حقیقی ووٹر عوام یا…
ہماری قوم بے حسی کی چادر اوڑھے اپنی نیند پوری کر رہی ہے
یہ بات خاصی مشہور ہوچکی ہے کہ ہماری قوم بے حسی کی چادر اوڑھے اپنی نیند پوری کر رہی ہے۔ مگر جن کی نیند مختلف وجوہات کی بنا پر اڑ گئی ہے (ان میں اکثریت عوام کی نہیں خواص کی ہے) وہ اپنے جاگنے کا ثبوت ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اگر زندہ دلی و بیداری کا ثبوت دینا ہو تو ایسے ایسے معاملات جو بظاہر سیدھے سادھے ہوں، بلکہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو ان پر ہر کوئی اپنی اپنی فی البدیہہ غزل شروع کردیتا ہے۔ بس چھوٹی چھوٹی دو مثالیں پیش ہیں۔ ہمارے یہاں مدت ملازمت کے اختتام پر ہر شخص، ہر پارٹی، ہر ادارہ، ہر دانشور اپنی اپنی رائے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ان کے علاوہ اور کوئی ملک کا خیرخواہ نہیں اور جو کچھ وہ فرما رہے ہیں وہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔
ایک صاحب جو کئی عوارض کے شکار تھے وہ صاحب سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینے پر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ اس صاحب نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔ پوری قوم اس صاحب کو فیصلہ بدلنے پر اصرار کرتی رہی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انھوں نے ان بھوک ہڑتالی صاحب سے ایک بار بھی اپیل نہ کی کہ آپ بھوک ہڑتال ختم کردیں میں فیصلہ کرچکا ہوں اور یہ اٹل ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی جان سے گئے اور وہ صاحب اپنے عہدے سے۔
دوسری مثال ہے پاناما کیس کے فیصلے کی۔ حکومتی پارٹی ایک طویل غزل مسلسل پیش کرتی رہی اور حزب مخالف کی مختلف پارٹیاں اپنی اپنی غزلیں، نظمیں آزاد یا پابند، بلکہ نثری نظمیں زیادہ تعداد میں الگ الاپتی رہیں۔ ہر کالم نگار، ہر دانشور، نیند سے انگڑائی لیتا ہوا، ہر شہری اپنے اپنے موقف کا برملا اظہار کرتا رہا۔ یوں ایسی فضا تیار ہوگئی کہ جس میں حکومت یا کم ازکم وزارت عظمیٰ چند گھنٹوں کی مہمان نظر آنے لگے اور یوں لگنے لگا کہ کرسی وزارت عظمیٰ پر فلاں فلاں براجمان ہونے والا ہے۔
ہم جو اپنا اظہاریہ زیادہ سے زیادہ جمعرات صبح گیارہ بجے تک اخبار کو روانہ کردیتے ہیں، جب اپنا اظہاریہ لکھ چکے تو اچانک خیال آیا کہ کل تو پانامہ کا فیصلہ آنا ہے اور وہ بھی دن میں میں دو بجے۔ اب چاہے ہم رات کو لکھیں یا صبح فیصلہ تو بہرحال ہمارے کالم بھیجنے کے مقررہ وقت تک نہیں آئے گا۔ لہٰذا ہم نے جلدی جلدی ایک سدا بہار موضوع پر نیا اظہاریہ لکھ کر روانہ کردیا جس میں ذرا سا ٹچ متوقع عدالتی فیصلے کا بھی دے دیا تاکہ ہمیں بھی دانشوروں میں شمار کرلیا جائے، ''اے بسا آرزو کہ خاک شدی''۔
خیر ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی ہمیں سوائے مجبوری کے کبھی فرصت ہوتی ہی نہیں، لہٰذا جمعرات اپنے کام کے دوران بار بار میاں جی سے پوچھتے رہے کہ کیا فیصلہ آیا؟ ایک بار جواب ملا فیصلہ آگیا، مگر آیا نہیں۔ ایں یہ کیا بات ہوئی؟ کہ آیا بھی اور نہیں بھی آیا۔ بہرحال اب ایک ہفتہ گزر چکا ہے، جہاں فیصلہ دو ماہ سے زیادہ عرصے محفوظ رہا تھا، جو صورتحال اس وقت تھی اب فیصلہ آنے کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں بلکہ 2013 کے انتخابات سے جو چلی آرہی ہے، وہی ہے۔ جو ان انتخابات کے بعد سے ''گو نواز گو'' کے نعرے لگا رہے ہیں، وہ یہ مشق جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکومتی حامی ''کسی کے باپ کی مجال نہیں کہ وہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لے سکے'' فیصلہ ہمارے حق میں آگیا ہے لہٰذا سب مل کر مٹھائی کھاؤ۔ وزیراعظم کا کار وزارت مسلسل انجام دینا اس فتح کا ثبوت ہے۔ عدلیہ نے انھیں کام کرنے سے تو نہیں روکا، وہ ملک کو ہر حال میں ترقی یافتہ بناکر ہی اس کی جان چھوڑیں گے۔
شاید یہ واحد فیصلہ ہے جس کے نتیجے پر حکمراں جماعت اور مخالفین دونوں جانب مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں اور مبارکبادیں پیش کی جا رہی ہیں، یعنی ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، ان کے فیصلے سے سب مسرور ہوئے، والی صورت پیدا ہوگئی ہے، یعنی ہر کوئی اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہے۔
ایک جانب وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب ارشاد ہو رہا ہے کہ ''کیوں دیں وہ استعفیٰ، آخر انھوں نے کیا ہی کیا ہے؟'' وزیراعظم کے حامی کہتے ہیں کہ ان کا دامن بے داغ ہے، وہ مسلسل قوم کی خدمت اور ملک کی خوشحالی کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ایک وزیر مملکت نے فرمایا کہ کسی کی قسمت میں اگر رونا ہی لکھا ہے تو وہ روتا رہے، وزیراعظم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
پاناما کیس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے جب کہ کچھ کی نظر میں نقصان، وہ یوں کہ پی پی پی کے تن مردہ میں ایک بار پھر زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ اب چاہے یہ وینٹی لیٹر پر رہے یا باقاعدہ پوری توانائی سے مکمل طور پر زندہ ہوکر میدان عمل بلکہ سیاست میں کھڑی ہوجائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو پہلے اقتدار میں رہ کر بدترین بدعنوانی کے مرتکب قرار دیے جاتے ہیں، وہ بھی موجودہ حکمرانوں سے بدعنوانی اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا حساب مانگ رہے ہیں۔
جواب آں غزل کے طور پر ٹولی ان کے اگلے پچھلے تمام کارنامے سنا سنا کر ان کی بدعنوانی کا حساب بے باک کرنا چاہتی ہیں۔ جو بقول ان کے بدترین و سنگین بدعنوانی تھی اور ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ساتھ ہی یہ دعوے بھی کہ اگلا وزیر اعظم ہمارا ہوگا نہ ہوگا ''بلکہ بناکر دکھاؤں گا''۔ موجودہ حکمرانوں کا عزم صمیم یہ کہ آیندہ بھی ہم ہی آئیں گے۔ اس الزام در الزام کے درمیان کوئی بے چارے خان صاحب کی قلبی و ذہنی کیفیت پر ذرا غور نہیں کر رہا کہ کوئی جائے نہ جائے، کوئی اقتدار چھوڑے نہ چھوڑے وہ تو اپنے خیال میں ملک کے منتخب و ہر دلعزیز وزیراعظم ہیں ہی۔
یہ سب اپنی جگہ مگر متوشش شہری پھٹی پھٹی آنکھوں سے ملک کے سیاسی اکھاڑے کی طرف دیکھ رہے ہیں، دم بے خود کہ ووٹر تو ہم ہیں، فیصلہ ہمیں کرنا ہے مگر یہ سیاستدان، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں آخر قبل ازوقت اپنی اپنی حکومت بنانے کے دعوے آخر کیوں اور کیسے کر رہے ہیں؟ بے وقوف کہیں کے، آخر ہیں نا ''عوام'' ان کی سمجھ میں 70 برس سے یہ بات نہیں آئی کہ جب انھوں نے جس کو مسند اقتدار پر بٹھانا چاہا تو کیا ایسا ہوسکا؟ کیا کراچی سے خیبر تک عوام نے محترمہ فاطمہ جناح کو منتخب نہیں کیا تھا؟ مگر کیا ہوا۔ کیا ملکی عوام نے مجیب الرحمن کی پارٹی کو اکثریت سے کامیاب نہیں کیا تھا؟ تو کیا اسے حکومت بنانے دی گئی؟ اس کے برعکس انھیں اجنبی قرار دے کر الگ کردیا گیا بقول فیض صاحب ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد'' ملک دو لخت ہوگیا مگر جو عوام نے چاہا وہ نہ ہوسکا۔
اب عوام چاہے کچھ بھی سوچ رہے ہوں کچھ بھی چاہ رہے ہوں، مگر جن کے مسند اقتدار کا نشہ لگ چکا ہو وہ بھلا کب عوامی امنگوں پر دھیان دیتے ہیں۔ ان کا معاملہ تو کچھ یوں ہے کہ ''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''۔ مگر مشکل یہ ہے کہ آئین میں دو تین وزرائے اعظم کی کوئی گنجائش نہیں (اگر ہوتی تو شاید جھگڑے کم اور وزیر اعظم زیادہ ہوسکتے تھے) اور کوئی بھی اس عہدہ جلیلہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ تو اب ہو کیا؟ چھوڑئیے یہ ہمارا درد سر نہیں، وہ خود آپس میں سر پھوڑ کر جو فیصلہ کرلیں گے وہ ہم سب کو قبول کرنا ہوگا، کیونکہ ہم عوام اور حقیقی ووٹر جو ہوئے۔
اگر زندہ دلی و بیداری کا ثبوت دینا ہو تو ایسے ایسے معاملات جو بظاہر سیدھے سادھے ہوں، بلکہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو ان پر ہر کوئی اپنی اپنی فی البدیہہ غزل شروع کردیتا ہے۔ بس چھوٹی چھوٹی دو مثالیں پیش ہیں۔ ہمارے یہاں مدت ملازمت کے اختتام پر ہر شخص، ہر پارٹی، ہر ادارہ، ہر دانشور اپنی اپنی رائے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ان کے علاوہ اور کوئی ملک کا خیرخواہ نہیں اور جو کچھ وہ فرما رہے ہیں وہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔
ایک صاحب جو کئی عوارض کے شکار تھے وہ صاحب سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینے پر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ اس صاحب نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔ پوری قوم اس صاحب کو فیصلہ بدلنے پر اصرار کرتی رہی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انھوں نے ان بھوک ہڑتالی صاحب سے ایک بار بھی اپیل نہ کی کہ آپ بھوک ہڑتال ختم کردیں میں فیصلہ کرچکا ہوں اور یہ اٹل ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی جان سے گئے اور وہ صاحب اپنے عہدے سے۔
دوسری مثال ہے پاناما کیس کے فیصلے کی۔ حکومتی پارٹی ایک طویل غزل مسلسل پیش کرتی رہی اور حزب مخالف کی مختلف پارٹیاں اپنی اپنی غزلیں، نظمیں آزاد یا پابند، بلکہ نثری نظمیں زیادہ تعداد میں الگ الاپتی رہیں۔ ہر کالم نگار، ہر دانشور، نیند سے انگڑائی لیتا ہوا، ہر شہری اپنے اپنے موقف کا برملا اظہار کرتا رہا۔ یوں ایسی فضا تیار ہوگئی کہ جس میں حکومت یا کم ازکم وزارت عظمیٰ چند گھنٹوں کی مہمان نظر آنے لگے اور یوں لگنے لگا کہ کرسی وزارت عظمیٰ پر فلاں فلاں براجمان ہونے والا ہے۔
ہم جو اپنا اظہاریہ زیادہ سے زیادہ جمعرات صبح گیارہ بجے تک اخبار کو روانہ کردیتے ہیں، جب اپنا اظہاریہ لکھ چکے تو اچانک خیال آیا کہ کل تو پانامہ کا فیصلہ آنا ہے اور وہ بھی دن میں میں دو بجے۔ اب چاہے ہم رات کو لکھیں یا صبح فیصلہ تو بہرحال ہمارے کالم بھیجنے کے مقررہ وقت تک نہیں آئے گا۔ لہٰذا ہم نے جلدی جلدی ایک سدا بہار موضوع پر نیا اظہاریہ لکھ کر روانہ کردیا جس میں ذرا سا ٹچ متوقع عدالتی فیصلے کا بھی دے دیا تاکہ ہمیں بھی دانشوروں میں شمار کرلیا جائے، ''اے بسا آرزو کہ خاک شدی''۔
خیر ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی ہمیں سوائے مجبوری کے کبھی فرصت ہوتی ہی نہیں، لہٰذا جمعرات اپنے کام کے دوران بار بار میاں جی سے پوچھتے رہے کہ کیا فیصلہ آیا؟ ایک بار جواب ملا فیصلہ آگیا، مگر آیا نہیں۔ ایں یہ کیا بات ہوئی؟ کہ آیا بھی اور نہیں بھی آیا۔ بہرحال اب ایک ہفتہ گزر چکا ہے، جہاں فیصلہ دو ماہ سے زیادہ عرصے محفوظ رہا تھا، جو صورتحال اس وقت تھی اب فیصلہ آنے کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں بلکہ 2013 کے انتخابات سے جو چلی آرہی ہے، وہی ہے۔ جو ان انتخابات کے بعد سے ''گو نواز گو'' کے نعرے لگا رہے ہیں، وہ یہ مشق جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکومتی حامی ''کسی کے باپ کی مجال نہیں کہ وہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لے سکے'' فیصلہ ہمارے حق میں آگیا ہے لہٰذا سب مل کر مٹھائی کھاؤ۔ وزیراعظم کا کار وزارت مسلسل انجام دینا اس فتح کا ثبوت ہے۔ عدلیہ نے انھیں کام کرنے سے تو نہیں روکا، وہ ملک کو ہر حال میں ترقی یافتہ بناکر ہی اس کی جان چھوڑیں گے۔
شاید یہ واحد فیصلہ ہے جس کے نتیجے پر حکمراں جماعت اور مخالفین دونوں جانب مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں اور مبارکبادیں پیش کی جا رہی ہیں، یعنی ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، ان کے فیصلے سے سب مسرور ہوئے، والی صورت پیدا ہوگئی ہے، یعنی ہر کوئی اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہے۔
ایک جانب وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب ارشاد ہو رہا ہے کہ ''کیوں دیں وہ استعفیٰ، آخر انھوں نے کیا ہی کیا ہے؟'' وزیراعظم کے حامی کہتے ہیں کہ ان کا دامن بے داغ ہے، وہ مسلسل قوم کی خدمت اور ملک کی خوشحالی کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ایک وزیر مملکت نے فرمایا کہ کسی کی قسمت میں اگر رونا ہی لکھا ہے تو وہ روتا رہے، وزیراعظم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
پاناما کیس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے جب کہ کچھ کی نظر میں نقصان، وہ یوں کہ پی پی پی کے تن مردہ میں ایک بار پھر زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ اب چاہے یہ وینٹی لیٹر پر رہے یا باقاعدہ پوری توانائی سے مکمل طور پر زندہ ہوکر میدان عمل بلکہ سیاست میں کھڑی ہوجائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو پہلے اقتدار میں رہ کر بدترین بدعنوانی کے مرتکب قرار دیے جاتے ہیں، وہ بھی موجودہ حکمرانوں سے بدعنوانی اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا حساب مانگ رہے ہیں۔
جواب آں غزل کے طور پر ٹولی ان کے اگلے پچھلے تمام کارنامے سنا سنا کر ان کی بدعنوانی کا حساب بے باک کرنا چاہتی ہیں۔ جو بقول ان کے بدترین و سنگین بدعنوانی تھی اور ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ساتھ ہی یہ دعوے بھی کہ اگلا وزیر اعظم ہمارا ہوگا نہ ہوگا ''بلکہ بناکر دکھاؤں گا''۔ موجودہ حکمرانوں کا عزم صمیم یہ کہ آیندہ بھی ہم ہی آئیں گے۔ اس الزام در الزام کے درمیان کوئی بے چارے خان صاحب کی قلبی و ذہنی کیفیت پر ذرا غور نہیں کر رہا کہ کوئی جائے نہ جائے، کوئی اقتدار چھوڑے نہ چھوڑے وہ تو اپنے خیال میں ملک کے منتخب و ہر دلعزیز وزیراعظم ہیں ہی۔
یہ سب اپنی جگہ مگر متوشش شہری پھٹی پھٹی آنکھوں سے ملک کے سیاسی اکھاڑے کی طرف دیکھ رہے ہیں، دم بے خود کہ ووٹر تو ہم ہیں، فیصلہ ہمیں کرنا ہے مگر یہ سیاستدان، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں آخر قبل ازوقت اپنی اپنی حکومت بنانے کے دعوے آخر کیوں اور کیسے کر رہے ہیں؟ بے وقوف کہیں کے، آخر ہیں نا ''عوام'' ان کی سمجھ میں 70 برس سے یہ بات نہیں آئی کہ جب انھوں نے جس کو مسند اقتدار پر بٹھانا چاہا تو کیا ایسا ہوسکا؟ کیا کراچی سے خیبر تک عوام نے محترمہ فاطمہ جناح کو منتخب نہیں کیا تھا؟ مگر کیا ہوا۔ کیا ملکی عوام نے مجیب الرحمن کی پارٹی کو اکثریت سے کامیاب نہیں کیا تھا؟ تو کیا اسے حکومت بنانے دی گئی؟ اس کے برعکس انھیں اجنبی قرار دے کر الگ کردیا گیا بقول فیض صاحب ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد'' ملک دو لخت ہوگیا مگر جو عوام نے چاہا وہ نہ ہوسکا۔
اب عوام چاہے کچھ بھی سوچ رہے ہوں کچھ بھی چاہ رہے ہوں، مگر جن کے مسند اقتدار کا نشہ لگ چکا ہو وہ بھلا کب عوامی امنگوں پر دھیان دیتے ہیں۔ ان کا معاملہ تو کچھ یوں ہے کہ ''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''۔ مگر مشکل یہ ہے کہ آئین میں دو تین وزرائے اعظم کی کوئی گنجائش نہیں (اگر ہوتی تو شاید جھگڑے کم اور وزیر اعظم زیادہ ہوسکتے تھے) اور کوئی بھی اس عہدہ جلیلہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ تو اب ہو کیا؟ چھوڑئیے یہ ہمارا درد سر نہیں، وہ خود آپس میں سر پھوڑ کر جو فیصلہ کرلیں گے وہ ہم سب کو قبول کرنا ہوگا، کیونکہ ہم عوام اور حقیقی ووٹر جو ہوئے۔