رقوم لینے اور دینے والوں کے نام خفیہ رکھے جائیں اسد درانی
ہمیںسیاست میںشفافیت لاناہے،ضروری ہے تمام حقائق ہمارے سامنے ہوں، نام خفیہ رکھنے کی درخواست واپس
سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کے قیام سے متعلق نوٹیفکیشن پیش نہ کیاجاسکا عدالت نے سیکریٹری دفاع کو حکم دیا ہے کہ سیل کے قیام کے بارے میں اگرکوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔
جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسددرانی نے رقومات حاصل کرنے والے سیاستدانوں اوررقم تقسیم کرنے والے افرادکے نام سر بمہر لفافہ میںعدالت میں پیش کردیے اورعدالت سے استدعا کی کہ اس مواد کوخفیہ رکھا جائے ،عدالت نے رقوم تقسیم کرنے والے اہلکاروں کے نام خفیہ رکھنے سے متعلق ان کی متفرق درخواست واپس کردی۔ پیرکو چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے اصغرخان کیس کی سماعت کی ،
اس دوران لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی نے سربمہر لفافے میں رقم حاصل کرنے والوں کے علاوہ ان لوگوں کے نام بھی پیش کیے جن کے ذریعے رقم تقسیم ہوئی اور عدالت سے استدعا کی ، ان ناموںکو پڑھنے کے بعد خفیہ رکھاجائے، چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ سادے کاغذ پر لکھے گئے ناموںکے علاوہ اورکونسی دستاویزات ہیں، اسد درانی نے کہا کہ ان کے پاس اورکوئی ثبوت موجود نہیں،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس صاف گوئی پر داد دیتی ہے،
عدالتوں میں سیدھی بات ہونی چا ہیے ،اس طرح قومیں مضبوط ہوتی ہیں لیکن اگر اس مواد کو استعمال نہیںکیا جائے گا تو فیصلے تک نہیں پہنچاجاسکتا ، اسد درانی نے کہاکہ اگر مذکورہ لوگ مکرگئے تو ثابت کرنا مشکل ہو گا کیونکہ رسیدکسی سے نہیں لی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیںسیا ست میںشفافیت لاناہے ،کھینچا تانی کواب ختم ہو ناچاہیے ،اس کیلیے ضروری ہے کہ تمام حقائق ہمارے سامنے ہو،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو بدنام نہیں کرناچاہتے ،
اگر ایک بار پگڑی اچھل جائے اورالزام ثابت نہ ہو تو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیںکیا جا سکے گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں چیزوں کوخفیہ رکھنے کے حق میں نہیں،اٹارنی جنرل نے بھی وہی مواد سر بمہر لفافے میں پیش کیا اور کہاکہ انھوں نے اس کا جائزہ لیاہے،ان کی رائے میں اس کوخفیہ رکھناچاہیے ۔آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کی تشکیل کا نو ٹیفکیشن پیش نہ کرنے پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ابھی تک ایک نوٹیفکیشن نہیںملا،پتہ نہیں ملک کوکیسے چلایاجا رہا ہے ،
اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 1975میں ایک اجلاس میں سیل کی تشکیل کا اصولی فیصلہ ہو اتھا ، باقاعدہ نو ٹفکیشن نہیں ہوا ،آن لائن کے مطابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ نوٹیفکیشن کی تلاش جاری ہے ،آج سیکریٹری دفاع نے چارج سنبھال لیا ہے اور کل اس حوالے سے کوئی پیشرفت سامنے آئے گی،
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ایک مرتبہ پھر ہدایت کی ہے کہ تمام تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں، بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع کو حکم دیا ہے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کے قیام کے بارے میں اگرکوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے، عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دستاویزات سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل 1975ء میں روایتی ضابطہ کار کے تحت قائم کیا گیا تھا ،
عدالت نے اسد درانی کی طرف سے سیاستدانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کرنے والے ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے نام خفیہ رکھنے کی استدعا پر مبنی ان کی متفرق درخواست انھیں واپس لوٹادی، لیفٹیننٹ جنرل(ر)اسد درانی کی متفرق درخواست یہ کہہ قابل سماعت قرار دینے سے انکار کردیا کہ اس کیساتھ وضاحتی دستاویزات موجود نہیں ہیں، بعدازاں عدالت نے مزید سماعت چار ہفتے کیلیے ملتوی کرکے اٹارنی جنرل کی طرف سے پیش کیا گیا مواد رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرنیکی ہدایت کی جبکہ اسددرانی کو تمام موادواپس کر دیا گیا۔
جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسددرانی نے رقومات حاصل کرنے والے سیاستدانوں اوررقم تقسیم کرنے والے افرادکے نام سر بمہر لفافہ میںعدالت میں پیش کردیے اورعدالت سے استدعا کی کہ اس مواد کوخفیہ رکھا جائے ،عدالت نے رقوم تقسیم کرنے والے اہلکاروں کے نام خفیہ رکھنے سے متعلق ان کی متفرق درخواست واپس کردی۔ پیرکو چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے اصغرخان کیس کی سماعت کی ،
اس دوران لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی نے سربمہر لفافے میں رقم حاصل کرنے والوں کے علاوہ ان لوگوں کے نام بھی پیش کیے جن کے ذریعے رقم تقسیم ہوئی اور عدالت سے استدعا کی ، ان ناموںکو پڑھنے کے بعد خفیہ رکھاجائے، چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ سادے کاغذ پر لکھے گئے ناموںکے علاوہ اورکونسی دستاویزات ہیں، اسد درانی نے کہا کہ ان کے پاس اورکوئی ثبوت موجود نہیں،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس صاف گوئی پر داد دیتی ہے،
عدالتوں میں سیدھی بات ہونی چا ہیے ،اس طرح قومیں مضبوط ہوتی ہیں لیکن اگر اس مواد کو استعمال نہیںکیا جائے گا تو فیصلے تک نہیں پہنچاجاسکتا ، اسد درانی نے کہاکہ اگر مذکورہ لوگ مکرگئے تو ثابت کرنا مشکل ہو گا کیونکہ رسیدکسی سے نہیں لی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیںسیا ست میںشفافیت لاناہے ،کھینچا تانی کواب ختم ہو ناچاہیے ،اس کیلیے ضروری ہے کہ تمام حقائق ہمارے سامنے ہو،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو بدنام نہیں کرناچاہتے ،
اگر ایک بار پگڑی اچھل جائے اورالزام ثابت نہ ہو تو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیںکیا جا سکے گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں چیزوں کوخفیہ رکھنے کے حق میں نہیں،اٹارنی جنرل نے بھی وہی مواد سر بمہر لفافے میں پیش کیا اور کہاکہ انھوں نے اس کا جائزہ لیاہے،ان کی رائے میں اس کوخفیہ رکھناچاہیے ۔آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کی تشکیل کا نو ٹیفکیشن پیش نہ کرنے پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ابھی تک ایک نوٹیفکیشن نہیںملا،پتہ نہیں ملک کوکیسے چلایاجا رہا ہے ،
اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 1975میں ایک اجلاس میں سیل کی تشکیل کا اصولی فیصلہ ہو اتھا ، باقاعدہ نو ٹفکیشن نہیں ہوا ،آن لائن کے مطابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ نوٹیفکیشن کی تلاش جاری ہے ،آج سیکریٹری دفاع نے چارج سنبھال لیا ہے اور کل اس حوالے سے کوئی پیشرفت سامنے آئے گی،
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ایک مرتبہ پھر ہدایت کی ہے کہ تمام تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں، بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع کو حکم دیا ہے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کے قیام کے بارے میں اگرکوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے، عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دستاویزات سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل 1975ء میں روایتی ضابطہ کار کے تحت قائم کیا گیا تھا ،
عدالت نے اسد درانی کی طرف سے سیاستدانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کرنے والے ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے نام خفیہ رکھنے کی استدعا پر مبنی ان کی متفرق درخواست انھیں واپس لوٹادی، لیفٹیننٹ جنرل(ر)اسد درانی کی متفرق درخواست یہ کہہ قابل سماعت قرار دینے سے انکار کردیا کہ اس کیساتھ وضاحتی دستاویزات موجود نہیں ہیں، بعدازاں عدالت نے مزید سماعت چار ہفتے کیلیے ملتوی کرکے اٹارنی جنرل کی طرف سے پیش کیا گیا مواد رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرنیکی ہدایت کی جبکہ اسددرانی کو تمام موادواپس کر دیا گیا۔