کسی کی ہار ہوئی کسی کی جیت
ہمارا وزیرِاعظم آنے والے دنوں میں ججز کی تشکیل کردہ ایک جے آئی ٹی کا سامنا کر رہا ہوگا، یہ کیسا لگے گا؟
ان کا آغازگوڈ فادر فلم کا ایک جملہ تھا ،میرا حوالہ دلیپ کمار اور نرگس کی مشہورِ زمانہ فلم انداز سے ہے، قارئینِ کرام پانامہ لیکس پر فیصلہ کچھ ایسا حیران کن بھی نہیں۔ فیصلے پر تبصرے تجزیئے صبح و شام جاری ،ہر طرح کی آراء آپکے سامنے ۔بلکہ کہنا چاہیے متبادل فیصلے جو ہوسکتے تھے بھائی لوگوں کو اس کا موقع دیا جائے،کچھ اسطرح کہنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے، خیر جو ہوا اسے اچھا ہی کہنا چاہیے، انسان بہرحال غلطیوں کا پتلا ہے۔
ایسا فیصلہ ممکن نہیں جو سبھی کی تسلی کا باعث ہو، کسی ایک کو تو زحمت اٹھانی ہی پڑتی ہے لیکن حق پر مبنی کیا تھا ؟اسے اپنے انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے ،کیا بھی جارہا ہے، مختلف وکلا ،قانونی ماہرین فیصلے پر بحث کر رہے ہیں جو غلط نہیں، اس طرح فیصلہ سازوں کو بھی فیصلے پر ایک ناقدانہ نقطہ نظر مل جائے گا۔ لیکن مستقبل میں کیا ہونے جارہا ہے اصل مدعا یہ ہے ہمارے زیرک سیاست دان ، فہم وفراست والے،محبِ وطن، ایماندار ،عوام کے خیر خواہ کیا کرنے جارہے ہیں؟ ملک پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ بھی سوال کی صورت ہے۔
دنیا ہمیں آج کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟ ہمارا وزیرِاعظم آنے والے دنوں میں ججز کی تشکیل کردہ ایک جے آئی ٹی کا سامنا کر رہا ہوگا، یہ کیسا لگے گا؟یہ سب اور بہت کچھ ...کے لیے کچھ انتظار تو بنتا ہے بھائی،، پھر الیکشن پر اس فیصلے کے اثرات کا جائزہ بھی ضروری ہے، عوام النّاس اب کیا سوچتے ہیں؟کیا وہ حکومت سے دور ہوگئے، کیا ان کی سوچ میں کوئی انقلابی تبدیلی رونماء ہوئی ؟اگر قصے کو مختصر کیا جائے، بات کو صاف ۔ تو ... پھر کچھ نہیں بدلا ۔صورتحال میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں،رتی برابر نہیں۔اس لیے کہ ابھی 25 مزید سال درکار ہوں گے یعنی پانچ متواتر الیکشن ۔۔میرے عزیز ہم وطنوں والی تقریرکے بغیر۔تب کہیں جاکر عوام کا مزاج جمہوریت سے قریب ہوگا۔اور وہ صحیح غلط کی پہچان کرسکیں گے۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ قدرت سے اتنی ہی زندگی اور مانگ لائیں تو ان کی بات بن جائے گی۔ ورنہ تو میں نے اب بھی کئی بار لوگوں کو کہتے سنا کہ ــ(حل آرمی) ہے، مارشل لاء لگنا چاہیے۔ یہ جمہوری سیاستداں ہونہہ، یہ ملک چلائیں گے؟ نہیں بھائی ان سے نہ چلے گا۔
پانامہ لیکس ایک موضوع ہے مجھے اس سے انکار نہیںجو کچھ دنوں کے لیے ہاتھ آگیا لوگوں کے ،بلکہ سب سے زیادہ میڈیا کے لیکن اگر اس سے کسی انقلاب کی توقع کی جارہی ہے تو وہ عبث ہے ابھی دور اذکار کی بات۔
قارئینِ کرام! اس میں کسے کیا ملا ؟کس نے کیا کھویا ؟یہ البتہ بہت صاف ہے، میرے نقطہ نظر سے نقصان صرفمسلم لیگ ن کی قیادت اور ان کی جماعت کا ہوا،ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ان کے امیج کو نقصان پہنچا۔دیکھا جائے تو ماضی کے مقابلے میں اس نقصان نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو ہلا مارا، حالانکہ جیسا میں پہلے کہہ چکا کہ ابھی اس کے اثرات کہیں پر بھی نمایاں نہیں،لیکن جب بھی ہوئے میاں صاحب و اہلِ خانہ اس کی زد میں ضرورآئیں گے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور حاصل ہوا عمران خان کو،ایک طرح سے وہ جیت گئے۔ان کی اس کوشش و کاوش کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کو ہر سطح پر دھچکا پہنچا، اب وہ عوام ہوں یا خواص کا کوئی طبقہ۔
اخلاقی طور پر ان کے اس شبہے کی تصدیق ہوئی جسے وہ پچھلے سات برسوں سے اپنی ہر تقریر میں دہرا رہے تھے۔ کہ حکمران کرپٹ ہیں، موجودہ اور سابق حکمران فیملی نے ملک کو لوٹا ہے ، باہر بینکوں میں رکھے ان کے اربوں ڈالرز کو ملک میں لانا چاہیے،اگرچہ اسلام جائیداد رکھنے یا امارت کے خلاف نہیں،لیکن اسے قطعی جائز ہونا چاہیے۔بالخصوص ایک حکمراں پر اس کے اطلاق کے لیے دین میں سخت ترین ہدایات ہیں۔کیونکہ اسے ریاست چلانی ہوتی ہے،ایک طرزِ معاشرت قائم کرنا اس کی ذمے داری ہے۔ لہذا بقول شاعر ،،
ہماری جان پر دہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
اپوزیشن کی جانب سے وزیرِاعظم کے استعفے کا مطالبہ ان تحفظات کو لے کر کہ ان کی موجودگی میںعدالت کی جانب سے قائم کردہ جے آئی ٹی جس کے اراکین خود ان ہی کے ماتحت ہوتے ہیںایک طرح سے جائز نہیں لگتا کیونکہ اگر وزیر اعظم وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی بھی ہوجائیں، دوسرا وزیرِاعظم ان ہی کی جماعت سے بلکہ اغلبً ان کی فیملی سے ہوگا،کام تو اسکو بھی وہی کرنا ہے۔
آپ کے وسوسوں کا علاج تو نہ ہوسکا! میرے نقطہ نظر سے یہاں آپ کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا ہوگا ۔ورنہ معاملہ لنگر آن ہونے کا عین امکان دکھائی دیتا ہے۔گویا اسی روا روی میں الیکشن آن کھڑا ہوگا اور آپ مصروف ہوجائیں گے،اس سے بہتر ہے کہ جو ہوا اسے کافی سمجھ لیا جائے، ویسے بھی اپنے یہاں سزا کی تاریخ کوئی اتنی متاثر کن نہیں،حال ہی میں کئی 4,5 سو ارب والے چھوٹے ہیں،حتیٰ کہ حج کرپشن والے بھی رہائی پاگئے۔
آپ کا مطمع نظر الیکشن 2018 میں حقائق عوام کے سامنے رکھنا تھا کسی حد تک اس میں کامیابی نصیب ہوئی ،باقی عوام پر ہی چھوڑ دیجیے کہ وہ اپنے لیے کس طرح کے حکمران چاہتے ہیں۔اور اگر اب انھیں شعور آگیا تو بسم اللہ آپ کا کام ہوگیا، لیکن یہ یاد رکھنے کا مرحلہ بھی ہمیں درپیش ہے کہ یہ وہی وقت ہے جب دنیا خاص طور پر کچھ پڑوسی ممالک ہمیں چار اطراف سے گھیر رہے ہیں،ان کی آنکھیں ہمہ وقت ہماری کسی ایسی کمزوری پر مرکوز ہیں جسے بنیاد بناکر وہ ہم پر عالمی پابندیاں عائد کردیںیا چڑھ دوڑیں۔
پانامہ لیکس میڈیا سمیت کئی اداروں کے لیے enjoing issueہوسکتا ہے ،میں اس پر کسی تبصرے ،تجزیے کا مخالف نہیں ،ہونا چاہیے یہ بھی بہرحال ہماری سلامتی کا معاملہ ہے،کرپشن نے ہمیں ترقّیِ نہیں کرنے دی سچ ہے لیکن اس سے زیادہ سچ کیا ہے اسے بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ،اور جس کا آغاز دکھائی دیتا ہے۔میں اس موقعے پر عمران خان سے یہ استدعا بھی ضرور کرنے کی جسارت کروں گاکہ محترم اقتدار کی خواہش جائز ہے ، لیکن صرف اقتدار کی خواہش غلط۔
آپ پانامہ کے فیصلے سے ابتک کے اپنے غلط فیصلوں پر چادر نہیں تان سکتے ،آپکی سیاست پر اگر کوئی ایک جملہ کہنے کے لیے کہا جائے تو بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کا حصول،کسی بھی حالت میں کسی بھی صورت میں،کچھ بھی ہو ،معذرت کے ساتھ کہنا ہوگا اسمیں ہمیں کبھی ہم یعنی عوام نظر آئے نہ ملک اس میں دکھائی دیتے ہیں،پی ٹی آئی حکومت ،وزارتِ عظمًی۔شاید اسی لیے یہ تحریک ابھی بس تحریک ہی ہے۔ شاید عوام کو اسمیں ایک مسیحا کے بجائے وزیرِاعظم دکھائی دیتا ہے۔
آپ کو یہ رجحان بدلنا ہوگا ،اپنے دعوؤںکیمطابق جسمیں آپ کا کردار ٹارزن کا ہے ، سپر مین کا ہے،گویا مسائل میں گھری عوام، مہنگائی میں پسے ہوئے ،بھوک سے مرتے، سسکتے لوگوں میں آپ اچانک نمودار ہوتے ہیں اور سب ٹھیک کردیتے ہیں۔میرے محترم خان بظاہر یا ابھی آپکی سیاست معذرت کے ساتھ اس قابل دکھائی نہیں دیتی، ابھی تو آپکے گردو پیش بہت سے راسپوتن نظر آتے ہیں، اگلے الیکشن سے قبل آپکو بہت کچھ بدلنا ہوگا اگر چاہتے ہیں کہ عوامی نتیجہ حاصل کریں۔
پانامہ لیکس کا فیصلہ تو ایک پہلو ہے،صحیح اور غلط کے بیچ تفریق کرنے کا ۔اس سے آگے کا مرحلہ ابھی باقی ہے،کہ وہ مسیحا کہاں ہے ؟جو زندگیوں کو بدل دے ۔جو حقیقی معنوں میں عوام کے لیے جیتا مرتا ہو،جو گزرے ہوئے 70 برسوں کے بعد اللہ کی جانب سے انعام بن کر آیا ہو۔
فی الحال نہ تو آپ کو دیکھ کر اس کا احساس ہوتا ہے نہ آپکی جماعت کے طرزِ عمل کو۔ہاں ایک ضد دکھائی دیتی ہے ،ایک ایسا ولولہ جو کسی بھی قیمت پر حکومت کے حصول کے لیے ہے،جسمیں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے ۔پارلیمنٹ پر حملے سمیت کچھ بھی۔۔کسی کو چور کہنے سے یا چلیے ثابت بھی کردینے سے آپ پر ایمانداری کا لیبل چسپاں نہیں ہوجاتا۔خود کو ثابت کرنا ہوگاہر پہلو سے ،ہر زاویہ نظر سے۔۔۔۔
قارئینِ کرام یہاں اس موڑ پر عوام کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے اور اسے اب بلند بانگ آواز میں ہی کہنا ہوگا کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟کیا ہمارا انتخاب بہت فرسودہ ہوچکا ؟کیا ہم سوچنے سمجھنے کی ہر حس سے محروم ہوچکے؟کیا ہم ایسے لوگ ہیں جو کبھی اپنی صفوں میں سے اپنا دکھ درد سمجھنے والے متوسط طبقے کے نمائندگان کو نہیں چنیں گے؟ اور مستقل آہ وزاری میں مصروف، روتے دھوتے کہتے رہیں گے، ارے لوٹ لیا، مار دیا، ظالم ہیں، انھیں کیا احساس یہ تو اربوں پتی کھربوں پتی ہیں،یہ غریب کا دکھ کیا جانیں۔میں اکثر سوچتا ہوں ،غریب کا دکھ کیا ہے؟لیکن میں جانتا بھی ہوں کہ وہ کیا ہے؟ خود غریب قوت فیصلہ سے محروم، چمک، دولت، دھواں اڑاتی، چمچماتی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتا ہوا غریب۔