منفی رویوں کا وقت پر ازالہ
معاشرہ ہیجانی اور کرداری تضادات کی وجہ سے پیدا کردہ صورتحال کے پیش نظر جل رہا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں نے جنگ یا خانہ جنگی کے پے در پے واقعات سے کڑا سبق سیکھا۔ جرمنی اور انگلینڈ نے ایک دوسرے کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے سے گریزکیا۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں کتب خانے جلائے گئے تاکہ ہر طرف جہالت کی تاریکی کا دور دورہ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد اقوام نے اگر کسی چیز پر زیادہ توجہ دی تو وہ تعلیمی ادارے تھے۔ انھوں نے ایسا نصاب ترتیب دیا جو بچے کی ذہنی، جسمانی و روحانی نشوونما انسانی اقدار کے مطابق کرسکے۔ پڑھائی کے ساتھ جسمانی مشقوں، غیرنصابی سرگرمیوں کو بھی شامل کرلیا گیا۔
موسیقی اور ڈرامے کا بھی ذہنی و شعوری ترویج میں اہم حصہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے بچے کے ذہن کو زرخیز بنایا جائے تاکہ خیال کا بیج اپنی جگہ بناسکے۔ اس کے بعد اس کی نگہداشت کا کام احسن طور پر ادا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو سمجھنے اور نفسیاتی خطوط پر ان کی پرورش کرنے کی وجہ سے یہ معاشرے تیزی سے منظم ہونے لگے۔
یورپ ہو یا امریکا استاد کا بھی اہم درجہ ہے۔ کیونکہ استاد خام مال جیسے ذہنوں کو کوئی واضح شکل عطا کرتا ہے۔ اس کا کام مجسمہ ساز کا ہوتا ہے اور اس کا کردار کامل رہبر جیسا ہے جو فقط صحیح راستے کے تعین کا ہنر سکھاتا ہے۔ وہ نرم، مہربان اور شائستہ رہبر ہے یہ بچوں یا نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بھی ہیں۔ تقلید کے لیے مثال بہترین ہو تو معاشرے بہتری کی راہوں کی طرف سفر کرتے ہیں۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ان سنہری اصولوں کے برعکس جارہا ہے۔ جس کے غلط نتائج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔
معاشرہ ہیجانی اور کرداری تضادات کی وجہ سے پیدا کردہ صورتحال کے پیش نظر جل رہا ہے۔ احساسات پر ضبط نہ رکھنے کے باعث غیر متوقع حادثات سامنے آتے ہیں۔ جو پورے سماج کو ہلا ڈالتے ہیں۔ جیسے مشیال کے بہیمانہ قتل کے واقعے نے نوجوان نسل کو بری طرح سے ہراساں کرکے رکھ دیا ہے۔
اکثر منفی کردار تعلیمی اداروں میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں ذہنی وقار کی سطح کم پائی جاتی ہے۔ یہ آستین کے سانپ کی طرح ہیں جن کا زہر کسی بھی وقت کسی معصوم انسان کی جان لے سکتا ہے ان کے اذیت پسند رویے، ذہنی طور پر مفلوج بنادیتے ہیں، ایسے لوگ ذاتی سست قدمی، تشویش، شخصی نا پختگی اور جارحانہ رویوں کی وجہ سے کسی بھی وقت غیر متوقع صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ بچپن سے بے ادب، سطحی، خود غرض، ضدی اور جھگڑالو ہوتے ہیں، منفی رویوں سے جلد دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیتے ہیں۔
اس طرح کی علامات اگر بچپن میں پائی جائیں تو ان کا ازالہ وقت پر انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ بچے آگے چل کر سماج دشمن شخصیت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں تاسف اور ندامت نہیں پائی جاتی لہٰذا اپنے اصلاح سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ مثبت سوچ کو کمی کی وجہ سے ان کے رویے غیر ذمے دار اور جارحانہ ہوتے ہیں۔ یہ والدین کی سختی و سزائیں جھیل کر اور بھی ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔ انھیں کاؤنسلنگ کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ سخت سزاؤں کی ناقص گھریلو و سماجی تربیت کی وجہ سے ان میں جذباتی بے حسی پائی جاتی ہے۔
یہ بچے جب اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں پہنچتے ہیں تو اساتذہ کے سخت رویوں کو جھیل کر ان کی شخصیت مزید عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر والدین کی طرف سے تربیت میں کوئی کمی پائی جاتی ہے تو اس خلا کو استاد پورا کرتے ہیں۔ استاد کا رتبہ بلند ہے وہ علم بانٹتا ہے علم آگہی اور عاجزی ہے، کوئی بھی چیز آپ غصے اور جبر سے نہیں بانٹ سکتے یہ عطا کرنے کا ہنر ہے۔ علم عطا کرنے والا روحانی رہبر کہلاتا ہے اس کی شخصیت و قول و عمل میں نرمی، اعتدال اور ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ رہبر یا مسیحا کو ذہنی، جسمانی و روحانی طور پر مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ ورنہ وہ رہبری کا دعویٰ نہیں کرسکتا یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ علم دنیاوی حاصلات تک پہنچنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج مردان میں ایسا انسانیت سوز واقعہ نہ ہوا ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ تر غیر پیشہ ورانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ جن میں منفی سوچ، جانبداری، لالچ، غیر ذمے داری اور افواہیں شامل ہیں۔ یہ تمام تر بڑے عہدوں پر فائز افسران اپنے فرائض سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ رہبر ہی رہزن بننے لگیں تو انسانیت پر کون بھلا یقین کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شرپسند عناصر فیس بک سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا کردار دن بدن مشکوک ہورہاہے جس کی وجہ سے کئی فتنے، فساد اور برائیاں معاشرے میں پھیل رہی ہیں۔ خاص طور پر بچے اور نوجوان بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں۔ گھروں کی تنظیم نہ ہونے کی صورت میں بچے بھٹک جاتے ہیں۔ منظم گھر اچھے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اچھی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے لوگ اداروں کو بھی فعال رکھتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ذہنی امراض میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچاس ملین لوگ ہمارے ملک میں مختلف ذہنی امراض میں مبتلا ہیں جس میں پندرہ سے پینتیس ملین کے لگ بھگ نوجوان شامل ہیں۔ بیس ملین بچے ذہنی صحت کے حوالے سے توجہ کے طالب ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے اور نوجوان آگے چل کر قانون شکنی کی واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں، مردان کے واقعے میں آپ نوجوانوں کے اندر کی نفرت، غم و غصہ دیکھیے یہ جارحیت ان کے اندر کئی غیر انسانی رویوں کو واضح کررہی ہے جس کا شکار وہ کہیں نہ کہیں رہے ہوںگے۔ چاہے ان کے گھر ہوں یا تعلیمی ادارے ہوں ان کے ذہن ناپختہ ہیں یہ سچائی کو جھوٹ سے الگ کرکے نہیں پرکھ سکتے جن ذہنوں میں گمان اور بے یقینی بھری ہو وہ ذاتی تجزیے یا سوجھ بوجھ کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں لہٰذا معاشرتی زندگی اس وقت خطرناک موڑ پر کھڑی ہوئی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ شدید فرسٹریشن کا شکار ہے۔
پاکستانی یوتھ 63 فی صد ملک کی آبادی کا حصہ ہے یہ پچیس سال سے کم عمر نوجوان ہیں ان پر گھروں سے زیادہ دوستوں اور باہر کی دنیا کا اثر زیادہ نظر آتا ہے ان کے بہت سے مسائل ہیں جس میں منشیات، جنسی بے راہ روی، بے روزگاری اور عدم تحفظ کا احساس وغیرہ شامل ہے۔ انھیں رہنمائی چاہیے تاکہ یہ اپنے خرابیوں کو تعبیر عطا کرسکیں انھیں یقین، عزم و حوصلے کی ضرورت ہے۔ یہ ضایع ہورہے ہیں حالات کی سختیوں سے ٹکراکر بری صحبتیں اور منتشر رشتے انھیں فرارکی راہیں اختیار کرنے پر اُکساتے ہیں۔
والدین اور بچوں میں واضح فاصلہ نظر آرہا ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر تک انھیں توجہ، رہنمائی اور خوشگوار رویوں کی اشد ضرورت ہے ان نوجوانوں کی شخصیت ناپختہ ہونے کی وجہ سے یہ غلط قسم کے لوگوں کے اثر میں جلد آجاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کے گھروں کا انتشار ہے آگے چل کر غلط صحبت انھیں مزید بگاڑدیتی ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ پرانی اور نئی نسل کے درمیان جنریشن گیپ پایا جاتا ہے والدین و اساتذہ وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنی نسلوں کی رہنمائی کی جائے تو انھیں کئی ممکنہ خطرات سے بچایا جاسکتا ہے۔یہ اس وقت ممکن ہے جب والدین کے بہترین دوست بن جائیں اور اساتذہ رہبر حقیقی کا کردار ادا کریں۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد اقوام نے اگر کسی چیز پر زیادہ توجہ دی تو وہ تعلیمی ادارے تھے۔ انھوں نے ایسا نصاب ترتیب دیا جو بچے کی ذہنی، جسمانی و روحانی نشوونما انسانی اقدار کے مطابق کرسکے۔ پڑھائی کے ساتھ جسمانی مشقوں، غیرنصابی سرگرمیوں کو بھی شامل کرلیا گیا۔
موسیقی اور ڈرامے کا بھی ذہنی و شعوری ترویج میں اہم حصہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے بچے کے ذہن کو زرخیز بنایا جائے تاکہ خیال کا بیج اپنی جگہ بناسکے۔ اس کے بعد اس کی نگہداشت کا کام احسن طور پر ادا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو سمجھنے اور نفسیاتی خطوط پر ان کی پرورش کرنے کی وجہ سے یہ معاشرے تیزی سے منظم ہونے لگے۔
یورپ ہو یا امریکا استاد کا بھی اہم درجہ ہے۔ کیونکہ استاد خام مال جیسے ذہنوں کو کوئی واضح شکل عطا کرتا ہے۔ اس کا کام مجسمہ ساز کا ہوتا ہے اور اس کا کردار کامل رہبر جیسا ہے جو فقط صحیح راستے کے تعین کا ہنر سکھاتا ہے۔ وہ نرم، مہربان اور شائستہ رہبر ہے یہ بچوں یا نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بھی ہیں۔ تقلید کے لیے مثال بہترین ہو تو معاشرے بہتری کی راہوں کی طرف سفر کرتے ہیں۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ان سنہری اصولوں کے برعکس جارہا ہے۔ جس کے غلط نتائج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔
معاشرہ ہیجانی اور کرداری تضادات کی وجہ سے پیدا کردہ صورتحال کے پیش نظر جل رہا ہے۔ احساسات پر ضبط نہ رکھنے کے باعث غیر متوقع حادثات سامنے آتے ہیں۔ جو پورے سماج کو ہلا ڈالتے ہیں۔ جیسے مشیال کے بہیمانہ قتل کے واقعے نے نوجوان نسل کو بری طرح سے ہراساں کرکے رکھ دیا ہے۔
اکثر منفی کردار تعلیمی اداروں میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں ذہنی وقار کی سطح کم پائی جاتی ہے۔ یہ آستین کے سانپ کی طرح ہیں جن کا زہر کسی بھی وقت کسی معصوم انسان کی جان لے سکتا ہے ان کے اذیت پسند رویے، ذہنی طور پر مفلوج بنادیتے ہیں، ایسے لوگ ذاتی سست قدمی، تشویش، شخصی نا پختگی اور جارحانہ رویوں کی وجہ سے کسی بھی وقت غیر متوقع صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ بچپن سے بے ادب، سطحی، خود غرض، ضدی اور جھگڑالو ہوتے ہیں، منفی رویوں سے جلد دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیتے ہیں۔
اس طرح کی علامات اگر بچپن میں پائی جائیں تو ان کا ازالہ وقت پر انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ بچے آگے چل کر سماج دشمن شخصیت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں تاسف اور ندامت نہیں پائی جاتی لہٰذا اپنے اصلاح سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ مثبت سوچ کو کمی کی وجہ سے ان کے رویے غیر ذمے دار اور جارحانہ ہوتے ہیں۔ یہ والدین کی سختی و سزائیں جھیل کر اور بھی ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔ انھیں کاؤنسلنگ کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ سخت سزاؤں کی ناقص گھریلو و سماجی تربیت کی وجہ سے ان میں جذباتی بے حسی پائی جاتی ہے۔
یہ بچے جب اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں پہنچتے ہیں تو اساتذہ کے سخت رویوں کو جھیل کر ان کی شخصیت مزید عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر والدین کی طرف سے تربیت میں کوئی کمی پائی جاتی ہے تو اس خلا کو استاد پورا کرتے ہیں۔ استاد کا رتبہ بلند ہے وہ علم بانٹتا ہے علم آگہی اور عاجزی ہے، کوئی بھی چیز آپ غصے اور جبر سے نہیں بانٹ سکتے یہ عطا کرنے کا ہنر ہے۔ علم عطا کرنے والا روحانی رہبر کہلاتا ہے اس کی شخصیت و قول و عمل میں نرمی، اعتدال اور ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ رہبر یا مسیحا کو ذہنی، جسمانی و روحانی طور پر مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ ورنہ وہ رہبری کا دعویٰ نہیں کرسکتا یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ علم دنیاوی حاصلات تک پہنچنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج مردان میں ایسا انسانیت سوز واقعہ نہ ہوا ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ تر غیر پیشہ ورانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ جن میں منفی سوچ، جانبداری، لالچ، غیر ذمے داری اور افواہیں شامل ہیں۔ یہ تمام تر بڑے عہدوں پر فائز افسران اپنے فرائض سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ رہبر ہی رہزن بننے لگیں تو انسانیت پر کون بھلا یقین کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شرپسند عناصر فیس بک سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا کردار دن بدن مشکوک ہورہاہے جس کی وجہ سے کئی فتنے، فساد اور برائیاں معاشرے میں پھیل رہی ہیں۔ خاص طور پر بچے اور نوجوان بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں۔ گھروں کی تنظیم نہ ہونے کی صورت میں بچے بھٹک جاتے ہیں۔ منظم گھر اچھے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اچھی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے لوگ اداروں کو بھی فعال رکھتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ذہنی امراض میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچاس ملین لوگ ہمارے ملک میں مختلف ذہنی امراض میں مبتلا ہیں جس میں پندرہ سے پینتیس ملین کے لگ بھگ نوجوان شامل ہیں۔ بیس ملین بچے ذہنی صحت کے حوالے سے توجہ کے طالب ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے اور نوجوان آگے چل کر قانون شکنی کی واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں، مردان کے واقعے میں آپ نوجوانوں کے اندر کی نفرت، غم و غصہ دیکھیے یہ جارحیت ان کے اندر کئی غیر انسانی رویوں کو واضح کررہی ہے جس کا شکار وہ کہیں نہ کہیں رہے ہوںگے۔ چاہے ان کے گھر ہوں یا تعلیمی ادارے ہوں ان کے ذہن ناپختہ ہیں یہ سچائی کو جھوٹ سے الگ کرکے نہیں پرکھ سکتے جن ذہنوں میں گمان اور بے یقینی بھری ہو وہ ذاتی تجزیے یا سوجھ بوجھ کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں لہٰذا معاشرتی زندگی اس وقت خطرناک موڑ پر کھڑی ہوئی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ شدید فرسٹریشن کا شکار ہے۔
پاکستانی یوتھ 63 فی صد ملک کی آبادی کا حصہ ہے یہ پچیس سال سے کم عمر نوجوان ہیں ان پر گھروں سے زیادہ دوستوں اور باہر کی دنیا کا اثر زیادہ نظر آتا ہے ان کے بہت سے مسائل ہیں جس میں منشیات، جنسی بے راہ روی، بے روزگاری اور عدم تحفظ کا احساس وغیرہ شامل ہے۔ انھیں رہنمائی چاہیے تاکہ یہ اپنے خرابیوں کو تعبیر عطا کرسکیں انھیں یقین، عزم و حوصلے کی ضرورت ہے۔ یہ ضایع ہورہے ہیں حالات کی سختیوں سے ٹکراکر بری صحبتیں اور منتشر رشتے انھیں فرارکی راہیں اختیار کرنے پر اُکساتے ہیں۔
والدین اور بچوں میں واضح فاصلہ نظر آرہا ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر تک انھیں توجہ، رہنمائی اور خوشگوار رویوں کی اشد ضرورت ہے ان نوجوانوں کی شخصیت ناپختہ ہونے کی وجہ سے یہ غلط قسم کے لوگوں کے اثر میں جلد آجاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کے گھروں کا انتشار ہے آگے چل کر غلط صحبت انھیں مزید بگاڑدیتی ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ پرانی اور نئی نسل کے درمیان جنریشن گیپ پایا جاتا ہے والدین و اساتذہ وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنی نسلوں کی رہنمائی کی جائے تو انھیں کئی ممکنہ خطرات سے بچایا جاسکتا ہے۔یہ اس وقت ممکن ہے جب والدین کے بہترین دوست بن جائیں اور اساتذہ رہبر حقیقی کا کردار ادا کریں۔