کراچی صوبہ بنے گا

ممبئی ، استنبول اور نیویارک جیسے شہر کے منتخب نمایندے کے ماتحت پولیس بھی ہوتی ہے۔

03332257239@hotmail.com

ایک خطرناک عنوان کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا؟ سندھ کا دارالخلافہ اور دوکروڑ کے لگ بھگ آبادی کا شہر۔ ایک بات اس شہر کے صوبہ بننے کے خلاف جارہی ہے کہ یہ صوبہ سندھ کی راجدھانی ہے۔ دوسری بات اس شہر کے الگ صوبہ بننے کے حق میں جارہی ہے۔ 20 ملین کی آبادی، دنیا کے دو سو ممالک میں سے یہ شہر آدھے سے زیادہ ممالک سے بڑا ہوگا۔ دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک ایسے ہوں گے جن کی آبادی کراچی سے کم ہوگی۔ جب اتنی کم آبادی کے ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں تو کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے میں کیا حرج ہے؟ ایسی صورت میں جب ''تخت لاہور'' اپنے ہی شہر میں بیٹھ کر اپنے ہی صوبے کو تین حصوں میں بانٹنے کی بات کر رہا ہے تو یہ سوال کیا جانا کتنا غلط ہے کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا؟

سندھ کے حوالے سے تحریروں کا یہ پانچواں سلسلہ ہے۔ بلدیاتی آرڈیننس 2012 میں کراچی کو چند چھوٹے موٹے حقوق دینے پر سندھ کے قوم پرستوں کے شور شرابے نے اس سلسلے کی ابتدا پر مائل کیا۔ کراچی جیسے پورٹ سٹی اور معاشی حب کے میئر کو وسیع تر اختیارات ہوتے ہیں۔ ممبئی ، استنبول اور نیویارک جیسے شہر کے منتخب نمایندے کے ماتحت پولیس بھی ہوتی ہے۔ ایسے شہر جہاں پورے ملک کی آبادی کے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہوں، اسے صرف وہاں کے منتخب نمایندوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس شہر میں مستقل رہائش نہ رکھنے والوں کی اکثریت پر مشتمل صوبائی اسمبلی اسے اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کرے تو مسائل حل نہیں ہوسکتے، یہی کشمکش آنے والے دنوں میں سندھ کی تعمیر کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اگر یہاں کے باسیوں کو ریموٹ کنٹرول سے چلانے کی کوشش کی گئی تو ایک طویل آئینی اور احتجاجی جنگ شروع ہوسکتی ہے جو پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرح صوبہ سندھ کی تقسیم پر ختم ہوگی۔ اگر کراچی کو وسیع تر حقوق دیے گئے تو یہ سلسلہ آج کے اسکول جانے والے بچوں کی زندگی تک پرسکون انداز میں چلتا رہے گا۔ یوں سندھ کی وحدانیت کے تقدس کی حفاظت سندھ کے تمام بیٹے کرلیں گے۔ تمام بیٹے چاہے ان کا ڈومیسائل کراچی کا ہو یا کسی اور شہر دیہات کا، شرط شہر کراچی کو فراخدلی سے اس کے حقوق دینے کی ہے۔

کراچی کا مسئلہ کیا ہے؟ اسے صوبہ بنانے کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ یہ پہلا سوال تھا جو ہم نے ''یہ سندھ ہے'' نامی کالم میں ستمبر میں اٹھایا تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مسئلے کی کیا نشاندہی کی گئی تھی۔ شہری و دیہی آبادیاں الگ الگ پارٹیوں کو ووٹ دیں اور دونوں کی مشترکہ حکومت نہ ہو تو؟ پھرکراچی و حیدر آباد کا پرسان حال کون ہو؟ دادو، لاڑکانہ، بدین اور ٹھٹھہ سے منتخب ہونیوالے وزرا سندھ حکومت میں ہوں تو ناظم آباد، کورنگی، لانڈھی اور ٹاور کی صفائی، بجلی، پانی اور سڑکوں کے مسائل کیسے حل ہونگے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یاد رکھیے اگر سندھ کی قیادت نے دانشمندی سے شہر قائد کے بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ نہ دی تو کراچی کو صوبہ بنانے کی تحریک عوامی رنگ اختیار کرسکتی ہے۔

''سندھ کے لوگو! عقلمند بنو'' کے عنوان سے اکتوبر میں اس صوبے کے نئے اور پرانے سندھیوں کے حقیقی مسئلے کو ہلکے پھلکے انداز میں اس مثال سے واضح کیا تھا ''۔مسئلہ یہ ہے کہ سندھی بولنے والے بڑے شہروں کے اکثریتی رہائشی نہیں۔ اب ان شہروں کے بلدیاتی مسائل حل ہوں تو کیوں کر؟کیفیت یہ ہے کہ مکان میں کرایہ دار رہ رہا ہے، اب مالک مکان اسے رنگ و روغن کروانے، بلب لگوانے، باتھ روم بنانے، کھڑکی نکالنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ وہ ڈر رہا ہے کہ کہیں اس کے مکان پر قبضہ نہ ہوجائے۔ نہ کرائے دار سے مکان خالی کروایا جاسکتا ہے اور نہ اس کا حق ملکیت تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اب اسے صفائی ستھرائی کے اختیارات نہ دینا، فرش نہ بنانے دینا، پانی کی موٹر نہ لگانے دینا کب تک چل سکے گا؟


کب تک؟ جی ہاں کب تک؟ ہندوؤں نے مسلمانوں کو اختیارات نہ دیے تو مسلم لیگ ابھر کر سامنے آگئی، سندھ کے لوگ گواہ ہیں کہ وہ خود قائد اعظم کے اس خیال کے حامی تھے کہ ہندوستان کی تقسیم ہونی چاہیے۔ جب حقوق نہیں ملتے تو تقسیم کو نہیں روکا جاسکتا۔ پاکستان کی خاطر نوے فیصد سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ کو دینے والے بنگالی پچیس سال بھی ہمارے ساتھ نہ رہ سکے۔ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ ہم نے بنگال کے لوگوں کو حقوق نہ دیے۔ اگر آج کراچی کے لوگوں کو حقوق نہ دیے گئے تو آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ کیسی تحریک چلے گی اور کیا ہوگا؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب دانشورانہ انداز میں دیا جانا چاہیے۔ اہل علم کو آنے والی صدی نہ سہی آنے والے عشروں کے خطرات کو بھانپ کر اس کے سدباب کی تدبیریں کرنی چاہئیں۔

آصف زرداری نے اس حقیقت کو سمجھ کر ''ذوالفقار آباد'' کو بسانے کی ابتدا کی ہے۔ جدید شہر اور پورٹ سٹی سندھی بولنے والوں کے لیے۔ یوں نئے اور پرانے سندھیوں میں توازن پیدا ہوگا۔ یہ کالم نومبر میں ''سندھ تقسیم ہوچکا ہے؟'' کے عنوان سے لکھا گیا تھا۔ یہ دوسری ترکیب ہے سندھ کی تقسیم کو روکنے کی۔ کراچی کو صوبہ بننے سے روکنے کا پہلا داؤ شہر قائد کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینا ہے۔ اگر یہ نہ ہوا تو؟ آئینی، قانونی، دستوری اور انتخابی طور پر کیا ہوسکتا ہے؟ آنے والے عشروں میں کراچی میں کوئی پارٹی اس مسئلے کو لے کر آگے بڑھے گی۔

''جب زبانیں الگ الگ ہوں تو رہائشیں سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں اور سیاسی پسند الگ الگ ہو تو یکجائی کیسی؟'' یہ سوال ہم نے دسمبر میں ''یہ تقسیم سندھ نہیں؟'' کے عنوان سے اٹھایا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ صوبے کی سرکاری زبانیں سندھی، اردو ہیں۔ سندھی بولنے اور نہ بولنے والوں کی رہائش کے درمیان طویل فاصلہ ہے۔ تیسری بات کہی تھی کہ دونوں نصف صدی سے الگ الگ پارٹیوں کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ پھر یہ کیوںکر ایک انتظامی یونٹ میں رہ سکتے ہیں؟ یہ نازک سوال چوتھے کالم میں اٹھایا گیا تھا۔ آج ہم آنے والے عشروں کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ اس کے علاج سے پہلے احتیاطی تدابیر بھی بیان کردیں گے۔ اگر کراچی کے میئر کو پولیس سمیت وسیع پیمانے پر اختیارات نہ دیے گئے تو؟ شہر قائد کی چھوٹی تحصیل تک اس کے کونسلر کو مالی، سیاسی اور انتظامی طور پر خودمختار نہ بنایا گیا تو کیا ہوگا؟ ہم آنے والے دور کا اندازہ کرنے کے لیے ایک صدی قبل کے برصغیر میں جھانکتے ہیں۔

سندھ و بنگال میں ہندو تو پنجاب میں سکھ مسلمانوں کو اسمبلی اور نوکری میں حقوق دینے کو تیار نہ تھے۔ صوبوں کو اختیارات دینے کے بجائے کانگریس مضبوط مرکز کا نعرہ لگاتی تھی۔ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے طاقتور ہوچکے ہیں۔ اگر انھوں نے اپنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ کیے تو کراچی جیسے شہر میں اس کے باسیوں کی پارٹی ابھرے گی۔ اس میں اردو، پنجابی، پشتو، گجراتی، حتیٰ کہ سندھی و بلوچی بولنے والے بھی ہوں گے۔ ان کا واضح مطالبہ سندھ سے کراچی کی علیحدگی ہوگا۔ یہ پر کشش نعرہ ایم کیو ایم بلند کرسکتی ہے یا کوئی اور پارٹی۔ اگر سندھ کے قوم پرستوں اور ان کے حامیوں نے بااختیار کراچی یا با اختیار سندھ کے مسئلے کو دانشمندی سے حل نہ کیا تو لوگوں کو اس سوال کا جلد جواب مل جائے گا کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا؟
Load Next Story