ایک خاص نشست
مایوسی کفر ہے، ہم سب اس لمحہ موجود کے لوگ نیک تمناؤں کے ساتھ زندہ ہیں اور اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدا کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
یادوں کے دریچے میں ایک شعر اور آکر ٹھہر گیا ہے جو آج کے حالات و واقعات کا عکاس ہے۔
خدا کسی کو بھی یہ خواب بد نہ دکھائے
نظر کے سامنے جلتا ہے آشیانہ اپنا
پورے ملک اور خصوصاً شہرکراچی کے منظرنامے نے اہل نظرکو فکرمندکردیا ہے اور یہ پریشان کن افکار آج سے نہیں بلکہ عرصہ دراز سے اذیت کا باعث ہیں۔کراچی کے والی وارث ہوتے ہوئے کراچی یتیم یتیم سا نظر آنے لگا ہے اس کے حسن، چین اور سکھ پر شب خون مارا اور دن دہاڑے بھی قتل و غارت اور ناانصافی کا بازار گرم کیا گیا۔ ساتھ میں شہر کے باسیوں کو بجلی اور پانی سے بھی ترسایا گیا، کراچی کا کچرا اٹھانا کسی جنگ عظیم کو فتح کرنے کے برابر ہوگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور نہ میئر اس بڑے مسئلے کو حل کرسکے ہیں اور نہ ہی دوسرے اہم ادارے، آخر وہ خاکروب اور کچرا کنڈیاں کہاں غائب ہوگئی ہیں، کیا یہ سب کچھ کسی سازش کے تحت ہو رہا ہے؟
کراچی کے بڑھتے اور ختم نہ ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے ممتاز قلمکار اور دانشور رضوان صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے مقررہ دن ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کو پروقار بنانے میں شہر بھرکے معززین نے شرکت کی اور تقریر کے ذریعے باشعور ہونے کا ثبوت دیا ۔ شہر قائد کا عظیم شہر ایک مدت سے مصائب اور ناانصافی و بددیانتی کی آگ میں سلگ رہا ہے غموں کی آگ نے دلوں کو جلایا اور سہانی شاموں اور پھولوں بھری رت کو بھی ۔
ہر سال موسم بہار آتا ہے لیکن کراچی کے مکین پورا سال خزاں کی لپیٹ میں رہتے ہیں بھلا ہو افواج پاکستان کا کہ ضرب عضب کی بدولت دل و زمین کی گھٹن میں کچھ کمی آئی ہے۔ اس خاص تقریب کا آغاز طاہر سلطانی نے آیات ربانی کی تلاوت اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ نعت پیش کیا، نعت کا مطلع ہے:
نعت اشکوں سے لکھوں اور سحر ہوجائے
زندگی ان کی ثنا میں ہی بسر ہوجائے
رضوان صدیقی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج کی محفل کسی کے کہنے پر نہیں سجائی ہے بلکہ ہم نے اس بے حسی اور سکوت کو توڑنے کی کوشش کی ہے،جو سالہا سال سے ظلم کی شکل میں موجود ہے اور یہ بات درست ہے کہ جب تک خاموشی کے ساتھ مار کھاتے رہیں گے، مارنے والے اپنا ہاتھ ہرگز نہ روکیں گے اس لیے اس جمود کو توڑنا ضروری تھا۔ اسی مقصد کے لیے اہم شعبوں سے منسلک شخصیات نے شرکت کی تھی۔
تقریب کے شرکا میں انوار صدیقی نے اپنی سوچ و فکر کا برملا اور بھرپور اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پارٹیاں برسر اقتدار آتے ہی اپنے لوگوں کی بھرتیاں کرنا شروع کردیتی ہیں یونیورسٹی اور دوسرے سرکاری اداروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ نااہل سفارشی لوگوں کو ملازم رکھا گیا، یہ لوگ منفی سرگرمیوں کو پروان چڑھاتے ہیں، دولت کے اعتبار سے اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں اور کراچی کے مقامی یہ تماشا دیکھنے پر مجبور ہیں۔کراچی کے نوجوانوں کی محرومیوں اور مظلومیت کو دیکھتے ہوئے بے اختیار فیض کے دعائیہ شعر یاد آ جاتے ہیں۔
اے خدائے بہاراں ذرا رحم کر
ان کی مردہ رگوں کو نمو بخش دے
ان کے تشنہ لبوں کو لہو بخش دے
کوئی ایک پیڑ پھر لہلہانے لگے
کوئی ایک نغمہ گر چہچہانے لگے
سندھ میں سب سے بڑا مسئلہ کوٹہ سسٹم تھا، میرٹ کو اہمیت دینا پاکستان کو ترقی دینے کے متبادل تھا، اس غیر منصفانہ رویے سے نوجوانوں کے علم اور صلاحیتوں پر ببانگ دہل ضرب لگائی اور احساس کمتری کو جنم دیا، اس تفریق، لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کو پروان چڑھانے میں کرپٹ سیاستدانوں کا مکمل طور پر ہاتھ ہے۔
سید اعجاز علی نوید ''جہد'' اخبار کے ایڈیٹر اور ایک سماجی ادارے کے فعال رکن ہیں، انھوں نے فرمایا کہ شہر کی حالت ناگفتہ بہ ہے، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنی آنیوالی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں؟ بہت ہی پیاری شخصیت محترمہ قمر النسا قمر صاحبہ نے رضوان صدیقی کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری غلطیاں بہت ہیں، آج کی نشست ایک راستہ بنا رہی ہے اس فکری نشست کا انعقاد معمولی بات نہیں ہے۔
نصرت مرزا کی گفتگو بھی ان کی تحریروں کی ہی طرح مدلل اور صداقت پر مبنی تھی، شرکا محفل سچ کے ہی دیے روشن کرنے اور کذب کی سیاہی کو دھونے کے لیے ہی جمع ہوئے تھے لیکن ڈاکٹر امجد نے صفائی اور کے الیکٹرک کے حوالے سے بات کو آگے بڑھایا۔ اور یہ حق ہے کہ کے الیکٹرک آنکھیں بند کرکے اپنے صارفین کو بل بھیجتی ہے بجلی مہیا کریں یا بلیک آؤٹ کی فضا کو قائم رکھیں بل میں کمی ہرگز نہیں ہوتی ہے۔ جس طرح دوسرے اہم اداروں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے اسی طرح کے الیکٹرک کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، سن لو کے ای کے افسران بالا نے مشورہ دیا کہ وکلا کا پینل بناکر مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہم دامے، درمے، سخنے آپ کے ساتھ ہیں۔
الیاس شاکر ایڈیٹر ''قومی'' اخبار نے بھی سسٹم کی تبدیلی پر زور دیا، انھوں نے فرمایا کہ ہم کراچی کا مسئلہ عدالت لے کر کیوں نہیں جاتے ہیں۔ اویس ادیب انصاری نے ایک شعر پڑھ کر اپنے افکار کی ترجمانی کی، شاہدہ عروج نے کراچی کی دہشتگردی اور خوف و ہراس کی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ جب کراچی سب کا ہے تو پورے ملک کو کراچی کے لیے سوچنا ہوگا۔
یوسف قائم خانی، پروفیسر حبیب، حاجی شفیق الرحمن اور دوسرے کئی اہم مقررین نے کراچی کی بدحالی، ٹرانسپورٹ اور شہر میں پھیلی ہوئی غلاظت اور کچرے کے انبار ، ترقیاتی کاموں، سڑکوں کی کھدائی، اور سیوریج سسٹم کے حوالے سے اپنے دلی جذبات اور ذہنی اذیت کو لفظوں کا جامعہ پہنایا۔سچے فنکار کا فن ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ فیض نے یہ نظم 1978 لندن میں کہی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی تازہ ہے اور غم دوراں کی عکاس نظر آتی ہے۔
پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو
شمعیں بے نور ہوگئی ہیں
آئینے چور ہوگئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پائلیں بجھ کے سو گئی ہیں
اور ان بادلوں کے پیچھے
دور اس رات کا دلارا
درد کا ستارہ
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے
مایوسی کفر ہے۔ ہم سب اس لمحہ موجود کے لوگ نیک تمناؤں کے ساتھ زندہ ہیں اور اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ایک دن حالات ضرور سازگار ہوں گے اللہ ضرور رحم فرمائے گا کہ نیتوں کی کھیتی رنگ لاتی ہے۔ پولیس اور حکومت بھی غیر نہیں ہے۔ کہ ایک ہی کنبے کے لوگ ہیں۔ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ ہم سب کو ایک روز اپنے اعمال نامے کے ساتھ اس بزرگ و برتر ہستی رب کائنات کے سامنے اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پھر شاید انصاف کا چراغ ضرور روشن ہوجائے گا۔
بہرحال متذکرہ نشست بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ اللہ کرے اپنی اپنی کاوشوں سے شہر کراچی پچھلے برسوں کی طرح چودھویں کے چاند کی طرح دمکنے لگے۔ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ مثبت سوچ مثبت عمل کو جنم دیتی ہے۔ قوموں کی کامیابی کا راز بھی فکر و نظر کی گہرائی میں مضمر ہے۔
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
یادوں کے دریچے میں ایک شعر اور آکر ٹھہر گیا ہے جو آج کے حالات و واقعات کا عکاس ہے۔
خدا کسی کو بھی یہ خواب بد نہ دکھائے
نظر کے سامنے جلتا ہے آشیانہ اپنا
پورے ملک اور خصوصاً شہرکراچی کے منظرنامے نے اہل نظرکو فکرمندکردیا ہے اور یہ پریشان کن افکار آج سے نہیں بلکہ عرصہ دراز سے اذیت کا باعث ہیں۔کراچی کے والی وارث ہوتے ہوئے کراچی یتیم یتیم سا نظر آنے لگا ہے اس کے حسن، چین اور سکھ پر شب خون مارا اور دن دہاڑے بھی قتل و غارت اور ناانصافی کا بازار گرم کیا گیا۔ ساتھ میں شہر کے باسیوں کو بجلی اور پانی سے بھی ترسایا گیا، کراچی کا کچرا اٹھانا کسی جنگ عظیم کو فتح کرنے کے برابر ہوگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور نہ میئر اس بڑے مسئلے کو حل کرسکے ہیں اور نہ ہی دوسرے اہم ادارے، آخر وہ خاکروب اور کچرا کنڈیاں کہاں غائب ہوگئی ہیں، کیا یہ سب کچھ کسی سازش کے تحت ہو رہا ہے؟
کراچی کے بڑھتے اور ختم نہ ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے ممتاز قلمکار اور دانشور رضوان صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے مقررہ دن ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کو پروقار بنانے میں شہر بھرکے معززین نے شرکت کی اور تقریر کے ذریعے باشعور ہونے کا ثبوت دیا ۔ شہر قائد کا عظیم شہر ایک مدت سے مصائب اور ناانصافی و بددیانتی کی آگ میں سلگ رہا ہے غموں کی آگ نے دلوں کو جلایا اور سہانی شاموں اور پھولوں بھری رت کو بھی ۔
ہر سال موسم بہار آتا ہے لیکن کراچی کے مکین پورا سال خزاں کی لپیٹ میں رہتے ہیں بھلا ہو افواج پاکستان کا کہ ضرب عضب کی بدولت دل و زمین کی گھٹن میں کچھ کمی آئی ہے۔ اس خاص تقریب کا آغاز طاہر سلطانی نے آیات ربانی کی تلاوت اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ نعت پیش کیا، نعت کا مطلع ہے:
نعت اشکوں سے لکھوں اور سحر ہوجائے
زندگی ان کی ثنا میں ہی بسر ہوجائے
رضوان صدیقی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج کی محفل کسی کے کہنے پر نہیں سجائی ہے بلکہ ہم نے اس بے حسی اور سکوت کو توڑنے کی کوشش کی ہے،جو سالہا سال سے ظلم کی شکل میں موجود ہے اور یہ بات درست ہے کہ جب تک خاموشی کے ساتھ مار کھاتے رہیں گے، مارنے والے اپنا ہاتھ ہرگز نہ روکیں گے اس لیے اس جمود کو توڑنا ضروری تھا۔ اسی مقصد کے لیے اہم شعبوں سے منسلک شخصیات نے شرکت کی تھی۔
تقریب کے شرکا میں انوار صدیقی نے اپنی سوچ و فکر کا برملا اور بھرپور اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پارٹیاں برسر اقتدار آتے ہی اپنے لوگوں کی بھرتیاں کرنا شروع کردیتی ہیں یونیورسٹی اور دوسرے سرکاری اداروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ نااہل سفارشی لوگوں کو ملازم رکھا گیا، یہ لوگ منفی سرگرمیوں کو پروان چڑھاتے ہیں، دولت کے اعتبار سے اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں اور کراچی کے مقامی یہ تماشا دیکھنے پر مجبور ہیں۔کراچی کے نوجوانوں کی محرومیوں اور مظلومیت کو دیکھتے ہوئے بے اختیار فیض کے دعائیہ شعر یاد آ جاتے ہیں۔
اے خدائے بہاراں ذرا رحم کر
ان کی مردہ رگوں کو نمو بخش دے
ان کے تشنہ لبوں کو لہو بخش دے
کوئی ایک پیڑ پھر لہلہانے لگے
کوئی ایک نغمہ گر چہچہانے لگے
سندھ میں سب سے بڑا مسئلہ کوٹہ سسٹم تھا، میرٹ کو اہمیت دینا پاکستان کو ترقی دینے کے متبادل تھا، اس غیر منصفانہ رویے سے نوجوانوں کے علم اور صلاحیتوں پر ببانگ دہل ضرب لگائی اور احساس کمتری کو جنم دیا، اس تفریق، لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کو پروان چڑھانے میں کرپٹ سیاستدانوں کا مکمل طور پر ہاتھ ہے۔
سید اعجاز علی نوید ''جہد'' اخبار کے ایڈیٹر اور ایک سماجی ادارے کے فعال رکن ہیں، انھوں نے فرمایا کہ شہر کی حالت ناگفتہ بہ ہے، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنی آنیوالی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں؟ بہت ہی پیاری شخصیت محترمہ قمر النسا قمر صاحبہ نے رضوان صدیقی کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری غلطیاں بہت ہیں، آج کی نشست ایک راستہ بنا رہی ہے اس فکری نشست کا انعقاد معمولی بات نہیں ہے۔
نصرت مرزا کی گفتگو بھی ان کی تحریروں کی ہی طرح مدلل اور صداقت پر مبنی تھی، شرکا محفل سچ کے ہی دیے روشن کرنے اور کذب کی سیاہی کو دھونے کے لیے ہی جمع ہوئے تھے لیکن ڈاکٹر امجد نے صفائی اور کے الیکٹرک کے حوالے سے بات کو آگے بڑھایا۔ اور یہ حق ہے کہ کے الیکٹرک آنکھیں بند کرکے اپنے صارفین کو بل بھیجتی ہے بجلی مہیا کریں یا بلیک آؤٹ کی فضا کو قائم رکھیں بل میں کمی ہرگز نہیں ہوتی ہے۔ جس طرح دوسرے اہم اداروں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے اسی طرح کے الیکٹرک کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، سن لو کے ای کے افسران بالا نے مشورہ دیا کہ وکلا کا پینل بناکر مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہم دامے، درمے، سخنے آپ کے ساتھ ہیں۔
الیاس شاکر ایڈیٹر ''قومی'' اخبار نے بھی سسٹم کی تبدیلی پر زور دیا، انھوں نے فرمایا کہ ہم کراچی کا مسئلہ عدالت لے کر کیوں نہیں جاتے ہیں۔ اویس ادیب انصاری نے ایک شعر پڑھ کر اپنے افکار کی ترجمانی کی، شاہدہ عروج نے کراچی کی دہشتگردی اور خوف و ہراس کی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ جب کراچی سب کا ہے تو پورے ملک کو کراچی کے لیے سوچنا ہوگا۔
یوسف قائم خانی، پروفیسر حبیب، حاجی شفیق الرحمن اور دوسرے کئی اہم مقررین نے کراچی کی بدحالی، ٹرانسپورٹ اور شہر میں پھیلی ہوئی غلاظت اور کچرے کے انبار ، ترقیاتی کاموں، سڑکوں کی کھدائی، اور سیوریج سسٹم کے حوالے سے اپنے دلی جذبات اور ذہنی اذیت کو لفظوں کا جامعہ پہنایا۔سچے فنکار کا فن ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ فیض نے یہ نظم 1978 لندن میں کہی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی تازہ ہے اور غم دوراں کی عکاس نظر آتی ہے۔
پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو
شمعیں بے نور ہوگئی ہیں
آئینے چور ہوگئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پائلیں بجھ کے سو گئی ہیں
اور ان بادلوں کے پیچھے
دور اس رات کا دلارا
درد کا ستارہ
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے
مایوسی کفر ہے۔ ہم سب اس لمحہ موجود کے لوگ نیک تمناؤں کے ساتھ زندہ ہیں اور اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ایک دن حالات ضرور سازگار ہوں گے اللہ ضرور رحم فرمائے گا کہ نیتوں کی کھیتی رنگ لاتی ہے۔ پولیس اور حکومت بھی غیر نہیں ہے۔ کہ ایک ہی کنبے کے لوگ ہیں۔ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ ہم سب کو ایک روز اپنے اعمال نامے کے ساتھ اس بزرگ و برتر ہستی رب کائنات کے سامنے اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پھر شاید انصاف کا چراغ ضرور روشن ہوجائے گا۔
بہرحال متذکرہ نشست بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ اللہ کرے اپنی اپنی کاوشوں سے شہر کراچی پچھلے برسوں کی طرح چودھویں کے چاند کی طرح دمکنے لگے۔ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ مثبت سوچ مثبت عمل کو جنم دیتی ہے۔ قوموں کی کامیابی کا راز بھی فکر و نظر کی گہرائی میں مضمر ہے۔