ہمسایوں کے حقوق
پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑجاتا ہے جس طرح عبادات ترک کرنے سے۔
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس نے ہمیں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔
حقوق العباد میں ہمسایوں کے حقوق کا قرآن و حدیث میں بار بار ذکر آیا ہے۔ مالک کائنات ہمسایوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : '' اور اﷲ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور حسن سلوک سے پیش آؤ والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی، نیز آس پاس کے بیٹھنے والے مسافروں کے ساتھ اور جو ( لونڈی یا غلام یا ملازم ) تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ۔ اﷲ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں۔'' ( النساء)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا، کون۔۔۔ ؟ آپؐ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو۔''
سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جبرائیل امینؑ مجھے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے۔''
آج کے دور میں ہم پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتے، بل کہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضا ہی نہیں۔ اکثر لوگ عبادات نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کو ہی بس دین اسلام سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اگر اخلاقیات بالخصوص پڑوسی کے حقوق پر احادیث نبویؐ کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑجاتا ہے جس طرح عبادات ترک کرنے سے۔ پڑوسی سے مراد آس پاس کے مکان، دکان، فلیٹ یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں، البتہ پڑوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی وجہ سے ہم نشینی کا سبب بن جاتی ہے۔
اگر ہم سورۃ النساء کو سامنے رکھیں تو ترتیب کچھ یوں بن جاتی ہے۔ رشتے دار پڑوسی، یہ وہ ہمسائے ہیں جو رشتے دار بھی ہیں ان کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے۔ اجنبی پڑوسی، اس سے مراد وہ ہمسایہ ہے جو رشتے دار نہیں ہے، صرف ہمسایہ ہے اس کا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔ ہم نشین یا پہلو کا ساتھی، یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو، اس اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ، دفتر، فیکٹری یا کسی تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے طلباء دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور احسان کے عربی میں معنی بہت وسیع ہیں۔ احسان کے ایک معنی کسی کو اس کے جائز حق سے زاید دینا بھی ہے۔ چناں چہ معلوم ہوا کہ اﷲ نے قرآن حکیم میں حقوق کی ادائی سے ایک قدم آگے جاکر ہمسایوں کی ساتھ احسان، بھلائی، خیر خواہی اور اچھے تعلق کی ہدایت فرمائی ہے۔
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : '' اے ابوذر ؓ جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربے کو زیادہ کرکے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے۔''
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں ؟ آپؐ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تیرے سے زیادہ قریب ہو۔
مدد کی کئی صورتیں ہیں، جیسے تنگ دستی میں ممکنہ مالی مدد کرنا، بیماری میں خیریت دریافت کرنا، معذوری یا لاچاری میں سواری کا انتظام کردینا، دکھ درد بانٹنا، راز کی حفاظت اور پردہ پوشی، بچوں سے حسن سلوک کرنا، لیکن ان سب کے لیے نیک نیتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہ ہوگا جب تک اسے یہ پسند نہ ہو کہ وہ اپنے لیے جو پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی یا پڑوسی کے لیے پسند کرے۔
حقوق العباد میں ہمسایوں کے حقوق کا قرآن و حدیث میں بار بار ذکر آیا ہے۔ مالک کائنات ہمسایوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : '' اور اﷲ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور حسن سلوک سے پیش آؤ والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی، نیز آس پاس کے بیٹھنے والے مسافروں کے ساتھ اور جو ( لونڈی یا غلام یا ملازم ) تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ۔ اﷲ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں۔'' ( النساء)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا، کون۔۔۔ ؟ آپؐ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو۔''
سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جبرائیل امینؑ مجھے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے۔''
آج کے دور میں ہم پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتے، بل کہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضا ہی نہیں۔ اکثر لوگ عبادات نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کو ہی بس دین اسلام سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اگر اخلاقیات بالخصوص پڑوسی کے حقوق پر احادیث نبویؐ کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑجاتا ہے جس طرح عبادات ترک کرنے سے۔ پڑوسی سے مراد آس پاس کے مکان، دکان، فلیٹ یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں، البتہ پڑوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی وجہ سے ہم نشینی کا سبب بن جاتی ہے۔
اگر ہم سورۃ النساء کو سامنے رکھیں تو ترتیب کچھ یوں بن جاتی ہے۔ رشتے دار پڑوسی، یہ وہ ہمسائے ہیں جو رشتے دار بھی ہیں ان کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے۔ اجنبی پڑوسی، اس سے مراد وہ ہمسایہ ہے جو رشتے دار نہیں ہے، صرف ہمسایہ ہے اس کا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔ ہم نشین یا پہلو کا ساتھی، یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو، اس اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ، دفتر، فیکٹری یا کسی تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے طلباء دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور احسان کے عربی میں معنی بہت وسیع ہیں۔ احسان کے ایک معنی کسی کو اس کے جائز حق سے زاید دینا بھی ہے۔ چناں چہ معلوم ہوا کہ اﷲ نے قرآن حکیم میں حقوق کی ادائی سے ایک قدم آگے جاکر ہمسایوں کی ساتھ احسان، بھلائی، خیر خواہی اور اچھے تعلق کی ہدایت فرمائی ہے۔
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : '' اے ابوذر ؓ جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربے کو زیادہ کرکے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے۔''
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں ؟ آپؐ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تیرے سے زیادہ قریب ہو۔
مدد کی کئی صورتیں ہیں، جیسے تنگ دستی میں ممکنہ مالی مدد کرنا، بیماری میں خیریت دریافت کرنا، معذوری یا لاچاری میں سواری کا انتظام کردینا، دکھ درد بانٹنا، راز کی حفاظت اور پردہ پوشی، بچوں سے حسن سلوک کرنا، لیکن ان سب کے لیے نیک نیتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہ ہوگا جب تک اسے یہ پسند نہ ہو کہ وہ اپنے لیے جو پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی یا پڑوسی کے لیے پسند کرے۔