قانون توہین عدالت کیس کا انجام جو بھی ہو جمہوریت مضبوط ہوگی چیف جسٹس

حق میں فیصلہ ہو تو جج اچھے، خلاف ہو تو دشمن سمجھا جاتا ہے، مجسٹریٹ کا حکم ماننا بھی ہر عہدیدار پر لازم ہے

مجسٹریٹ کا حکم ماننا بھی ہر عہدیدار پر لازم ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کشمکش نہ ہوتو فکر کی بات ہوگی، ریمارکس فوٹو/ایکسپریس

سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی جس کے دوران پاکستان بارکونسل نے نئے قانون کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم کرنے کی استدعا کی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کیس کا انجام جو بھی ہو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔ مجسٹریٹ سے لے کرسپریم کورٹ تک ہر عدالت کے حکم پر عمل کرنا بڑے سے بڑے عہدیدار پر بھی لازم ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل لطیف آفریدی نے موقف اختیار کیاکہ یہ تاثر زائل ہونا چاہیے کہ عدالت پارلیمنٹ کی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کی طرف سے قانون کالعدم قراردینے کی استدعا اہم ہے، پہلے یہاں مارشل لاء کا ڈنڈا رہتا تھا اب پارلیمنٹ کے حوالے سے ہر جگہ بحث ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں قانون پر بحث صحت مند علامت ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ ملک کے 18کروڑ عوام کیلیے ہیں۔ حکم کی نافرمانی کرنے والے عام اور بڑے آدمی میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس جوادخواجہ نے ریمارکس دیے کہ اخبار پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کیخلاف عدالت میں کوئی کارروائی ہورہی ہے، حقیقت میں ایسا نہیں۔ عدالتی کارروائی کی طرح پارلیمانی کارروائی کو بھی تحفظ ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ توہین عدالت کے قانون کی سمجھ سپریم کورٹ کو ہے، آئین کو ٹھیک پڑھا جائے تو توہین عدالت کا قانون انوکھا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس کے حق میں فیصلہ ہو ججز اس کے لیے اچھے ہیں اور ہر وہ شخص عدل کا دشمن ہے جس کے حق میں فیصلہ نہ ہو۔

اے پی پی کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آخری خطبے میں رسول کریم نے کہا تھا کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے ، پارلیمنٹ ، عدالت عظمی ، سول سوسائٹی اور میڈیا میں بحث صحتمندانہ اقدام ہے،کیس کا جو بھی انجام ہو'ملک میں جمہوری نظام چلتا رہے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیںہورہی، ہم سب ایک ہیں، ایسے معاملات میں کوئی کسی کا مخالف نہیں ہوتا۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہا اگر توہین عدالت قانون کو کالعدم کر دیا جاتا ہے تو یہ پہلی بار نہیں ہو گا۔


پاکستان ،انڈیا اور بنگلہ دیش کی عدالتیں اس سے پہلے بھی قوانین کالعدم کرچکی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ سرد نہیں بلکہ گرم جنگ ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کشمکش نہ ہو تو یہ فکر مندی کی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس بحث سے آگاہی پیدا ہوتی ہے اس بحث کے باعث آج لوگ آئینی امور پر بات کرتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل نے بتایا کہ اتر پردیش کی ہائی کورٹ نے ججوں کے خلاف اسمبلی قرارداد کو توہین عدالت قرار دیا تھا۔

موجودہ صورتحال میں سپریم کورٹ کو طبیب کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ شاہد اورکزئی نے بتایا کہ وفاقی حکومت کو توہین عدالت کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار نہیں۔ محمد احمد بھٹی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ توہین عدالت کا نیا قانون عدلیہ کی آزادی کے لیے موت ہے ۔ قانون کو جزیات میں تقسیم کرکے پیچیدہ بنایا گیا ہے تاکہ توہین عدالت کی صورت میں کسی کو سزا نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انھوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ قانون ٹوٹوں میں بنایا گیا ہو ہمیشہ جامع قانون بنایا جا تا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک قانون کو ختم کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھا قانون نہیں ہو تا1976کے توہین عدالت قانون کو اس بنیاد پر ختم کیا گیا تھا لیکن 1976کے قانون کے جزیات لے کر موجودہ قانون بنایا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر کسی قانون کا ایک حصہ آئین سے متصادم ہو تو پورا قانو ن ختم ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران حزب اقتدار اور اختلاف دونوں نے بحث کی ہے۔

حزب اختلاف نے بحث کے بعد واک آؤٹ کیا۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ سب سے اچھی تقریر رضا ربانی، اعتزاز احسن اور حاجی عدیل نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ پارلیمنٹ سے دانش لیتی ہے۔

جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم کے وکیل خان افضل نے بھی دلائل دیے۔ عدالت کے استفسار پر وفاقی حکومت کے وکیل شکور پراچہ نے کہا کہ انھیں تحریری جواب دینے کی ہدایت نہیں کی گئی ہے۔ وہ حکومت کی آراء اپنے دلائل میں پیش کریں گے۔ شکور پراچہ نے تیاری کے لیے دو دن کی مہلت مانگی تاہم عدالت نے استدعا مسترد کر دی حکومت کے وکیل آج دلائل دیں گے۔

 

Recommended Stories

Load Next Story