مطالعہ ضروری ہے

نہ جانیں کتابیں کہاں کھو گئی ہیں۔

نہ جانیں کتابیں کہاں کھو گئی ہیں۔ فوٹو: نیٹ

BANGALORE, INDIA:
کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے ہر دور، ہر زمانے میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔

انسانی تہذیب کے ہر دور میں کتاب کو بلند مقام حاصل رہا ہے۔ دراصل کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگار ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں بحر حیات کی وہ سیپیاں ہیں جن میں پراسرار موتی بند ہیں۔ کتابیں معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں۔ کتاب ایک ایسی روشنی ہے جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی بھی لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا، لیکن اگر بات آج کے دور کی ہو تو آج کے دور میں کتابوں کی اہمیت کہیں کھو سی گئی ہے۔ سبھی طالب علم اپنے کورس کے علاوہ دیگر کتاب پڑھنا بہت مشکل سمجھتے ہیں۔

یہ باعثِ فکر ہے کہ ہم مطالعے سے دور ہو گئے ہیں اور یہ شوق خطرناک حد تک زوال پذیر ہو گیا ہے۔ اس کی اہم وجہ معاشرے میں پیدا ہونے والی وہ تبدیلی ہے جس کے باعث ہر فرد کم سے کم وقت اور کم سے کم محنت کرکے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے فکر میں لگ گیا ہے۔ منہگائی کی وجہ سے لوگوں میں قوتِ خرید باقی نہیں رہی۔ والدین نے اپنے بچوں کو کتابیں دلوانا چھوڑ دی ہیں۔

طالب علموں نے خود کو صرف نصابی ضروریات کی تکمیل اور امتحان پاس کرنے تک محدود کرلیا ہے۔ وہ نصابی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے پر راضی نہیں ہوتے۔ سرکاری اسکولوں میں لائبریری کا نام و نشان باقی نہیں رہا اور جن اسکولوں میں لائبریریاں ہیں، وہاں بھی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں، کیوں کہ ان اسکولوں کو حکومت فنڈز نہیں دیتی۔ دیگر پڑھے لکھے لوگ بھی اپنا زیادہ تر وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ کی نذر کردیتے ہیں۔

اپنے بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وقتاًفوقتاً لائبریری لے جائیں یا انہیں لائبریری جانے کی نصیحت کریں۔ اس حوالے سے لائبریرین حضرات کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابوں اور لائبریریوں سے واقف کرائیں، تاکہ ان میں مطالعے کا ذوق پروان چڑھ سکے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی بچوں کے سامنے کسی کتاب کا مطالعہ کریں، تاکہ بچے ان کی تقلید کریں۔

والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مطالعے کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کلاس میں نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی، دل چسپ اور معلوماتی کتابوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنی چاہیے۔ ٹیچرز کا فرض ہے کہ وہ اپنے اسٹوڈنٹس کو مطالعے کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں۔ کتب خانے ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ انسان کتابوں کی دنیا میں نہ صرف اپنی پریشانیوں کو بھول جاتا ہے، بلکہ اس کی سوچ اور فکر میں بھی وسعت آجاتی ہے۔ اس کا دامن علم سے بھر جاتا ہے، کیوں کہ اس کے اندر شعور بھی پیدا ہو جاتا ہے۔


مہنگائی کے اس دور میں اکثر طلبہ و طالبات کے لیے کتابیں خریدنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن بھی ہوگیا ہے۔ اپنے گھر میں کتب خانہ بنانا بھی اب بس ایک سوچ ہی ہے۔ اس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک شخص بہ آسانی جدید کتابوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کتابیں بہترین رفیق زندگی ہیں۔ کتاب زندگی کی تلخیوں میں حلاوت پیدا کرتی ہے۔ اس سے وقت بہلتا، احساس سنورتا، فکر نکھرتا اور ذوق شگفتہ ہوجاتا ہے۔

تعلیم اور کتب خانے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کوئی بھی تعلیمی درس گاہ ایک منظم کتب خانے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہوسکتیں لہٰذا تحقیقی ضروریات کے لیے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے جنھیں منظم تعلیمی کتب خانوں کی صورت میں رکھا جاسکتا ہے۔ علم کے حصول کے لیے ہمارا سب سے بڑا ذریعہ اسکول، کالج، یونیورسٹی ہیں مگر ان میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔

تعلیمی ادارے علم کی انتہا نہیں، بلکہ طلبہ و طالبات یہاں اپنے راستوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ علمی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ صرف کتب خانے ہیں۔ کتب خانے اس لیے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ صحیح معنوں علم کے حصول کا ذریعہ یہی ہیں۔ یہ بات کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک راستہ تعلیمی ادارے سے نکلتا ہے تو کتب خانے میں آکر ختم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ معلومات کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہاں پر ہر قسم کا علم بغیر کسی رکاوٹ اور پابندی کے مل جاتا ہے۔

مطالعے کے فروغ میں لائبریری کا کردار بہت اہم ہے۔ کتب خانے اپنے قارئین کی علمی ضروریات کی تکمیل کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ اگر لائبریری میں قارئین نہیں ہوں گے تو اس کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو کتابوں کی اہمیت سے واقف کروایا جائے۔ لائبریری کی تر تیب اور تنظیم بھی لائبریری استعمال کرنے والے پر اچھا اثر ڈالتی ہے۔ لائبریری میں وقفے وقفے سے کتابوں کی نمائش، مختلف موضوعات پر ماہرین کے لیکچر، سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کرکے مطالعے کا شوق پیدا کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے ملک میں بہت سے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں سرے سے لائبریری کا وجود ہی نہیں ہے۔ نوجوان نسل کی کتب خانوں سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاید ان کے کرتا دھرتا اس کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں اور چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں تعلیمی ادارے قائم کر کے صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ یہ لوگ طلبہ میں علم کی اہمیت اجاگر نہیں کررہے، اسی لیے طلبہ و طالبات اپنا وقت دوسرے فضول کاموں میں ضائع کررہے ہیں، جب کہ ان کا رجحان اگر ٹھیک طرح سے تعلیم کی طرف ہو تو یہ مستقبل میں ہمارے ملک کی بہتری کے کام آسکتا ہے۔

ہمارے ملک میں بہت سے طلبہ تعلیم کی طرف مناسب راہ نمائی نہ ملنے کی وجہ سے فنی ہنر سیکھنے پر مائل ہو جاتے ہیں، تاکہ روزگار کے حصول میں آسانی ہوسکے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی توجہ نصابی کتب سے ہٹ کر دیگر موضوعات کا مطالعہ کرنے کی طرف نہیں کرائی جاتی جس کی وجہ سے وہ تعلیم کو بوجھ سمجھ کر اس سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔

آج کے بچے ہی کل کے ذمے دار اور اچھے شہری ہوں گے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ ان میں مطالعے کی عادت پختہ ہوجائے اور وہ تمام عمر حصول علم میں مگن رہیں۔ لائبریریوں کی تعداد ہمارے ملک میں بہت کم ہے اور جو ہیں، ان پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ لائبریریوں کا ماحول بہتر کرنے پر توجہ دیں، تاکہ ہر شخص کے لیے مطالعہ کرنا آسان ہوجائے۔
Load Next Story