امریکا کی پہلی سیاہ فام مسلم خاتون جج جسٹس شیلا عبدالسلام کی موت معمہ بن گئی

پولیس کی طرف سے خودکشی قرار دینے کی کوشش نسلی تعصب کا شاخسانہ تو نہیں؟


Rana Naseem April 30, 2017
جسٹس شیلا ایک غیرمعمولی خاتون تھی، جو ایک غریب گھرانے سے ضرور تعلق رکھتی تھی۔ فوٹو : فائل

دنیا کو روشن خیالی، اعتدال اور جدت پسندی کا درس دینے والا امریکا خود کبھی بھی مذہب، قومیت، گوری اور کالی، چمڑی جیسے تعصبات سے باہر نہیں نکل سکا۔ نسلی تعصب کی بات کی جائے تو سیاہ فاموں کے لئے ہمیشہ سے یہاں ایک حقارت پائی گئی، لیکن جب یہ سیاہ فام مسلمان بھی ہو، پھر تو اس پر زمین ہی تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاہم تمام تر اذیتوں اور سختیوں کے باوجود کچھ سیاہ فام مسلمان امریکیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی، ذہانت اور شہرت کسی خاص نسل، طبقے، گروہ یا قوم کے لئے نہیں بلکہ دیانت اور محنت کے بل بوتے پر کوئی بھی اسے حاصل کر سکتا ہے۔

امریکی بھلے ہی اس بات کا کھلے دل سے اعتراف نہ کریں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی ترقی میں نہ صرف سیاہ فام بلکہ سیاہ فام مسلم کمیونٹی نے بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، جس کی واضح مثالیں سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما، معروف باکسر محمد علی کلے، معروف باکسر مائیک ٹائسن، باسکٹ بال پلیئر کریم عبدالجبار وغیرہ ہیں۔ ایسے ہی ناموں میں ایک نام سیاہ فام امریکی شیلا عبدالسلام کا بھی ہے، جو امریکا کی پہلی مسلمان خاتون جج تھیں۔ شیلا کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ ورجینیا کے ایک سیاہ فام غلام کی نسل سے ہے اور وہ خود اس بات کا چرچا کیا کرتی تھیں۔

جسٹس شیلا عبدالسلام 14 مارچ 1952ء کو واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ہوئیں۔ والدین اور 7 بہن بھائیوں پر مشتمل یہ خاندان مالی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط نہیں تھا، لیکن شیلا نے اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر نیویارک کی اعلی ترین عدالت کے 7 ججز میں اپنا نام لکھوایا۔

ابتدائی تعلیم کے حصول کے لئے انہوں نے ایک سرکاری سکول میں داخلہ لیا، 1974ء میں انہوں نے برنرڈ کالج سے گریجوایشن اور بعدازاں 1977ء میں کولمبیا لاء سکول سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور مشرقی بروکلین سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کردیا، جس کے بعد انہوں نے نیویارک ریاست کی نائب اٹارنی جنرل کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

اپیل کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق مختلف عدالتی عہدوں پر کام کرنے کے بعد انہیں 1991ء میں نیویارک شہر کا جج مقرر کر دیا گیا۔ بعدازاں تجربہ، قابلیت، صلاحیت اور ذہانت کے بل بوتے پر انہیں 2013ء میں نیویارک کی سب سے بڑی عدالت (نیویارک کورٹ آف اپیل) میں بطور ایسوسی ایٹ جج تعینات کر دیا گیا۔

اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے دوران شیلا نے ہمیشہ مظلوم طبقے کی آواز بننے کو ترجیح دی اور میرٹ پر فیصلے پر کبھی کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا، چاہے وہ دباؤ ان کی زندگی کو ہی داؤ پر لگا دے، جس کا ایک ثبوت وہ چہ مگوئیاں بھی ہیں، جو ان کی ناگہانی موت پر کی جا رہی ہیں۔ جسٹس شیلا نے ایک طرف جہاں تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں، وہاں زندگی نے انہیں گھریلو دکھوں سے بار بار آشنا کروایا۔ 2012ء میں ان کی 92 سالہ والدہ نے خودکشی کر لی جبکہ ٹھیک دو سال بعد ان کے بھائی نے بھی اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

جسٹس شیلا نے تین شادیاں کیں اور ظاہر ہے بار بار شادی شوق سے تو نہیں کی جاتی۔ ان کی پہلی دو شادیاں ٹوٹنے کی ایک وجہ وہ ذمہ داریاں بھی بتائی جاتی ہیں، جن سے عہدبرآ ہونے کے لئے ان کے پاس گھریلو معاملات کی دیکھ بھال کے لئے وقت ہی نہیں بچتا تھا۔ ان کی پہلی شادی عبدالسلام سے ہوئی، جن کے نام کو شیلا نے مرتے دم تک اپنے نام کے ساتھ جوڑے رکھا، ان کے دوسرے شوہر کا نام جیمز ہیچر تھا جبکہ تیسری شادی جون 2016ء میں جی اے جیکب سے ہوئی۔

رواں ماہ کی 12 تاریخ کو نیویارک کی اعلی ترین عدالت کی 65 سالہ جج پراسرار طور پر دریائے ہڈسن کے کنارے مردہ پائی گئیں، جس پر نہ صرف امریکا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی صدمے کی لہر دوڑ گئی۔ اہل خانہ نے شیلا عبدالسلام کی نعش شناخت کرکے تصدیق بھی کر دی ہے، تاہم نعش ملنے سے قبل وہ گھر سے لاپتہ ہو گئی تھیں، جس کی پولیس رپورٹ بھی کروائی گئی تھی۔ پولیس کی طرف سے شیلا عبدالسلام کی موت کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نیویارک پولیس اور دیگر حکام کا کہنا ہے کہ ''وہ ڈپریشن کا شکار تھیں اور شائد یہی ان کی خودکشی کی وجہ ہے۔ ان کی نعش جب دریا سے نکالی گئی تو وہ مکمل کپڑوں میں تھیں اور ان کے جسم پر کسی قسم کے تشدد کا نشان بھی نہیں تھا، بظاہر یہ ایک مجرمانہ فعل نہیں لگتا، تاہم سرکاری سطح پر تحقیقات جاری ہیں۔'' لیکن جسٹس شیلا سے محبت کرنے والے یہ ماننے کے لئے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے لئے ایک مثال تھیں، جنہوں نے غربت اور تنگ دستی میں آنکھ ضرور کھولی، لیکن ہمیں یہ سبق دیا کہ انسان اپنی محنت، دیانت اور لگن کے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔

جسٹس شیلا کے ایک دوست نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گو شیلا نے طلاق جیسے صدمات بھی سہے تھے، لیکن انہوں نے دوبارہ شادی کر لی، جو ابھی تک بہت کامیاب تھی، مرتے دم تک وہ اپنی زندگی سے بہت خوش تھیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ جسٹس شیلا کے شوہر جی اے جیکب نے بھی پولیس کی طرف سے اس کی موت کو ڈپریشن کے باعث خودکشی قرار دینے کی باتوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری بیوی کے انتقال پر ان کی ذہنی صحت سے متعلق غیر مصدقہ رپورٹس انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ جو لوگ شیلا کو جانتے ہیں، وہ کبھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے۔ ابھی تک میڈیکل رپورٹس کے ذریعے شیلا کی موت کی وجوہات سامنے نہیں لائی جا سکیں۔

دوسری طرف سوشل میڈیا پر سرگرم جسٹس شیلا کے کچھ حامیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں ایک کامیاب سیاہ فام ہونے کی سزا ملی جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ یہ سانحہ ان کے میرٹ پر کئے جانے والے فیصلوں سے متاثرہ کسی ظالم کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ پولیس اور حکام کا فوری طور پر ان کی موت کو خودکشی قرار دینا جلد بازی ہے۔

سیاہ فام ہونے کی سزا کے خیال کو جھٹلانا آسان نہیں کیوں کہ امریکی معاشرہ میں سیاہ فاموں کے لئے پائی جانے والی نفرت آج کے جدید معاشرے میں بھی کم نہیں ہوئی، جیسے معروف سیاہ فام امریکی شاعر اور سماجی نقاد جمیز آرتھر کہتے ہیں ''امریکا میں، میں صرف لڑائی لڑنے کے لئے آزاد ہوں، آرام کرنے کے لئے کبھی نہیں اور جنہیں آرام کرنے کا موقع نہں ملتا، وہ زیادہ دیر تک لڑائی نہیں لڑ سکتے''۔ اسی طرح قومی سروے برائے امریکی زندگی کے دوران ہونے والے انکشافات کے مطابق ہر دس میں سے ایک افریقن امریکی ذہنی تناؤ کا شکار رہتا ہے۔

جسٹس شیلا عبدالسلام کی ناگہانی موت پر پورے امریکا کا افسوس اور تعزیتی بیانات اپنی جگہ لیکن ان کی موت کی مصدقہ وجوہات معلوم کرنے میں تاخیر، پولیس حکام کی طرف سے دیئے جانے والے خودکشی کے تاثر کو زائل کر رہی ہے، کیوں کہ ان کی نعش ملے تین ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن تاحال نعش کی مکمل اور مصدقہ میڈیکل رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی، الٹا ڈاکٹرز ان کی نعش کا پوسٹ مارٹم کرنے کی ابھی تک تیاری ہی کر رہے ہیں۔ امریکی معاشرے میں کسی بھی نعش کو 20، 20 روز تک محفوظ رکھنا اگرچہ معمول کی بات ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ نعش بھی کیا کسی معمولی فرد کی ہے۔

جسٹس شیلا ایک غیرمعمولی خاتون تھی، جو ایک غریب گھرانے سے ضرور تعلق رکھتی تھی، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر امریکہ کے اعلی ترین ادارے کی ممبر بنیں۔ ان کی موت کی حقیقی وجوہات معلوم کرنے میں تاخیر نہ صرف امریکی نظام پر سوال اٹھا رہی ہے بلکہ ان لوگوں کی اس سوچ کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ جسٹس شیلا نے خودکشی نہیں کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں