نفلی روزوں کی خصوصی فضیلت

فطرت کے اعتبار سے ہر انسان ترقی پسند ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

KARACHI:
فطرت کے اعتبار سے ہر انسان ترقی پسند ہے۔ وہ اپنی ذات کے لیے اچھائی، بھلائی اور بہتری چاہتا ہے، علمی، عقلی اور مادی لحاظ سے اچھا بن جاتا ہے تو بہتر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ بہترین بن جاتا ہے تو بہترین بننے کی خواہش اور آرزو اس کے دل میں جنم لیتی ہے اور جب تک دل کی حرکت بند نہیں ہوتی اس کی حرکت خوب سے خوب تر کی تلاش میں جاری و ساری رہتی ہے۔

مادی بھلائی ہو یا روحانی اچھائی دونوں محنت کا ثمر ہیں۔ فرض عبادات انسان کو روحانی اعتبار سے اچھا بنادیتی ہیں، واجب بہتر لیکن بہترین بننے کے لیے اسے نفلی عبادات کی راہوں پر چلنا پڑتا ہے۔

حرکت کا نام زندگی اور زندگی کا نام بندگی ہے۔ اﷲ کے حضور اپنی زندگی کو شرمندگی سے بچانے کے لیے انسان بندگی کا سہارا لیتا ہے۔ نوافل کا درجہ فرائض سے کم تر ضرور ہے لیکن انسان کو قرآن کے تصور عبادالرحمن بنانے میں اس کو عام اور ادنیٰ سطح سے خاص اور پھر خاص الخاص اعلیٰ مقامِ انسان، بزبان قرآن ''عبادی'' تک بلند کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔

نفلی روزے انسان کی روحانی ترقی اور اخلاقی بلندی یعنی تصفیہ روح اور تذکیہ نفس کی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ خواہش کمال کو بہ طریق احسن پورا کرتے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں حاصل کردہ روحانی ذخیرہ قوت کو برقرار رکھنے کے لیے گیارہ مہینوں کے دوران وقتاً فوقتاً جہاں تک ممکن ہوسکے نفلی روزوں کا اہتمام ایک حد تک ناگزیر ہے۔ تاکہ النفس و آفاق میں کھوکر انسان، رمضان کے دوران حاصل کردہ روحانی قوت کو ضایع نہ کردے۔ بندگی کا احساس اور عبادت کی عادت ترک نہ ہوجائے۔

احادیث نبویؐ کی روشنی میں سال میں کل مسنون روزے 51 بنتے ہیں، ہر ماہ کے تین روزوں کے حساب سے گیارہ مہینوں کے 33 روزے یکم ذی الحجہ سے نو ذی الحجہ کے 9 روزے عاشورہ سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد کے 2 روزے، پندرہویں شعبان کا ایک روزہ اور شش عید یعنی ماہ شوال کے 6 روزے اس طرح حدیث شریف سے 51 مسنون روزے ثابت ہیں جو انسان کو پورے سال بندگی کی راہ پر سرگرم عمل رکھتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ''ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے''۔

وہ نفلی روزے جن کی حدیث میں خصوصی فضیلت بیان کی گئی ہے مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) یوم عرفہ کا روزہ:ذی الحجہ کی نو تاریخ کو یوم عرفہ کہتے ہیں۔ حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ''عرفہ کے روزہ کے متعلق میں اﷲ تعالیٰ سے امید وار ہوں کہ یہ روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آیندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا''(مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ، نسائی، ترمذی)

اس سے مراد گناہ صغیرہ ہیں۔

آپؐ نے فرمایا:''دنوں میں سے کسی دن کی عبادت اﷲ کو اتنی پسند نہیں ہے جتنی ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے کی۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس عشرہ میں ہر رات کے نوافل کی وہی فضیلت ہے جو شب قدر کے نوافل کی فضیلت ہے''

(2)یوم عاشورہ کا روزہ:یوم عاشورہ محرم الحرام کی دس تاریخ کو کہتے ہیں۔ حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ''عاشورہ کے روزے کے متعلق میں اﷲ تعالیٰ سے امیدوار ہوں کہ ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف کردے گا'' اس سے مراد گناہ صغیرہ ہیں۔


اس دن رسول اکرمؐ اپنا لُعاب مبارک حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو سحری کے وقت چٹادیتے تھے اور اپنی لخت جگر خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے فرماتے تھے ان کو دن بھر کچھ نہ کھلانا کیونکہ آج کے دن وحشی جانور بھی روزہ دار ہوتے ہیں اور کچھ نہیں چرتے۔

یکم محرم الحرام سے 9 محرم الحرام کے روزے مستحب ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اﷲ کے مہینے محرم کے ہیں''

یہود کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے آپؐ نے فرمایا کہ اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو میں انشا اﷲ 9 محرم الحرام کا بھی روزہ رکھوںگا (مسلم، ابوداؤد) لیکن آیندہ سال آنے سے پہلے آپؐ وصال فرماگئے۔

(3) ایامِ بیض کے روزے:ہر مہینے کی 13،14اور 15 تاریخ کو ایام بیض کہتے ہیں۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ''اے ابوذرؓ! جب تم مہینے میں تین روزے رکھنے کا ارادہ کرو تو تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخوں کے روزے رکھ لیا کرو'' (جامع ترمذی)

حضرت قتادہؓ بن نعمان سے روایت ہے کہ نبیؐ ہمیں حکم فرماتے تھے کہ ہم ایامِ بیض یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھا کریں کیونکہ یہ تین روزے رکھنا سال بھر کے روزے رکھنے کے برابر ہے'' (ابو داؤد،نسائی) مزید آپؐ نے فرمایا کہ ''یہ صیام الدھر کی مانند ہے'' (عمدۃ الفقہ کتاب الصوم صفحہ184)

(4)شوال کے چھ روزے:عُرفِ عام میں ان کو شش عید کے روزے بھی کہتے ہیں۔ حدیث میں ان روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:''جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو اس نے گویا ہمیشہ کے روزے رکھے۔ (مسلم، ابوداؤد)

ہمیشہ کے روزے سے مراد ہے سال بھر روزے سے رہا۔فقہا و علما متأخرین کے نزدیک خواہ یہ روزے لگاتار رکھے یا متفرق طور پر، لیکن مستحب یہ ہے کہ ہر عشرے میں دو روزے رکھ لیے جائیں۔

(5) پندرھویں شعبان کے روزہ:آپؐ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ ماہ شعبان میں سوائے ماہ رمضان کے سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔ آپؐ فرماتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے لیکن آپؐ نے امت کی سہولت کی خاطر فرمایا کہ جب شعبان کا آدھا مہینہ گزر جائے تو روزے نہ رکھو (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ''ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ کو شب بیداری کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو'' (ابن ماجہ)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تین روزے شعبان کی ابتدا میں تین روزے درمیان میں اور تین روزے شعبان کے آخر میں رکھے گا اﷲ تعالیٰ اس کے لیے 70 پیغمبروں کا اجر عطا فرمائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے تمام سال اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی ہے اور اگر وہ مرجائے گا تو شہادت کا درجہ پائے گا''۔
Load Next Story