ہمارا آئی کیو لیول
عوام سے ٹیکس وصول کرکے ان پر ایک ٹکا سرکاری سطح سے خرچ نہیں کیا۔
جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر آئے تو اسلام آباد میں انھیں صدر مملکت کی طرف سے شاندار عشائیہ دیا گیا۔ اس دعوت میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔
ہنری کسنجر سے ضیا الحق نے تمام شرکا کا تعارف کرایا اور جب وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے پاس پہنچے تو جنرل الحق نے کہا ''یہ میرے عزیز ترین دوست جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کے بیٹے ہیں'' ہنری کسنجر نے بڑی گرم جوشی سے جاوید اقبال سے مصافحہ کیا، تعارف کے بعد کسنجر نے شرکا سے گپ شپ شروع کردی لیکن وہ جاوید اقبال میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ اس لیے کہ علامہ اقبال کے بارے میں ان کی معلومات واجبی تھی لہٰذا انھوں نے جاوید اقبال کو علامہ اقبال کہنا شروع کردیا اور تقریب کے آخر تک قومی شاعر کی حیثیت سے ان سے ان کے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرتے رہے جس سے جنرل ضیا الحق اور ڈاکٹر جاوید اقبال دونوں کی پوزیشن نازک ہوگئی کیونکہ اگر وہ وضاحت کرتے تو ہنری کسنجر جیسی بین الاقوامی شخصیت کی دل آزاری ہوتی اور اگر خاموش رہتے تو اخلاقاً اچھا نہیں لگتا۔ تاہم تھوڑی دیر کی کشمکش کے بعد دونوں نے ہی خاموشی کا فیصلہ کیا اور یوں ہنری کسنجر 1980 کی دہائی میں علامہ اقبال سے ملاقات اور گفتگو کا شرف حاصل کرکے واپس امریکا چلے گئے۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری نئی نسل جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے وہ بچے جنھیں والدین جینئس اور نہ جانے فخر سے کیا کیا کہتے ہیں انھیں قومی معلومات، قومی مشاہیر اور اکابرین کے بارے میں بنیادی باتیں تک معلوم نہیں یا اس حوالے سے ان کا آئی کیو لیول بہت گرا ہوا ہے۔
پاکستان کے بانیان اور صحیح معنوں کے قائدین اور قومی یا تاریخی دنوں کے بارے میں ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چنانچہ 23 مارچ ہو یا 14 اگست، 9 نومبر ہو یا 25 دسمبر یا پھرکوئی اور دن انھیں اس دن کی اہمیت کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہے اور ملک کی اکثریت 23 مارچ یا 14 اگست اور 25 دسمبر کو محض ''عام تعطیل'' سمجھ کر سوئے ہوئے یا سیر و تفریح کرکے گزار دیتی ہے۔
ہنری کسنجر تو علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کو شاعر مشرق سمجھتے رہے لیکن ہم سبھی نے علامہ اقبال کو ہی خاموش کردیا اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہم نے علامہ اقبال کو نئی نسل تک نہیں پہنچنے دیا۔ اقبال کا نصف کلام فارسی میں دفن ہوگیا اور باقی کو ہم نے لائبریریوں میں رکھوادیا اور لائبریریوں میں جانیوالوں کی تعداد کو انگلیوں پر با آسانی گنا جاسکتا ہے۔ کتنی بڑی منافقت ہے کہ ہم علامہ اقبال کو شاعر مشرق یا مصور پاکستان کہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی مصور کے بغیر ملک نہیں بن سکتے تو کیا مصوروں کے بغیر ملک خوبصورت ہوسکتے ہیں؟
ملک بھر میں اگست کی پہلی تاریخ سے ہی جشن آزادی کی تقریبات کا آغاز برسہا برس سے ہوجاتا ہے لیکن ''یوم آزادی'' کا انتظار ہی رہتا ہے جشن آزادی منایا جاتا رہتا ہے۔ اس طرح جس طرح ایک فٹ بال میچ لیٹ ہورہا تھا وجہ اس کی یہ تھی کہ جسے فٹ بال لینے کے لیے بھیجا تھا وہ ابھی گراؤنڈ میں پہنچا نہیں تھا۔ جب میچ میں کچھ زیادہ تاخیر ہوگئی تو ریفری نے منتظمین سے کہاکہ میچ شروع کیا جائے، منتظمین نے جواب دیا کہ فٹ بال تو ابھی آیا نہیں۔ ریفری نے کہا وہ آتا رہے گا آپ میچ شروع کریں۔
ہم بھی صدیوں سے آزادی کے بغیر یوم آزادی منارہے ہیں، گوروں سے آزادی حاصل کی تو کچھ ہی عرصے بعد کالوں کی غلامی میں آگئے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کالا صاحب گورے صاحب سے زیادہ حاکمانہ مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ کالوں نے ہماری درگت بنائی کہ گوروں کے خانسامے تک اپنے پرانے صاحب کو یاد کرنے لگے۔
یوم آزادی یا یوم پاکستان پر ہمارے حکمران ریڈیو، ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہیں، اخبارات میں بیان جاری کرتے ہیں اور اس خطاب میں عوام کو حب الوطنی کا درس دیا جاتا ہے، انھیں سادگی اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور ملک اور قوم کے استحکام کے لیے ان سے قربانیاں طلب کی جاتی ہیں لیکن ان تینوں نصیحتوں کے حوالے سے کوئی عملی نمونہ ان کی اپنی ذات کی طرف سے کبھی پیش نہیں کیا جاتا بلکہ الٹا ہر سال سرکاری محلات کی تزئین و آرائش ودیگر اخراجات کا بجٹ دگنا کردیا جاتا ہے۔
عوام سے ٹیکس وصول کرکے ان پر ایک ٹکا سرکاری سطح سے خرچ نہیں کیا جاتا، انھیں پینے کا پانی تک میسر نہیں آتا اور نہ انصاف اور قانون کا کوئی محکم تصور وطن عزیز میں پاییاجاتا ہے۔1947سے لے کر تادم تحریر تک حکومتوں سے لے کر حماقتوں تک آئین سے لے کر شناختی کارڈوں تک، نعروں سے لے کر موسموں تک، یہاں ہر چیز بدلتی رہتی ہے اگر نہیں بدلتی تو عوام کی تقدیر نہیں بدلتی، عوام کا مقدر ہے جو نہیں بدلتا اس لیے کہ وہ ان کا مقدر نہیں ہے بلکہ بنادیا گیا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زوال کی زد میں آئی ہوئی کچھ بدنصیب بستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں معذوروں کو منصب دیے جاتے ہیں، ناتجربے کاروں کو تجربہ کاروں، بدناموں کو نیک ناموں اور نا اہلوں کو اہلیت اور قابلیت والوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اپنا ذہن اور اپنی سوچ رکھنے والوں کے بجائے ''یس سر!'' آپ کے مخلص، خاکسار تلاش کیے جاتے ہیں جن کے سر اثبات میں ہلنے کے علاوہ اور کسی سمت میں ہلنا جانتے ہی نہیں، ریڑھ کی ہڈی اور ذاتی سوچ سے محروم یہ ترکاریاں اس لیے تلاش کی جاتی ہیں تاکہ اختلاف کا معمولی سا امکان بھی باقی نہ رہے اور ''سسٹم'' حسب منشا چلتا رہے جب کہ دوسری طرف انتہائی عروج کی طرف مائل پرواز بستیوں کی سب سے بڑی بنیادی اور فیصلہ کن خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بہترین دماغوں، اہل الرائے، تجربہ کاروں اور اناد صنعتوں کے لیے ماحول سازگار بناکر ان کے لیے راستے ہموار کرتی ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ زوال زدہ بستیوں سے زوال میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جب کہ ترقی یافتہ بستیوں کی ترقی کی رفتار ضربیں کھاتی رہتی ہے۔
وطن عزیز کا یہ بہت بڑا المیہ چلا آرہا ہے کہ یہاں حکمران طبقے کا ہر رد عمل حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد کا مرثیہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے سربراہ، وزرا، غیر ممالک سے دوائیں منگواکر کھاتے ہیں، ایک ملکی سربراہ کے پینے کا پانی فرانس سے آتا تھا، وزرا اور حکمرانوں کے بچے، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں غیر ممالک کی تعلیمی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا جس نے کبھی کسی سرکاری اسپتال سے علاج کرایا ہو، کسی حکومتی عہدے دار نے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ہو، حکمران وزرا کے گھروں میں آپ کو کہیں جنریٹر نہیں ملے گا ان کے ڈرائنگ روموں اور بیڈ روموں میں دور دور تک پاکستانی ثقافت نظر نہیں آئے گی۔
ہمارے ارباب اختیار، ہمارے حکمران ملک میں امن وامان کے دعویٰ کرتے ہیں لیکن خود محافظوں کی فوج کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے، عوام کو پاکستانی ہونے پر فخر کرنے کا درس دیتے ہیں۔ لیکن جُرابیں اور سگار تک امپورٹڈ استعمال کرتے ہیں۔برطانیہ میں وزیراعظم ٹریفک میں پھنس جائے تو وہ گاڑی چھوڑ کر ٹرین میں دفتر چلا جاتا ہے، جس اسکول میں معمولی پلمبر کے بچے پڑھتے ہیں۔
وزیراعظم برطانیہ کے بچے بھی اسی اسکول میں پڑھتے ہیں، اس کلاس روم، اسی ٹیچر سے وہی کتابیں پڑھتے ہیں جن بسوں پر باتھ روم صاف کرنیوالے سوئپر سفر کرتے ہیں وہاں کے وزیر ٹرانسپورٹ بھی ان ہی بسوں میںدفتر آتے اور جاتے ہیں یہ کتنی بڑی منافقت ہے کہ ہم ان لوگوں سے جمہوریت لینے کی کوشش تو کرتے ہیں ان کے اچھے کاموں کو پسند کرتے ہیں ان کی طرح انگریزی بولنے کی صحیح اور غلط کوشش کرتے ہیں، ان ہی کی طرح سوٹ بھی پہنتے ہیں لیکن ہم نے کبھی ان کی سوچ، ان کے رویوں اور نظام پر ان کے اعتماد کو کبھی کاپی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
افسوس آج 70 سال بعد بھی ہم اسی دور میں زندہ ہیں جس میں حکمران اپنے ور اپنے خاندان کو دنیا کی بہترین اور کو بد ترین مخلوق سمجھتے ہیں جس میں زمین کی ہر خوبی حکمران اور خرابی رعایا کے لیے ہوتی ہے، جس میں حکمران خاکی ہوکر بھی اپنی فطرت میں نوری ہوتا ہے اور ہم عوام نوری ہوکر بھی خاکی ہی رہتے ہیں۔
جس دن ہمارے حاکموں نے اپنی خواہشات پر پاکستان کے کروڑوں عوام کی خواہشات کو قربان کرنے کا سلسلہ ختم کردیا وہ دن صحیح معنوں میں آزادی کا دن ہوگا۔
ہنری کسنجر سے ضیا الحق نے تمام شرکا کا تعارف کرایا اور جب وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے پاس پہنچے تو جنرل الحق نے کہا ''یہ میرے عزیز ترین دوست جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کے بیٹے ہیں'' ہنری کسنجر نے بڑی گرم جوشی سے جاوید اقبال سے مصافحہ کیا، تعارف کے بعد کسنجر نے شرکا سے گپ شپ شروع کردی لیکن وہ جاوید اقبال میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ اس لیے کہ علامہ اقبال کے بارے میں ان کی معلومات واجبی تھی لہٰذا انھوں نے جاوید اقبال کو علامہ اقبال کہنا شروع کردیا اور تقریب کے آخر تک قومی شاعر کی حیثیت سے ان سے ان کے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرتے رہے جس سے جنرل ضیا الحق اور ڈاکٹر جاوید اقبال دونوں کی پوزیشن نازک ہوگئی کیونکہ اگر وہ وضاحت کرتے تو ہنری کسنجر جیسی بین الاقوامی شخصیت کی دل آزاری ہوتی اور اگر خاموش رہتے تو اخلاقاً اچھا نہیں لگتا۔ تاہم تھوڑی دیر کی کشمکش کے بعد دونوں نے ہی خاموشی کا فیصلہ کیا اور یوں ہنری کسنجر 1980 کی دہائی میں علامہ اقبال سے ملاقات اور گفتگو کا شرف حاصل کرکے واپس امریکا چلے گئے۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری نئی نسل جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے وہ بچے جنھیں والدین جینئس اور نہ جانے فخر سے کیا کیا کہتے ہیں انھیں قومی معلومات، قومی مشاہیر اور اکابرین کے بارے میں بنیادی باتیں تک معلوم نہیں یا اس حوالے سے ان کا آئی کیو لیول بہت گرا ہوا ہے۔
پاکستان کے بانیان اور صحیح معنوں کے قائدین اور قومی یا تاریخی دنوں کے بارے میں ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چنانچہ 23 مارچ ہو یا 14 اگست، 9 نومبر ہو یا 25 دسمبر یا پھرکوئی اور دن انھیں اس دن کی اہمیت کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہے اور ملک کی اکثریت 23 مارچ یا 14 اگست اور 25 دسمبر کو محض ''عام تعطیل'' سمجھ کر سوئے ہوئے یا سیر و تفریح کرکے گزار دیتی ہے۔
ہنری کسنجر تو علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کو شاعر مشرق سمجھتے رہے لیکن ہم سبھی نے علامہ اقبال کو ہی خاموش کردیا اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہم نے علامہ اقبال کو نئی نسل تک نہیں پہنچنے دیا۔ اقبال کا نصف کلام فارسی میں دفن ہوگیا اور باقی کو ہم نے لائبریریوں میں رکھوادیا اور لائبریریوں میں جانیوالوں کی تعداد کو انگلیوں پر با آسانی گنا جاسکتا ہے۔ کتنی بڑی منافقت ہے کہ ہم علامہ اقبال کو شاعر مشرق یا مصور پاکستان کہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی مصور کے بغیر ملک نہیں بن سکتے تو کیا مصوروں کے بغیر ملک خوبصورت ہوسکتے ہیں؟
ملک بھر میں اگست کی پہلی تاریخ سے ہی جشن آزادی کی تقریبات کا آغاز برسہا برس سے ہوجاتا ہے لیکن ''یوم آزادی'' کا انتظار ہی رہتا ہے جشن آزادی منایا جاتا رہتا ہے۔ اس طرح جس طرح ایک فٹ بال میچ لیٹ ہورہا تھا وجہ اس کی یہ تھی کہ جسے فٹ بال لینے کے لیے بھیجا تھا وہ ابھی گراؤنڈ میں پہنچا نہیں تھا۔ جب میچ میں کچھ زیادہ تاخیر ہوگئی تو ریفری نے منتظمین سے کہاکہ میچ شروع کیا جائے، منتظمین نے جواب دیا کہ فٹ بال تو ابھی آیا نہیں۔ ریفری نے کہا وہ آتا رہے گا آپ میچ شروع کریں۔
ہم بھی صدیوں سے آزادی کے بغیر یوم آزادی منارہے ہیں، گوروں سے آزادی حاصل کی تو کچھ ہی عرصے بعد کالوں کی غلامی میں آگئے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کالا صاحب گورے صاحب سے زیادہ حاکمانہ مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ کالوں نے ہماری درگت بنائی کہ گوروں کے خانسامے تک اپنے پرانے صاحب کو یاد کرنے لگے۔
یوم آزادی یا یوم پاکستان پر ہمارے حکمران ریڈیو، ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہیں، اخبارات میں بیان جاری کرتے ہیں اور اس خطاب میں عوام کو حب الوطنی کا درس دیا جاتا ہے، انھیں سادگی اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور ملک اور قوم کے استحکام کے لیے ان سے قربانیاں طلب کی جاتی ہیں لیکن ان تینوں نصیحتوں کے حوالے سے کوئی عملی نمونہ ان کی اپنی ذات کی طرف سے کبھی پیش نہیں کیا جاتا بلکہ الٹا ہر سال سرکاری محلات کی تزئین و آرائش ودیگر اخراجات کا بجٹ دگنا کردیا جاتا ہے۔
عوام سے ٹیکس وصول کرکے ان پر ایک ٹکا سرکاری سطح سے خرچ نہیں کیا جاتا، انھیں پینے کا پانی تک میسر نہیں آتا اور نہ انصاف اور قانون کا کوئی محکم تصور وطن عزیز میں پاییاجاتا ہے۔1947سے لے کر تادم تحریر تک حکومتوں سے لے کر حماقتوں تک آئین سے لے کر شناختی کارڈوں تک، نعروں سے لے کر موسموں تک، یہاں ہر چیز بدلتی رہتی ہے اگر نہیں بدلتی تو عوام کی تقدیر نہیں بدلتی، عوام کا مقدر ہے جو نہیں بدلتا اس لیے کہ وہ ان کا مقدر نہیں ہے بلکہ بنادیا گیا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زوال کی زد میں آئی ہوئی کچھ بدنصیب بستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں معذوروں کو منصب دیے جاتے ہیں، ناتجربے کاروں کو تجربہ کاروں، بدناموں کو نیک ناموں اور نا اہلوں کو اہلیت اور قابلیت والوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اپنا ذہن اور اپنی سوچ رکھنے والوں کے بجائے ''یس سر!'' آپ کے مخلص، خاکسار تلاش کیے جاتے ہیں جن کے سر اثبات میں ہلنے کے علاوہ اور کسی سمت میں ہلنا جانتے ہی نہیں، ریڑھ کی ہڈی اور ذاتی سوچ سے محروم یہ ترکاریاں اس لیے تلاش کی جاتی ہیں تاکہ اختلاف کا معمولی سا امکان بھی باقی نہ رہے اور ''سسٹم'' حسب منشا چلتا رہے جب کہ دوسری طرف انتہائی عروج کی طرف مائل پرواز بستیوں کی سب سے بڑی بنیادی اور فیصلہ کن خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بہترین دماغوں، اہل الرائے، تجربہ کاروں اور اناد صنعتوں کے لیے ماحول سازگار بناکر ان کے لیے راستے ہموار کرتی ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ زوال زدہ بستیوں سے زوال میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جب کہ ترقی یافتہ بستیوں کی ترقی کی رفتار ضربیں کھاتی رہتی ہے۔
وطن عزیز کا یہ بہت بڑا المیہ چلا آرہا ہے کہ یہاں حکمران طبقے کا ہر رد عمل حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد کا مرثیہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے سربراہ، وزرا، غیر ممالک سے دوائیں منگواکر کھاتے ہیں، ایک ملکی سربراہ کے پینے کا پانی فرانس سے آتا تھا، وزرا اور حکمرانوں کے بچے، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں غیر ممالک کی تعلیمی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا جس نے کبھی کسی سرکاری اسپتال سے علاج کرایا ہو، کسی حکومتی عہدے دار نے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ہو، حکمران وزرا کے گھروں میں آپ کو کہیں جنریٹر نہیں ملے گا ان کے ڈرائنگ روموں اور بیڈ روموں میں دور دور تک پاکستانی ثقافت نظر نہیں آئے گی۔
ہمارے ارباب اختیار، ہمارے حکمران ملک میں امن وامان کے دعویٰ کرتے ہیں لیکن خود محافظوں کی فوج کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے، عوام کو پاکستانی ہونے پر فخر کرنے کا درس دیتے ہیں۔ لیکن جُرابیں اور سگار تک امپورٹڈ استعمال کرتے ہیں۔برطانیہ میں وزیراعظم ٹریفک میں پھنس جائے تو وہ گاڑی چھوڑ کر ٹرین میں دفتر چلا جاتا ہے، جس اسکول میں معمولی پلمبر کے بچے پڑھتے ہیں۔
وزیراعظم برطانیہ کے بچے بھی اسی اسکول میں پڑھتے ہیں، اس کلاس روم، اسی ٹیچر سے وہی کتابیں پڑھتے ہیں جن بسوں پر باتھ روم صاف کرنیوالے سوئپر سفر کرتے ہیں وہاں کے وزیر ٹرانسپورٹ بھی ان ہی بسوں میںدفتر آتے اور جاتے ہیں یہ کتنی بڑی منافقت ہے کہ ہم ان لوگوں سے جمہوریت لینے کی کوشش تو کرتے ہیں ان کے اچھے کاموں کو پسند کرتے ہیں ان کی طرح انگریزی بولنے کی صحیح اور غلط کوشش کرتے ہیں، ان ہی کی طرح سوٹ بھی پہنتے ہیں لیکن ہم نے کبھی ان کی سوچ، ان کے رویوں اور نظام پر ان کے اعتماد کو کبھی کاپی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
افسوس آج 70 سال بعد بھی ہم اسی دور میں زندہ ہیں جس میں حکمران اپنے ور اپنے خاندان کو دنیا کی بہترین اور کو بد ترین مخلوق سمجھتے ہیں جس میں زمین کی ہر خوبی حکمران اور خرابی رعایا کے لیے ہوتی ہے، جس میں حکمران خاکی ہوکر بھی اپنی فطرت میں نوری ہوتا ہے اور ہم عوام نوری ہوکر بھی خاکی ہی رہتے ہیں۔
جس دن ہمارے حاکموں نے اپنی خواہشات پر پاکستان کے کروڑوں عوام کی خواہشات کو قربان کرنے کا سلسلہ ختم کردیا وہ دن صحیح معنوں میں آزادی کا دن ہوگا۔