کار جہاں دراز ہے
ہمارے علامہ اقبال کو لوگ سمجھ ہی نہ سکے۔ جس طرح یورپ ’’نطشے‘‘ کو سمجھ نہ سکا۔
معیشت جو ہو سو ہو، بنیادی طور پر کسی بھی سماج کا پیداواری عکس ہوتی ہے۔ اس دنیا کے کاروبار میں ہم سب بازار میں آتے ہیں تو ہمیں پتا بھی نہیں چلتا کہ ہم جو چیز بیچتے یا خریدتے ہیں اور کچھ نہیں کانٹریکٹ ہوتا ہے۔ کتنے سارے بل ہیں، بجلی کا بل، گیس کا بل، موبائل فون کا خرچہ، بچوں کی فیس، یہ اور وہ ہر ایک چیز کا بازار ہے۔
ایک بازار جس کو لیبر مارکیٹ کہتے ہیں۔ بہت ہی سلیس ہوتے ہوئے یہ کہوں کہ یہ وہ بازار ہے جہاں میری اور آپ کی نیلامی ہوتی ہے۔ جِس کو زیادہ ہنر آتا ہے اس کی اتنی ہی بڑی بولی لگتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ ہنر فرسودہ ہوجاتے ہیں۔ ہم خدا کے بنائے ہوئے انسان زمین پر ایک مکان اور بچوں کے لیے آسائش و ضرورتیں ڈھونڈتے ہیں۔ آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر میں رہتے ہیں۔
آدمی کا یہ پہلو دین نہیں دنیا ہے، یا اسے دنیاوی کہیے۔ دنیاوی کی انگریزی معنی ''secular'' ہے اور ''secular''کے معنی ایسے کام و دھندے کے ہیں جو دنیا میں جینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ سیکولر کے اور بھی معنی ہیں۔ وہ یہ ہیں ریاست و مذہب الگ الگ۔ دین و دنیا میزان کے دو پلو ہیں، جن میں توازن ضروری ہے اور اگر نہ ہوگا تو پھر فیض سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
پھر ہم نہ اِدھر کے رہتے ہیں، نہ اْدھر کے۔ بہت سے لوگوں کے لیے دین کاروبار ہوجاتا ہے ۔ وہ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اور مال بٹورتے رہتے ہیں۔ ان کے لاشعور میں دین نہیں بلکہ دنیا ہوتی ہے، دین تو بس بہانہ ہوتا ہے۔
قدیم یورپ میں کلیسا کے پاس بہت کچھ ہوتا تھا، ایک ہوتی تھی سیکولر زمین، جو زمیندار کی ہوتی تھی اور دوسری ہوتی تھی نان سیکولر زمین، جو چرچ کے ٹرسٹ کی ہوتی تھی۔ ان کی بیکریاں بھی ہوتی تھیںا ور بگیاں بھی۔ سیکولر زمین سکڑتی گئی اور نان سیکولر زمین بڑھتی گئی، حد نگاہ تک۔ بادشاہ سلامت چرچ کے تابع تھے۔
یہ پروٹسٹنٹ تحریک کیا تھی۔ چرچ کے خلاف بغاوت تھی۔ موقع پرستی کے وہ بھی زمانے تھے کہ روسو جب جنیوا آیا تو روزگار کی خاطر اپنے آبائی مذہب پروٹسٹنٹ سے رومن کیتھولک ہوگیا۔ ہمارے ہاں جو ایک مسلک کے تھے غیر ملکی فنڈ کی خاطردوسرے مسلک کے ہوگئے، ورنہ ہندوستان میں یہ دیوبندی ہی تھے۔
ہمارے علامہ اقبال کو لوگ سمجھ ہی نہ سکے۔ جس طرح یورپ ''نطشے'' کو سمجھ نہ سکا۔ جن سے علامہ اقبال بہت متاثر تھے۔ اقبال بھی آدمی تھے، ایک آدمی کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔ ان کی شاعری پر دنیا کا اثر بہت تھا۔ منزل کے پانے کی تمنا بہت تھی۔ وہ فرد میں خودی کو ڈھونڈتے ہیں۔ ایک ایسی خودی جس میں بندے کی رضامندی ضروری ہے، ورنہ خدا مدد کو نہیں آتا اور تقدیر بے معنی سی ٹھہر جاتی ہے۔ وہ ''شاہین'' میں وہی کچھ ڈھونڈتے ہیں جو ''نطشے'' ''سپرمین'' میں ڈھونڈتا تھا۔
ہنر کیا ہے؟ فرد کو آزادی دیتا ہے۔ جتنا زیادہ ہنر انسان کے اندر ہوگا اتنا ہی انسان آزاد ہوگا۔ وہ کہ جیسے عقابی روح بن جاتا ہے اور اس کی منزل آسمانوں میں ٹھہر جاتی ہے۔ قصہ مختصر کہ ہم بحیثیت قوم گڈمڈ ہوگئے ہیں، نہ دین کے رہے ہیں، نہ دنیا کے۔ ایسی کچھ خبر اقبال نے بھی دی، اسے یورپ کا فرد مومن کے معیار کا نظر آیا، فرق صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان نہ تھا۔ اور ہم دوغلے نظر آئے، زباں کے کچھ اور دل کے کچھ اور۔ یوں لگتا ہے کہ دین وہ پائے گا جو دنیا پائے گا۔ ہمارے مدارس بڑھتے گئے، اتنے بڑھے کہ گلی گلی اور چوراہوں پر ان کے ہی پہرے تھے۔ وہ طالبعلم جس کے لیے شاہ بھٹائی کہتے ہیں
کہ آج بھی اوطاقوں میں طالب تو ہیں
مگر جو دل کو جِلا دیتے تھے وہ لاہوتی چلے گئے
خاندانی اعتبار سے میں بھی مدرسے والا ہوں۔ میرے دادا و پڑ دادا فارسی کے استاد تھے۔ ہماری مسجد لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانی ہوگی۔ غالباً ہم ہی تھے یا ہمارامدرسہ تھا جہاں انگریزوں سے پہلے تعلیم ملتی تھی۔ میرے والد نوشہرہ مدرسے میں پڑھے اور پھر علیگڑھ بھی گئے۔ اب کے زمانوں میں ان مدارس میں کیا کوئی علیگڑھ یونیورسٹی والی بات بھی ہے؟ کوئی سرسید احمد خان بھی ہے؟ جس نے مسلمانان ہند کو روٹھنا نہیں منانا سکھایا تھا، کہ انگریز سے لڑو ضرور مگر انگریزی سے نہیں، فزکس، میتھس یا کیمسٹری سے نہیں۔ وہ غاصب تو ہے مگر اس کا قانون بہت عمدہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اقبال ہمارے الم نہیں۔ کچھ ایسے لبرل بھی ہیں جو اسے آج اس بھیانک رات کی پہلی کڑی سمجھتے ہیں۔ لیکن ذرا کوئی ان کے اشعار کو بھی پڑھے۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
تو زور کس پر ہوا؟ دنیا پر، کیونکہ آخرت میں نہ کوئی غریب ہوگا نہ امیر۔
یہ دنیا ہی ہے اور خاص کر میرا پاکستان ہی ہے کہ جہاں امیر اور غریب کے درمیان دیواریں بہت اونچی ہوگئی ہیں۔ ان مدارس میں اب نہ میرے دادا جیسے استاد ہیں اور نہ میرے والد جیسے شاگرد۔ میرے ابا کیا تھے؟ یتیم تھے اور غریب بھی۔ صبح کو کلرکی کرتے شام کو وکالت۔ ایک عدد میس بھی چلاتے تھے کہ کم از کم دو وقت روٹی کا بندوبست ہوجائے۔ یہ تھی وہ کراچی کی مسلم ہاسٹل، جہاں اس یتیم کے روحانی والد! علامہ آئی آئی قاضی تھے، جو اس میس میں خود آکر ان شاگردوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور کھانے کی پلیٹیں تقسیم کرتے تھے۔
درد اتنا ہے دل میں کہ بیاں ٹھہر جاتا ہے
مگر کیا کیجیے اپنے عہد کا سچ جو بولنا ہے، میں نے کہا نا! معیشت اور کچھ بھی نہیں معاشرے کا پیداواری عکس ہوتی ہے۔
یا یوں کہیے کہ دنیاوی و مادی حقیقت ہوتی ہے۔ جب دہقان کو روٹی میسر نہیں ہوگی تو اسے ہر شے اور ہر سمت، حتیٰ کہ سورج بھی تندور کی روٹی کی مانند نظر آئے گا۔ خدارا ان غریبوں کے بچوں کو، جو آپ کے پاس پڑھنے آتے ہیں، کچھ ہنر بھی سکھائیے۔ غیر ملکی فنڈز لے کر انھیں نفرتوں کے ایندھن میں نہ جھلسائیے۔ ہماری معیشت یا شرح نمو دہائیوں سے چار فیصد کے گرد گھوم رہی ہے۔
اب کی بار تو یہ عالم ہے کہ ہم برآمد میں پچھلے سال سے بھی پیچھے ہیں اور درآمد میں آگے سے اور آگے ہوگئے ہیں۔ بنیادی طور پر ہنر ہو تو ہماری برآمد بھی بڑھے۔ آبادی کے اعتبار سے ہم دنیا کی پانچویں بڑی قوم ہونے جا رہے ہیں اور معاشی اعتبار سے دنیا کے چند پسماندہ ملکوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ ماجرہ کیا ہے؟
باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
ایک بازار جس کو لیبر مارکیٹ کہتے ہیں۔ بہت ہی سلیس ہوتے ہوئے یہ کہوں کہ یہ وہ بازار ہے جہاں میری اور آپ کی نیلامی ہوتی ہے۔ جِس کو زیادہ ہنر آتا ہے اس کی اتنی ہی بڑی بولی لگتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ ہنر فرسودہ ہوجاتے ہیں۔ ہم خدا کے بنائے ہوئے انسان زمین پر ایک مکان اور بچوں کے لیے آسائش و ضرورتیں ڈھونڈتے ہیں۔ آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر میں رہتے ہیں۔
آدمی کا یہ پہلو دین نہیں دنیا ہے، یا اسے دنیاوی کہیے۔ دنیاوی کی انگریزی معنی ''secular'' ہے اور ''secular''کے معنی ایسے کام و دھندے کے ہیں جو دنیا میں جینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ سیکولر کے اور بھی معنی ہیں۔ وہ یہ ہیں ریاست و مذہب الگ الگ۔ دین و دنیا میزان کے دو پلو ہیں، جن میں توازن ضروری ہے اور اگر نہ ہوگا تو پھر فیض سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
پھر ہم نہ اِدھر کے رہتے ہیں، نہ اْدھر کے۔ بہت سے لوگوں کے لیے دین کاروبار ہوجاتا ہے ۔ وہ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اور مال بٹورتے رہتے ہیں۔ ان کے لاشعور میں دین نہیں بلکہ دنیا ہوتی ہے، دین تو بس بہانہ ہوتا ہے۔
قدیم یورپ میں کلیسا کے پاس بہت کچھ ہوتا تھا، ایک ہوتی تھی سیکولر زمین، جو زمیندار کی ہوتی تھی اور دوسری ہوتی تھی نان سیکولر زمین، جو چرچ کے ٹرسٹ کی ہوتی تھی۔ ان کی بیکریاں بھی ہوتی تھیںا ور بگیاں بھی۔ سیکولر زمین سکڑتی گئی اور نان سیکولر زمین بڑھتی گئی، حد نگاہ تک۔ بادشاہ سلامت چرچ کے تابع تھے۔
یہ پروٹسٹنٹ تحریک کیا تھی۔ چرچ کے خلاف بغاوت تھی۔ موقع پرستی کے وہ بھی زمانے تھے کہ روسو جب جنیوا آیا تو روزگار کی خاطر اپنے آبائی مذہب پروٹسٹنٹ سے رومن کیتھولک ہوگیا۔ ہمارے ہاں جو ایک مسلک کے تھے غیر ملکی فنڈ کی خاطردوسرے مسلک کے ہوگئے، ورنہ ہندوستان میں یہ دیوبندی ہی تھے۔
ہمارے علامہ اقبال کو لوگ سمجھ ہی نہ سکے۔ جس طرح یورپ ''نطشے'' کو سمجھ نہ سکا۔ جن سے علامہ اقبال بہت متاثر تھے۔ اقبال بھی آدمی تھے، ایک آدمی کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔ ان کی شاعری پر دنیا کا اثر بہت تھا۔ منزل کے پانے کی تمنا بہت تھی۔ وہ فرد میں خودی کو ڈھونڈتے ہیں۔ ایک ایسی خودی جس میں بندے کی رضامندی ضروری ہے، ورنہ خدا مدد کو نہیں آتا اور تقدیر بے معنی سی ٹھہر جاتی ہے۔ وہ ''شاہین'' میں وہی کچھ ڈھونڈتے ہیں جو ''نطشے'' ''سپرمین'' میں ڈھونڈتا تھا۔
ہنر کیا ہے؟ فرد کو آزادی دیتا ہے۔ جتنا زیادہ ہنر انسان کے اندر ہوگا اتنا ہی انسان آزاد ہوگا۔ وہ کہ جیسے عقابی روح بن جاتا ہے اور اس کی منزل آسمانوں میں ٹھہر جاتی ہے۔ قصہ مختصر کہ ہم بحیثیت قوم گڈمڈ ہوگئے ہیں، نہ دین کے رہے ہیں، نہ دنیا کے۔ ایسی کچھ خبر اقبال نے بھی دی، اسے یورپ کا فرد مومن کے معیار کا نظر آیا، فرق صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان نہ تھا۔ اور ہم دوغلے نظر آئے، زباں کے کچھ اور دل کے کچھ اور۔ یوں لگتا ہے کہ دین وہ پائے گا جو دنیا پائے گا۔ ہمارے مدارس بڑھتے گئے، اتنے بڑھے کہ گلی گلی اور چوراہوں پر ان کے ہی پہرے تھے۔ وہ طالبعلم جس کے لیے شاہ بھٹائی کہتے ہیں
کہ آج بھی اوطاقوں میں طالب تو ہیں
مگر جو دل کو جِلا دیتے تھے وہ لاہوتی چلے گئے
خاندانی اعتبار سے میں بھی مدرسے والا ہوں۔ میرے دادا و پڑ دادا فارسی کے استاد تھے۔ ہماری مسجد لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانی ہوگی۔ غالباً ہم ہی تھے یا ہمارامدرسہ تھا جہاں انگریزوں سے پہلے تعلیم ملتی تھی۔ میرے والد نوشہرہ مدرسے میں پڑھے اور پھر علیگڑھ بھی گئے۔ اب کے زمانوں میں ان مدارس میں کیا کوئی علیگڑھ یونیورسٹی والی بات بھی ہے؟ کوئی سرسید احمد خان بھی ہے؟ جس نے مسلمانان ہند کو روٹھنا نہیں منانا سکھایا تھا، کہ انگریز سے لڑو ضرور مگر انگریزی سے نہیں، فزکس، میتھس یا کیمسٹری سے نہیں۔ وہ غاصب تو ہے مگر اس کا قانون بہت عمدہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اقبال ہمارے الم نہیں۔ کچھ ایسے لبرل بھی ہیں جو اسے آج اس بھیانک رات کی پہلی کڑی سمجھتے ہیں۔ لیکن ذرا کوئی ان کے اشعار کو بھی پڑھے۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
تو زور کس پر ہوا؟ دنیا پر، کیونکہ آخرت میں نہ کوئی غریب ہوگا نہ امیر۔
یہ دنیا ہی ہے اور خاص کر میرا پاکستان ہی ہے کہ جہاں امیر اور غریب کے درمیان دیواریں بہت اونچی ہوگئی ہیں۔ ان مدارس میں اب نہ میرے دادا جیسے استاد ہیں اور نہ میرے والد جیسے شاگرد۔ میرے ابا کیا تھے؟ یتیم تھے اور غریب بھی۔ صبح کو کلرکی کرتے شام کو وکالت۔ ایک عدد میس بھی چلاتے تھے کہ کم از کم دو وقت روٹی کا بندوبست ہوجائے۔ یہ تھی وہ کراچی کی مسلم ہاسٹل، جہاں اس یتیم کے روحانی والد! علامہ آئی آئی قاضی تھے، جو اس میس میں خود آکر ان شاگردوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور کھانے کی پلیٹیں تقسیم کرتے تھے۔
درد اتنا ہے دل میں کہ بیاں ٹھہر جاتا ہے
مگر کیا کیجیے اپنے عہد کا سچ جو بولنا ہے، میں نے کہا نا! معیشت اور کچھ بھی نہیں معاشرے کا پیداواری عکس ہوتی ہے۔
یا یوں کہیے کہ دنیاوی و مادی حقیقت ہوتی ہے۔ جب دہقان کو روٹی میسر نہیں ہوگی تو اسے ہر شے اور ہر سمت، حتیٰ کہ سورج بھی تندور کی روٹی کی مانند نظر آئے گا۔ خدارا ان غریبوں کے بچوں کو، جو آپ کے پاس پڑھنے آتے ہیں، کچھ ہنر بھی سکھائیے۔ غیر ملکی فنڈز لے کر انھیں نفرتوں کے ایندھن میں نہ جھلسائیے۔ ہماری معیشت یا شرح نمو دہائیوں سے چار فیصد کے گرد گھوم رہی ہے۔
اب کی بار تو یہ عالم ہے کہ ہم برآمد میں پچھلے سال سے بھی پیچھے ہیں اور درآمد میں آگے سے اور آگے ہوگئے ہیں۔ بنیادی طور پر ہنر ہو تو ہماری برآمد بھی بڑھے۔ آبادی کے اعتبار سے ہم دنیا کی پانچویں بڑی قوم ہونے جا رہے ہیں اور معاشی اعتبار سے دنیا کے چند پسماندہ ملکوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ ماجرہ کیا ہے؟
باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر