دکھاوے کا دستور
پرویز مشرف کا دور صدارتی اور آصف زرداری کا دور صدارت پارلیمانی نظام تھا
10 اپریل 1973 کو 1970 میں منتخب قومی اسمبلی کے ارکان نے ایک متفقہ دستور پاکستان کے دولخت ہوجانے کے بعد جو منظور کیا تھا، وہ متحدہ پاکستان کے لیے نہیں تھا بلکہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی رہ جانے والے مغربی پاکستان کے لیے تھا اور اس متفقہ 1973 کے دستور کو چوالیس سال گزرچکے ہیں، جس کا یوم پاکستان کے بالا آئینی ادارے سینیٹ کے تحت منایا گیا، جس میں پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے تجویز دی کہ 1973 کے دستور کی تیاری میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا اہم کردار تھا، اس لیے انھیں بابائے دستور قرار دیا جائے۔
سابق وزیراعظم بھٹو نے تمام جماعتوں کو متفق کرکے یہ دستور قومی اسمبلی سے منظور کرایا تھا، جس میں آئین توڑنے کی کڑی سزا بھی مقرر تھی، مگر کچھ عرصے بعد ہی وزیراعظم نے من مانی اور مزید اختیارات کے حصول کے لیے آئین میں اپنی اکثریت سے بعض ترامیم بھی کرا لی تھیں۔ 1973 کے آئین کے تحت جس چوہدری فضل الٰہی کو صدر منتخب کیا گیا تھا، وہ انتہائی بے اختیار تھا، جس کی وجہ سے راولپنڈی کی دیواروں پر کچھ عرصہ بعد ہی لکھا گیا تھا کہ صدر فضل الٰہی کو رہا کرو۔
بااختیار وزیراعظم بھٹو نے قبل از وقت الیکشن کراکر جو بھاری اکثریت حاصل کی تھی، اسے ان ہی رہنماؤں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، جنھوں نے 1973 کا دستور متفقہ بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ آئین توڑنے کی شق چھ کے بعد وزیراعظم کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں اقتدار سے محروم کر دیا جائے گا۔
1973 کے آئین میں ترامیم کی جو ابتدا بھٹو دور میں ہوئی تھی اس میں چوالیس سال میں بے شمار ترامیم ہوئیں جو کبھی کسی آمر نے قومی اسمبلی سے منظور کرائیں تو کبھی منتخب وزیراعظم نے۔ یہ درست ہے کہ آئین صحیفہ آسمانی نہیں کہ اس میں وقت کے مطابق ترمیم نہ ہو۔ 1973 کا آئین ترامیم کے ذریعے مذاق بنا رہا جس میں آمروں نے صدر بننے کے لیے مرضی کی ترمیم کراکر کبھی اسے صدارتی بنا دیا تو کبھی منتخب وزیراعظم نے آئین کو پارلیمانی بنانے کے لیے صدر کو حاصل 58/1B کے اختیارات ختم کرکے خود کو با اختیار بنوالیا۔
1973 کے آئین کو غیر سویلین و سویلین صدور اور منتخب وزیراعظم نے ہمیشہ ملک و قوم کے نام پر ذاتی مفاد ہی کے لیے استعمال کیا۔ ملک میں پارلیمانی نظام کے تحت نواز شریف تین بار اور بے نظیر بھٹو اگرچہ دو بار وزیراعظم رہیں تو ان کی اپنی پارٹیوں کی سربراہی بھی ان ہی کے ہاتھ میں تھی جب کہ پرویز مشرف کی صدارت میں جو دو وزیراعظم اور بعد میں پی پی کے بھی دو وزرائے اعظم بنے وہ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ اپنی پارٹیوں کے سربراہ نہیں تھے اور چاروں اپنے اپنے صدور کے ماتحت تھے اور پارلیمانی نظام کے تحت پارٹی پالیسی پر چلے اور مدت مکمل نہ کرسکے۔
پرویز مشرف کا دور صدارتی اور آصف زرداری کا دور صدارت پارلیمانی نظام تھا اور پارلیمانی دور کے پی پی کے دونوں وزرائے اعظم کرپشن کے کیس بھگت رہے ہیں جب کہ جنرل پرویز دور کے دونوں وزرائے اعظم پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔
1973 کے دستور کے مطابق ملک کے چار صوبے ہیں جب کہ پی پی دور کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت میں پانچ گورنر اور پانچ وزرائے اعلیٰ ملک میں حکومت کررہے ہیں جن کی اسمبلیاں بھی پانچ ہیں جو دستور میں تو موجود نہیں۔ دستور میں ملک میں ڈپٹی وزیراعظم کا کوئی وجود موجود نہیں مگر پی پی کے گزشتہ دور میں پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم رہے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں پی پی اور ن لیگ کے سربراہوں نے وزیراعظم بن کر جمہوری وزیراعظم کا کردار نام کی حد تک ادا کیا اور جمہوریت کے نام پر اپنی آمریت مسلط رکھی۔ نواز شریف اور بے نظیر کے برعکس ملک میں وزیراعظم بھٹو پر آئین پر عمل نہ کرنے کے زیادہ الزامات لگے جو خود 1973 کے دستور کے خالق جانے جاتے ہیں۔
وزیراعظم بھٹو کے دور کی اپوزیشن سب سے کمزور تھی جو اپنے وزیراعظم کو غیر آئینی اقدامات سے نہ روک سکی۔ آئین پر عمل درآمد کے لیے جو مائنڈ سیٹ ملک میں ہونا چاہیے تھا وہ تینوں با اختیار وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میں نہیں تھا۔ تینوں نے خود کو آئین کے تابع رکھنے کے بجائے آئین کو اپنے تابع رکھا، بے نظیر کے برعکس زیڈ اے بھٹو اور نواز شریف کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل تھی جو خود وزیراعظم کے رحم و کرم پر بلکہ تابع تھی اور چلی آرہی ہے۔
پارلیمانی وزرائے اعظم میں کوئی جمہوریت نہیں تھا اور نہ ہی دستور کا پابند سب نے دستور سے بالا رہ کر من مانیاں کیں۔ اپنے مفاد کے لیے دستور کو استعمال کیا اور انھیں ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنے پر ہی دستور یاد آیا اور ان کے نزدیک دستور دکھاوے تک ہی محدود رکھا گیا کسی نے دستور کی بالادستی پر عملی طور پر عمل نہیں کیا۔ دکھاوے کے دستور پر عمل نہ ہونے کی ایک واضح مثال موجودہ حکومت ہے جس نے آئین کے مطابق سینیٹ کو اہمیت نہیں دی، وزیر بھی سینیٹ کو اہمیت نہیں دیتے وہ بھی ایوان بالا میں نہیں آتے جس پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو برہم ہوکر کام بند کرنا پڑا جس کی تائید ن لیگ سمیت تمام سینیٹروں نے کی۔
حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمن کو بھی کہنا پڑا کہ حکومت پارلیمان کو غیر سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ اختیارات نہیں تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ حکومت نے سینیٹ کو غیر متعلقہ کردیا ہے جسے وزرا اہمیت نہیں دیتے اور ہم ایوان بالا کا تقدس برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ حکومت دستوری ذمے داری سے کام نہیں کررہی۔
وزیراعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے مگر وہاں بہت کم آتے ہیں۔ آئینی اداروں کے سربراہوں کے عہدے خالی رہتے ہیں، جس کی کسی کو فکر نہیں۔ آئین کے تحت ملک میں بلدیاتی انتخابات سالوں تک نہیں کرائے جاتے جس پر سپریم کورٹ کو حکم دینا پڑتا ہے۔ اہم سرکاری عہدوں پر تقرریاں نہیں ہوتیں، من پسندوں کو نوازاجاتا ہے تمام حکومتیں دستور کے خلاف وزیر، مشیر، معاونین خصوصی، کوآرڈینیٹرزاور چیئرمینوں کا جمعہ بازار لگائے ہوئے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔
دستور کہنے کی حد تک سپریم اور محض دکھاوے کے لیے ہے۔ ملک میں آئین کی بالادستی نہیں۔ آئین کو پامال کرنے والے جمہوریت کے ٹھیکیدار خود بھی ہیں اور پارلیمنٹ بے بس ہے۔ آئین آنے والی نسلوں کے بنیادی حقوق کا بھی محافظ ہے مگر موجودہ نسل کو ہی کچھ نہیں دے پایا کیونکہ دستور دکھاوے کا ہے اور اس پر آئین کے مطابق عمل ہورہا ہے نہ اس کا حقیقی احترام ہورہا ہے۔