رینجرز نے شہر قائد کو بڑی تباہی سے بچا لیا

پولیس کے تفتیشی یونٹس اور انٹیلیجنس نیٹ ورک ایک بار پھر ناکام۔


کاشف ہاشمی April 30, 2017
 گنجان علاقے میں رہائش پذیرتینوں دہشت گرد مقابلہ میں مارے گئے، 4 اہلکار بھی زخمی۔ فوٹو : آن لائن /فائل

شہر قائد کے گنجان آباد علاقے اردو بازار میں کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کی موجودگی نے پولیس کے تفتیشی یونٹس اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کی ایک بار پھر سے قلعی کھول دی۔

رینجرز سندھ کی فوری کارروائی نے نہ صرف شہر کو دہشت گردی کی بڑی تباہی سے بچا لیا بلکہ رینجرز نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحتیوں اور کارکردگی کا مظاہرہ ایسے موقع پر کر دکھایا جب حکومت سندھ کی جانب سے چند روز قبل ہی ان کے اختیارات میں توسیع کی گئی تھی جبکہ اس سے قبل اختیارات میں توسیع نہ کرنے کے باعث رینجرز نے شہر میں اسنیپ چیکنگ اور چھاپہ مار کارروائیوں کا سلسلہ روک دیا تھا۔

رینجرز کے محاصرے اور مقابلے کے دوران 3 دہشت گردوں نے پکڑے جانے کے خوف سے خود کو دستی بم دھماکے سے اڑا لیا جبکہ اس دھماکے میں ایک خاتون اور شیر خوار بچی بھی جان سے گئی جو کہ ماں اور بیٹی بتائے جاتے ہیں۔ جس مقام پر رینجرز نے دہشت گردوں سے مقابلہ کیا، اس سے ملحقہ انتہائی مصروف اور رش والے علاقے برنس روڈ، ایم اے جناح روڈ، ریگل چوک، عالم شاہ بخاری مزار اور تبت سینٹر واقع ہے جبکہ چند منٹوں کے فاصلے پر پاسپورٹ آفس، ایف آئی اے پاسپورٹ سیل، سندھ ہائی کورٹ، سندھ اسمبلی ، سندھ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، پریڈی تھانہ اور پریڈی پولیس بھی واقع ہے، تاہم رینجرز کی بروقت کارروائی نے شہر میں دہشت گردی کی واردات کو قبل از وقت ہی ناکام بنا دیا۔

رواں ماہ 24 اپریل کی رات تقریباً سات بجے کے قریب اردو بازار اور رتن تلاؤ کے علاقے میں معمول کی چہل پہل اور کاروباری سرگرمیاں جاری تھیں اور کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر میں اس علاقے میں کیا ہونے والا ہے؟ رینجرز کا انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں سے ایک ایسا مقابلہ ہونے جا رہا ہے جو وہاں کہ مکین بھلانا بھی چاہیں تو نہ بھلا پائیں گے کیوں کہ انہوں نے اس سے قبل اتنے قریب سے نہ تو گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور نہ ہی دستی بموں کے دھماکے سنے تھے۔

سندھ رینجرز نے پہلے سے گرفتار دہشت گرد کی نشاندہی پر شہر کے گنجان آباد علاقے اردو بازار کے قریب واقع یوسف منزل کا جیسے ہی محاصرہ کیا تو عمارت کی تیسری منزل کے فلیٹ میں موجود دہشت گردوں نے خود کار ہتھیاروں اور دستی بموں سے رینجرز پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں رینجرز کے 4 اہلکار انعام اﷲ ، وحید ، آصف اور سلمان، ایک دکاندار فیصل جبکہ نوعمر لڑکا کبیر زخمی ہوگیا۔

دہشت گردوں کی جانب سے حملے کی اطلاع پر رینجرز کی مزید نفری کو طلب کرلیا گیا، اس دوران رینجرز نے حفاظتی اقدامات کے تحت اردو بازار اور رتن تلاؤ سمیت ملحقہ علاقوں کی گلیوں کے داخلی اور خارجی راستوں کو سیل کر کے تمام نقل و حرکت روک دیا۔ مقابلے کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے رینجرز کے جوانوں پر 4 سے 5 دستی بم بھی پھینکے گئے جن کے دھماکے کی آواز دور دور تک سنائی دی اور قریب علاقوں کے مکینوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا، جس سے وہ گھروں میں محصور ہو گئے۔

دہشت گردوں نے خود کار ہتھیاروں سے بھی رینجرز پر اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم رینجرز کے جوان بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے اور انھوں نے نہایت دلیری ، بہادری اور بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا اور ان کی کمین گاہ کے قریب تک پہنچ گئے، اس دوران فلیٹ سے نکل کر ایک دہشت گرد نے خود کو دستی بم کے دھماکے سے اڑا لیا جبکہ دیگر 2 دہشت گردوں نے خود کو فلیٹ کے ایک کمرے میں بند کرلیا تاہم رینجرز کے جوانوں کا عزم اور حوصلے کے آگے دونوں دہشت گردوں کی ایک نہ چلی اور انھوں نے گرفتاری کے خوف سے خود کو دستی بم سے اڑا لیا، جس میں ایک خاتون اور شیر خوار بچی بھی جان سے چلی گئی۔ یوں رینجرز نے شہر میں دہشت گردوںکی جانب سے کی جانے والی ایک بڑی واردات کو قبل از وقت ناکام بنا دیا۔

اردو بازار کی جس عمارت کی تیسری منزل کے فلیٹ سے رینجرز اور دہشت گردوں کے درمیان طویل مقابلہ ہوا، وہ فلیٹ رواں سال فروری میں ایک چائے کے ہوٹل کے مالک نصیر نے اپنے نام سے کرایے پر حاصل کیا تھا، اس نے مالک مکان جاوید کو بتایا تھا کہ فلیٹ میں اس کا بھائی اور اس کی اہلیہ آکر ٹھہریں گے، فلیٹ کرایے پر حاصل کرنے کے بعد اس فلیٹ میں متعدد مرد اور 2 خواتین منتقل ہوئیں جبکہ مرد زیادہ تر رات کو ہی گھر واپس آتے تھے جس کی وجہ گھر میں رہنے والی خواتین نے دیگر پڑوسیوں کو یہ بتائی تھی کہ وہ چائے کے ہوٹل پر کام کرتے ہیں اور رات دیر سے ہوٹل بند ہونے کے بعد گھر واپس آتے ہیں ۔

مقابلے میں مارے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیم جنداﷲ اور تحریک طالبان پاکستان سواتی گروپ سے بتایا جاتا ہے جو کہ کوئٹہ اور پشاور کے رہائشی تھے۔ رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے مارے جانے والے دہشت گردوں کے تمام تر کوائف جمع کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ان کے گروپ میں شامل دیگر دہشت گردوں کا بھی سراغ لگا کر ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ مقابلے میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت حفیظ اﷲ ، محمد نعیم اور زاہد آفریدی کے نام سے ہوئی جبکہ نعشوں کے ڈی این اے نمونے بھی حاصل کیے گئے ہیں تاکہ پہلے سے محفوظ ڈی این اے کے نمونوں سے ان کا موازنہ کیا جا سکے۔

رینجرز نے کی بروقت کارروائی اور دہشت گردوں کی ہلاکت نے پولیس کے تفتیشی یونٹس خصوصاً کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ ، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ ، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ، اسپیشل برانچ اور تھانوں کی سطح پر تعینات انٹیلیجنس افسران کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔ یوں ایک بار پھر پولیس شہر میں موجود دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔

سندھ پولیس کے انتہائی اہم شعبے اسپیشل برانچ اور کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس معیار پر پور اترنے سے قاصر رہے، جس کی ان سے توقعات کی جا رہی تھیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مالی فوائد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی قانون کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام پورا کر جاتے ہیں اور دہشت گرد اپنا کام دیکھا جاتے ہیں۔

کسی بھی بڑی واردات کے بعد سی ٹی ڈی ، ایس آئی یو اور اسپیشل برانچ کے افسران ایسے متحرک ہو جاتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا پردہ چاک کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچا دیں گے، لیکن شائد اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران ہنگامی بنیادوں پر پولیس کے تفتیشی شعبہ جات کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی مرتب کریں جس کے تحت شہر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا نہ صرف سراغ لگایا جا سکے بلکہ کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کو قبل از وقت ہی ناکام بنایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں