نیا ذہن نیا انداز پاکستانی فلم جلد دنیا بھر میں پہچان بنائے گی ریشم
ٹی وی میڈیم سے بھی بہت سارے لوگوں نے فلم کوجوائن کرلیا،لالی ووڈ میں فلمسازی کا عمل تیز ہوگیا، اداکارہ و ماڈل
اداکارہ و ماڈل ریشم نے کہا ہے کہ پاکستانی فلم اورسینما انڈسٹری کے شدید بحران نے جیسے بہتری کے آثارہی ختم کر دیے تھے تاہم فلم میکرز، ڈائریکٹرز اور ٹیکنیشنز کیساتھ ساتھ معروف فنکار بھی اس شعبے کوخیرباد کہہ کر ٹی وی اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہونے لگے۔
اداکارہ ریشم نے کہا ہے کہ سینما گھروں کی جگہ پٹرول پمپ، پلازے، شادی ہال اورتھیٹروں نے لے لی۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ بس اب پاکستان میں سینما گھروں کا کاروبار ہمیشہ کے لیے ختم ہوکررہ جائیگا۔ اس سلسلہ میں ملک بھرسے سینما گھرتوبڑی تعداد میں ختم ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ نگارخانوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز کمی دکھائی دی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اسٹوڈیوز کے جن فلوروں میں ''اسٹارٹ ساؤنڈ، کیمرہ ، ایکشن'' کی صدائیں گونجتی تھیں، وہاں پھرگودام بننے لگے۔ لاہور کے رائل پارک جیسے علاقے میں فلم پروڈیوسرز، ڈسٹری بیوٹرزاور فلمی ستاروں کے دفاترکی جگہ پرنٹنگ پریس اورکھانے پینے کے ہوٹل آباد ہوگئے۔ مگر کہتے ہیں کہ امید پردنیا قائم ہے اوربرے کے بعد اچھا وقت ضرورآتا ہے۔
ریشم نے کہا کہ رائل پارک میں جہاں 24گھنٹے فلم ٹریڈ سے وابستہ افراد کی محفلیں سجا کرتی تھیں اورلکشمی چوک پرفلمی بورڈزاوربینرزآویزاں ہوتے تھے، وہاں دیگرپرائیویٹ کمپنیوں کے تشہیری بورڈ دِکھنے لگے۔ چند برس قبل تک ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان میں فلم اورسینما انڈسٹری کا کبھی وجود ہی نہیں تھا کیونکہ پاکستان فلم اورسینما انڈسٹری کے شاندار ماضی سے نوجوان نسل کی کوئی شناسائی ہی نہ تھی، جوکہ کسی بھی بڑے المیہ سے کم نہ تھا۔ البتہ بالی وڈ فلموں کی بدولت نوجوان نسل فلم سے واقف ضرور تھی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ شدید بحران کے باوجود بھی کچھ لوگوں نے فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، مگرانھوں نے اس کے معیار، کہانی اورجدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرتے ہوئے فارمولا فلمیں بنانا بند نہ کیں ، جس کی وجہ سے ان کی فلمیں کب نمائش کے لیے پیش ہوئیں اورکب فلاپ ، کسی کوپتہ ہی نہ چل سکا۔ پھرایک ایسا وقت بھی آیا کہ پاکستان میں فلمسازی کے شعبے میں نوجوان نسل نے قدم رکھا۔
علاوہ ازیں ریشم نے کہا کہ فلم ڈائریکشن' رائٹنگ، کیمرہ ورک کے علاوہ دیگر تکنیکی شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سامنے آنے لگے۔ یہی نہیں بہت سے نوجوان فنکار جو ٹی وی پر بہترین کام کر رہے تھے، ان کو سلور اسکرین پر کام کرنے کے لیے راضی کیا گیا۔ مگر شکر ہے کہ ہمارے ہاں فلمسازی کا عمل تیز ہوا ہے اوراس میں تیزی کے ساتھ آتی بہتری اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والے چند برسوں میں پاکستانی فلم دنیا بھرمیں دیکھی اورپسند کی جائے گی۔
اداکارہ ریشم نے کہا ہے کہ سینما گھروں کی جگہ پٹرول پمپ، پلازے، شادی ہال اورتھیٹروں نے لے لی۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ بس اب پاکستان میں سینما گھروں کا کاروبار ہمیشہ کے لیے ختم ہوکررہ جائیگا۔ اس سلسلہ میں ملک بھرسے سینما گھرتوبڑی تعداد میں ختم ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ نگارخانوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز کمی دکھائی دی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اسٹوڈیوز کے جن فلوروں میں ''اسٹارٹ ساؤنڈ، کیمرہ ، ایکشن'' کی صدائیں گونجتی تھیں، وہاں پھرگودام بننے لگے۔ لاہور کے رائل پارک جیسے علاقے میں فلم پروڈیوسرز، ڈسٹری بیوٹرزاور فلمی ستاروں کے دفاترکی جگہ پرنٹنگ پریس اورکھانے پینے کے ہوٹل آباد ہوگئے۔ مگر کہتے ہیں کہ امید پردنیا قائم ہے اوربرے کے بعد اچھا وقت ضرورآتا ہے۔
ریشم نے کہا کہ رائل پارک میں جہاں 24گھنٹے فلم ٹریڈ سے وابستہ افراد کی محفلیں سجا کرتی تھیں اورلکشمی چوک پرفلمی بورڈزاوربینرزآویزاں ہوتے تھے، وہاں دیگرپرائیویٹ کمپنیوں کے تشہیری بورڈ دِکھنے لگے۔ چند برس قبل تک ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان میں فلم اورسینما انڈسٹری کا کبھی وجود ہی نہیں تھا کیونکہ پاکستان فلم اورسینما انڈسٹری کے شاندار ماضی سے نوجوان نسل کی کوئی شناسائی ہی نہ تھی، جوکہ کسی بھی بڑے المیہ سے کم نہ تھا۔ البتہ بالی وڈ فلموں کی بدولت نوجوان نسل فلم سے واقف ضرور تھی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ شدید بحران کے باوجود بھی کچھ لوگوں نے فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، مگرانھوں نے اس کے معیار، کہانی اورجدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرتے ہوئے فارمولا فلمیں بنانا بند نہ کیں ، جس کی وجہ سے ان کی فلمیں کب نمائش کے لیے پیش ہوئیں اورکب فلاپ ، کسی کوپتہ ہی نہ چل سکا۔ پھرایک ایسا وقت بھی آیا کہ پاکستان میں فلمسازی کے شعبے میں نوجوان نسل نے قدم رکھا۔
علاوہ ازیں ریشم نے کہا کہ فلم ڈائریکشن' رائٹنگ، کیمرہ ورک کے علاوہ دیگر تکنیکی شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سامنے آنے لگے۔ یہی نہیں بہت سے نوجوان فنکار جو ٹی وی پر بہترین کام کر رہے تھے، ان کو سلور اسکرین پر کام کرنے کے لیے راضی کیا گیا۔ مگر شکر ہے کہ ہمارے ہاں فلمسازی کا عمل تیز ہوا ہے اوراس میں تیزی کے ساتھ آتی بہتری اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والے چند برسوں میں پاکستانی فلم دنیا بھرمیں دیکھی اورپسند کی جائے گی۔