نیٹو سپلائی کی بحالی پر معاہدہ آج ہوگا پاکستان کو فی کنٹینر 250 ڈالر ملیں گے

ٹرانزٹ کراچی، بن قاسم پورٹ، طورخم اور چمن سرحد سے ہو گی،ہتھیاروں سمیت24 اشیا ممنوع

ٹرانزٹ کراچی، بن قاسم پورٹ، طورخم اور چمن سرحد سے ہو گی،ہتھیاروں سمیت24 اشیا ممنوع، کنٹینرز میں ٹریکنگ سسٹم نصب کیا جائیگا ۔ فائل فوٹو

پاکستان اور امریکا کے درمیان نیٹو سُپلائی کی بحالی کے حوالے سے مفاہمت کی یاداشت (ایم او یو) پر منگل کو باضابطہ دستخط ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے 6 صفحات کے ایم او یو پر پاکستان کی طرف سے وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکریٹری تھری ریئر ایڈمرل فرخ احمد جبکہ امریکا کی طرف سے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ ہوگلینڈ دستخط کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے ایم او میں دو انیکسچر اور 16 شقیں شامل ہیں۔

ایم او یو کے ساتھ 12 صفحات کا ایک کسٹمز جنرل آرڈر بھی شامل ہے جس میں منفی اشیاء کی فہرست اور کارگو کلیئرنس فارم شامل ہے جو نیٹو سامان کی کلیئرنس کیلیے امریکا کی طرف سے تعینات کیے جانے والے نمائندے کیلیے ہوگا۔ ''ایکسپریس' ' کو دستیاب دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا معاہدے سے قبل کسٹمز جنرل آرڈر پر زور دے رہا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اب نہ صرف کسٹمز جنرل آرڈر کو حتمی شکل دی جاچکی ہے

بلکہ اسے امریکی حکام کے ساتھ شیئر بھی کیا جاچکا ہے۔دستاویز کے مطابق کسٹمز جنرل آرڈر میں نیٹو، ایساف و امریکی افواج کیلیے 24 اشیاء کی سُپلائی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ نیٹو کنٹینرز کی کلیئرنس کے موقع پر بااختیار ایجنٹ کو 250 ڈالر فی گُڈز ڈکلیئریشن (جی ڈی) کے حساب سے حکومتی خزانے میں جمع کروانا ہوں گے تاہم ایکسپریس کو دستیاب دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ یہ رقم نیشنل بینک آف پاکستان کی باختیار برانچ کے اکاؤنٹ نمبر R-50A/Cno.R-50 Misc-others of pakistan customs revenue account) میں پاکستان کسٹمز کی طرف سے فراہم کی جانے والی انتظامی سروسز، پراسیسنگ اور کلیئرنس کی مد میں جمع کروانا ہوگی۔


نئے کسٹمزجنرل آرڈر کے تحت امریکی کارگو کی ٹرانزٹ صرف کراچی پورٹ، محمد بن قاسم پورٹ، طورخم اور چمن سرحد کے راستے ہوسکے گی اور امریکی کارگو کی پاکستان کے راستے ٹرانزٹ کیلیے امریکا کی طرف سے امریکی ڈیفنس آفس برائے پاکستان کے نمائندے کو سنگل فوکل پرسن مقرر کیا جائیگا۔ دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ نئے کسٹمز جنرل آرڈر کے تحت نیٹو کنٹینرز کی ترسیل صرف پاکستان ریلوے، بااختیار بونڈڈ کیریئرز یا کسٹمز رُولز 2001 ء کے چیپٹر 25 کے تحت لائسنس حاصل کرنے والے ٹرانسپورٹرز کے ذریعے ہوسکے گی اور امریکی سامان کی ترسیل کیلیے استعمال ہونے والی گاڑیوں میں جدید نوعیت کی حامل ٹریکنگ ڈیوائس نصب ہوں گی

جو کہ ٹریکنگ اینڈ مانیٹرنگ آف کارگو رُولز 2012 کے تحت لائسنس یافتہ ٹریکنگ کمپنی طرف سے نصب کی جائے گی اور نیٹو کینٹینرز کی ترسیل کے دوران کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمے داری ٹرانسپورٹرز و کیریئرز پر عائد ہوگی۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سُپلائی کی مانیٹرنگ وسیکیورٹی اور پاکستان اور امریکی حکام کے درمیان باہمی رابطے کیلیے سینٹرل کوآرڈینیشن اتھارٹی(سی سی اے) فرائض سرانجام دے گی۔

سیکریٹری دفاع سینٹرل کوآرڈینیشن اتھارٹی(سی سی اے)کی سربراہ ہوں گی اور پاکستان کی طرف سے فوکل پرسن کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیں گی جبکہ سینٹرل کوآرڈینیشن اتھارٹی کے ممبران میں وزارت داخلہ، وزارت پورٹس اینڈ شپنگ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، نیشنل لاجسٹک سیل(این ایل سی)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی(این ایچ اے)، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پاکستان ریلوے کے نمائندے شامل ہوں گے۔

نئے کسٹمز جنرل آرڈر کے تحت نیٹو کنٹینرز کے ذریعے پاکستان کے راستے چھوٹے ہتھیار اور ہر قسم کے لائٹ ہتھیار افغانستان نہیں بھجوائے جاسکیں گے۔ تمام قسم کے اینٹی ٹینک ہتھیار، مارٹرز، خودکار گرینیڈ لانچرز، ٹینک اور آرمرڈ وہیکلز،آرٹلری گن، گائیڈڈ و دوسرے اقسام کے میزائل و راکٹس، لانچرز، مائنز، بم، پروجیکٹائلز اور آرٹلری امیونشن، ڈائریکٹڈ انرجی و نیٹڈ انرجی ویپنز سسٹمز، لیز ویپن سسٹم، بشمول ویو اینڈ پلس لیزر سسٹمز،کمبیٹ ائیر کرافٹ، اٹیک ہیلی کاپٹرز، بغیر ڈرائیور چلنے والی ائیریل وہیکلز،گولہ بارود، ملٹری اینڈ کمرشل ایکپلوژو، ڈرونز سمیت دیگر خطر ناک اور مہلک ہتھیار شامل ہیں۔ ایف بی آر کے سینئر افسر نے بتایا کہ افغانستان کو بھجوائے جانے والے ہر قسم کے کارگو کیلیے مذکورہ رُولز کا اطلاق ہوگا۔

Recommended Stories

Load Next Story