیل اچانک پیش منظر سے پسِ منظر میں چلا جائے۔
ایک ماہ سے بھی کم مدت پہلے یعنی 23 دسمبر کو طاہر القادری نے لاہور کے ایک جلسے میں ''سیاست نہیں ریاست بچائو'' کا نعرہ کیا بلند کیا، ملک کے طول و عرض میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی ''بھنبھناہٹ'' گونجتی چلی گئی۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ہر کسی کی زبان پر طاہر القادری اور اس نعرے کا تذکرہ تھا، سیاسی دکاندار اس نعرے کو اپنے مفادات کے تناظر میں کبھی مثبت اور کبھی منفی تناظر میں تول رہے تھے تو لاچار، بے بس، مہنگائی کی چکی میں پستے مظلوم عوام کو اس نعرے میں اپنے تمام دکھوں کا مداوا نظر آرہا تھا۔ گوکہ ماضی میں اس ری کنڈیشن نعرے کو ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار اور ذاتی عزائم کے لیے استعمال کیا ہے لیکن عوام کے درد کا درماں ان 65 برسوں میں نہ کبھی فوجی حکومتیں کر پائیں نہ ہی کسی جمہوری حکومت نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا۔
گزشتہ کئی روز سے ذرایع ابلاغ پر ہر طرف طاہر القادری کے ہی چرچے تھے، چاہے وہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔ ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا'' کے مصداق تذکرہ منفی ہو یا مثبت قادری صاحب نے محض ایک ماہ میں جو شہرت کمائی، اس قدر نام کرنے کے لیے ہالی ووڈ و بالی ووڈ اداکارائوں کو کتنے ہی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن برطانیہ پلٹ قادری نے محض عوام کی دکھتی رگ چھیڑ کر ایک نعرے کے ذریعے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ انھیں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ طاہر القادری سے ہزار اختلاف سہی لیکن اس بات کے تمام مخالفین معترف ہیں کہ قادری صاحب اپنی شعلہ بیانی، عقابی نظروں اور اپنے تقریری الفاظ کے ساتھ ساتھ جسمانی حرکات و سکنات سے ''سادہ لوح عوام'' کو اپنے سحر میں باآسانی گرفتار کرسکتے ہیں۔
خیال اغلب ہے کہ مولانا انسانی نفسیات بطور خاص پاکستانی عوام کی نفسیات کا اچھا مطالعہ رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے عوام کو ان کی مظلومیت کا احساس دلانے کے ساتھ مذہبی حوالوں سے بات کی جائے تو پوری قوم اندھی بھیڑوں کی طرح پیچھے چل پڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، یہی وجہ رہی کہ مولانا اپنی تقاریر میں اسلام کی برگزیدہ شخصیات و واقعات کا حوالہ دیتے رہے اور دھرنے میں موجود سادہ لوگ کلمہ لبیک ادا کرتے رہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ طاہر القادری نے جابجا امام حسینؓ اور واقعہ کربلا کا حوالہ دیتے ہوئے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور ساتھ ہی حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو 'یزید' قرار دیتے رہے، ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں ڈاکو اور لٹیرے جیسے الفاظ استعمال کرتے رہے لیکن پھر ان ہی ڈاکوئوں اور لٹیروں سے مذاکرات بھی کیے اور معاہدہ بھی کر ڈالا۔ شاید کربلا کا حوالہ دینے والے طاہر قادری بھول بیٹھے تھے کہ امام حسینؓ نے اسلام کی سربلندی کے لیے سر کٹانا تو گوارا کرلیا لیکن یزید کی بیعت لینا پسند نہ کی۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ یہ تمام دھرنا اور مطالبات لاحاصل ہی رہے اور ''ریاست بچائو'' جیسے نعرے کے سحر میں گرفتار لوگ اب بھی اسے اپنی جیت قرار دے رہے ہیں، کاش کوئی انھیں نیند سے جگا کر بتائے کہ وہ آج بھی رہبروں کی رہزنی کا شکار ہورہے ہیں۔
طاہر القادری کی شخصیت اور ان کے ایجنڈے پر جہاں کئی لوگ رطب اللسان ہیں وہیں میڈیا اور اخبارات بھی خود ساختہ شیخ الاسلام کے تذکرے سے بھرے پڑے ہیں، ہمارا مطمع نظر بھی قادری صاحب کی ذات نہیں بلکہ وہ سادہ لوح عوام ہیں جو ہر بار اپنی ہی ''معصومیت'' کے ہاتھوں ڈسے جاتے ہیں اور دوسروں کو اپنے درد کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ اس دھرنے اور لانگ مارچ پر کئی تبصرے ہوئے اور اب بھی جاری ہیں لیکن ہماری ناقص رائے میں اس کا ایک بہت بڑا منفی پہلو بھی ہے جسے لوگ اب تک نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں آنے والا عوامی انقلاب خاص طور پر شام اور لیبیا جیسے ملکوں میں جس طرح ظلم و جبر کی چکی میں پستے عوام نے اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کی اور سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا تو خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ انقلاب کی یہ لہر بہت جلد ایشیا میں بھی داخل ہوجائے گی، لوگ جاگتی آنکھوں سے سپنا دیکھ رہے تھے کہ پاکستان میں کوئی ایسا ہی انقلاب برپا ہونے والا ہے۔
شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن اس لانگ مارچ کے بعد اب ایک لمبے عرصے تک یہ خطہ ایسے کسی انقلاب سے محروم ہوگیا ہے۔ آپ نے کبھی کسی 'ڈھابے' پر چائے بنتی دیکھی ہے؟ تیز آنچ پر برتن میں جب چائے ابلنے لگتی ہے تو بنانے والا کاریگر اس میں چمچ ہلانا شروع کردیتا ہے، اس کا کمال یہ ہوتا ہے کہ لباب بھرے ہوئے برتن کے باوجود اس تیز آنچ کے زیر اثر چائے ابل کر برتن سے باہر نہیں گرتی ۔ طاہر القادری نے بھی عوام کے جذبات میں ابلتے طوفان کو ایک مفاداتی لانگ مارچ کے چمچ کی نذر کردیا ہے، اب کوئی حقیقی مسیحا ہی اس قوم کو انقلاب کی راہ دکھا سکتا ہے ورنہ شاید لولی لنگڑی جمہوریت کا تسلسل ہی کچھ کمال کرجائے۔ ہم صرف اچھی امید ہی رکھ سکتے ہیں۔