محنت کشوں کا عالمی دن اور حالت زار

شکاگو کے محنت کشوں نے جو قربانیاں دیں، ان کے نتیجے میں بہت سے امور اصولی طور پر تسلیم کرلیے گئے تھے۔


Muqtida Mansoor May 01, 2017
[email protected]

GOLD COAST: آج مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ پورے ملک میں جلسے جلوس ہوں گے، ریلیاں نکالی جائیں گی۔ 1886ء میں شکاگو کی Haymarket میں مزدور حقوق کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے محنت کشوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ مزدور یکجہتی کے نعرے لگانے کے ساتھ محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا جائے گا۔ مگر اس دن کے گزر جانے کے بعد مصائب و مسائل کی وہی سیاہ رات اور محنت و مشقت کی چکی میں پستے وہی شب و روز۔ کیونکہ مزدور تحریک مدت ہوئی دم توڑ چکی ہے۔

محنت کشوں کی حالت زار ویسے تو کبھی اچھی نہیں رہی، لیکن شکاگو کے محنت کشوں نے جو قربانیاں دیں، ان کے نتیجے میں بہت سے امور اصولی طور پر تسلیم کرلیے گئے تھے۔ جن میں آٹھ گھنٹے کام، زائد وقت کام کا اوور ٹائم، ہفتہ وار چھٹی، تنظیم سازی اور اجتماعی سودے کاری کا حق، جیسے مطالبات شامل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر طے شدہ امور پر دنیا کے بیشتر ممالک میں کبھی عملدر آمد نہیں ہوا۔ لیکن بحیثیت مجموعی محنت کشوں کی زندگیوں میں قدرے بہتری کے امکانات ضرور پیدا ہوئے تھے۔

اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد مغرب کی سرمایہ دار دنیا کمیونزم کے پھیلاؤ کے خوف سے سوشل سیکیورٹی کا تصور متعارف کرانے پر مجبور ہوئی۔ لیکن مغرب کے سرمایہ دار ممالک نے جو سماجی تحفظ (سوشل سیکیورٹی) اپنے معاشروں میں متعارف کرایا، وہ سوشلسٹ ممالک میں مروج سماجی تحفظ سے بالکل مختلف تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس تصور کے متعارف کرائے جانے کی وجہ سے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کو کسی قدر تحفظ حاصل ہوا۔ لیکن تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی اکثریت میں یہ نظام اپنے صحیح تصور اور جامعیت کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکا۔ بلکہ بیشتر ممالک میں کرپشن اور بدعنوانیوں کی وجہ سے محنت کشوں کے مزید استحصال کا ذریعہ بن گیا۔ جس کی وجہ سے محنت کش نئی معاشی اور سماجی مشکلات کا شکار ہوگئے۔

آج اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی کے آخری برسوں میں محنت کشوں کی حالت زار کا مشاہدہ کریں تو کہیں کم کہیں زیادہ، صورتحال انتہائی ابتر نظر آئے گی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، آج کی دنیا کی صنعتکاری اور سرمایہ داری انیسویں صدی میں مروج صنعتکاری سے قطعی مختلف ہوچکی ہے۔ باالفاظ دیگر جدید اور حساس ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے باعث کلاسیکل صنعتی انقلاب کے بطن سے ایک نئے صنعتی انقلاب نے جنم لیا ہے۔

دوئم، ٹیکنالوجی کی اس ہوشربا ترقی کے نتیجے میں سرمایہ اور محنت کا رشتہ بھی متاثر ہوا ہے، جس کے اثرات صنعتی تعلقات پر مرتب ہوئے ہیں۔ یوں نئے قوانین بنانے کی ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے۔ سوئم، متعلقہ حکومتیں سرمایہ اور محنت کے رشتہ کو متوازن رکھنے میں ناکام ہیں۔ جس کی وجہ سے مقامی سطح پر چھوٹی صنعتیں آج بھی پرانے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ مگر مالکان اپنے کارکنوں کو جدید سہولیات فراہم کرنے کے بجائے جدید صنعتی اصطلاحات کو اپنے مخصوص مفاد کے لیے استعمال کررہے ہیں، جب کہ متعلقہ حکومتیں انھیں کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر پبلک سیکٹر کی مختلف صنعتوں کی نجکاری کا عمل جاری ہے، جس میں منفعت بخش صنعتیں بھی شامل ہیں۔ مواصلات اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے بعد اسٹیل اور ائرلائن کی نجکاری کسی بھی وقت متوقع ہے۔ ریلوے میں نجی شعبہ کے تعاون سے ٹرینیں چلانے کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے براہ راست اثرات محنت کشوں کے روزگار اور مستقبل پر پڑ رہے ہیں۔ لاکھوں محنت کش جنھیں پبلک سیکٹر کے اداروں میں تحفظ حاصل تھا، ان کے روزگار کے غیر محفوظ ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

گزشتہ تین دہائیوں سے مقامی سطح پر کام کرنے والی فیکٹریوں اور کارخانوں میں محنت کشوں کی بھرتی کا طریقہ کار بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب فیکٹریوں اور کارخانوں میں محنت کشوں کا براہ راست تقرر کرنے کے بجائے انھیں ٹھیکداری نظام کے ذریعے بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس طرح مالکان مزدوروں کو تقررنامہ جاری کرنے اور انھیں لیبر قوانین کے مطابق سہولیات فراہم کرنے سے بچ جاتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی فیکٹری یا کارخانے میں 10 فیصد سے زائد ملازمین مستقل نہیں ہیں۔ باقی تمام محنت کشوں سے Contratual بنیادوں پر کام لیا جاتا ہے۔

محنت کشوں کی اکثریت تقرری نامہ سے محروم ہونے کی وجہ سے سوشل سیکیورٹی اور EOBI جیسے اداروں میں بھی رجسٹر نہیں ہوپارہی۔ جس کی وجہ سے محنت کشوں کی اکثریت ریٹائرمنٹ پر پنشن اور دوران ملازمت علاج معالجہ اور دیگر سہولیات سے محروم رہتی ہے۔ Contratual مزدوروں کو ہفتہ وار چھٹی، تنظیم سازی اور اجتماعی سودے کاری جیسے حقوق حاصل نہیں۔ ILO کے متعین کردہ اصول و ضوابط کا اطلاق بھی ان پر نہیں ہوتا۔ یوں درج بالا حقوق تک رسائی کے لیے قانونی حق سے بھی محروم رہتے ہیں۔

کثیرالقومی کمپنیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیم سرکاری اور نجی شعبہ کے صنعتی اور مالیاتی اداروں نے بھی ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، فرنچائز اور Outsourcing جیسی اصطلاحات کا سہارا لیتے ہوئے محنت کشوں کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک زمانے میں ایک عام سی فیکٹری میں بھی ایک چھوٹی سی ڈسپنسری، کچن اور سیکیورٹی کا اپنا نظام ہوا کرتا تھا۔ آج یہ تمام ذمے داریاں Outsource کی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر اور ڈسپنسری تو دور کی بات شاید ہی کوئی فیکٹری ایسی ہو جس میں فوری طبی امداد کا بندوبست ہو۔ یوں ان فیکٹریوں اور کارخانوں میں محنت کشوں کے لیے دوپہر اور رات کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔

سیکیورٹی کا نظام بھی تقریباً ہر فیکٹری اور کارخانے سے Outsource کردیا ہے۔بیشتر فیکٹریاں اور کارخانے محنت کشوں کو وہ کم سے کم اجرت بھی نہیں دیتے، جس کا ہر سالانہ بجٹ پر حکومت اعلان کرتی ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کم سے کم اجرت سے مراد وہ اجرت ہے جو غیر ہنرمند (Unskilled) مزدور کے لیے متعین کی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ المناک پہلو اور کیا ہوگا کہ نجی شعبہ میں چلنے والے بیشتر اسکولوں میں گریجویٹ اور ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ کو حکومت کی جانب سے طے کردہ کم سے کم اجرت سے بھی کم ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت صرف اعلان کرنے کے بعد اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ آج تک کسی وفاقی یا صوبائی حکومت نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اعلان کردہ کم سے کم اجرت کے فارمولے پر کس قدر عمل ہورہا ہے۔

دوسرا دردناک پہلو یہ ہے کہ بیشتر فیکٹریوں اور کارخانوں میں مزدوروں سے زیادہ وقت کام لیا جاتا ہے، لیکن انھیں اوور ٹائم نہیں دیا جاتا۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو جانے دیجیے، اس قسم کی شکایات کراچی، لاہور، فیصل آباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں سے مسلسل آرہی ہیں۔ حالانکہ ILO کنونشن اور ملکی لیبر قوانین کے مطابق اوقات کار سے زیادہ وقت کام کرنے پر اوور ٹائم محنت کش کا حق ہے۔ بعض صنعتی زون ایسے بھی ہیں جنھیں کثیرالقومی کمپنی کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر لیبر قوانین سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ CPEC کے حوالے سے یہ مراعات چینی سرمایہ کاروں کو بھی دیے جانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔

کہنے کو اتنا کچھ ہے کہ درجن بھر اظہاریے بھی کم پڑیں گے، لیکن جگہ کی تنگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، چند گزارشات پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔ اول، وفاقی اور صوبائی حکومتیں سوشل سیکیورٹی کے نظام کو ملک گیر بنانے پر توجہ دیں۔ ہر شہری کو سوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کیا جائے۔ اسی طرح ہر شہری کو EOBI میں رجسٹر کیا جائے، تاکہ ہر غریب اور نادار شہری جو دہاڑی (روزانہ اجرت) پر کام کرتا ہے، اس کے لیے بڑھاپے کا کچھ سہارا ہوسکے۔

دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتیں مانیٹر کریں کہ کم سے کم اجرت کے کلیہ پر کہاں کہاں عمل نہیں ہورہا اور کیوں نہیں ہورہا۔ سوئم، کوشش کی جائے کہ بڑے منصوبے پبلک پرائیویٹ شراکت میں بنائے جائیں اور متعلقہ صوبائی حکومتیں ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کے روزگار کو تحفظ فراہم کریں۔

چہارم، حکومت جن بڑے قومی اداروں کی نجکاری کے بارے میں غور کررہی ہے، ان کی نجکاری کے بجائے انھیں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی شکل دیدے، تاکہ محنت کشوں کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ پنجم، ہر صوبائی اور مقامی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے صوبے اور ضلع میں قائم کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے تمام محنت کشوں کو تقرری نامہ جاری ہوا ہے اور انھیں سوشل سیکیورٹی اور EOBI میں رجسٹر کرایا جاچکا ہے۔ اگر اتنا ہوجائے تو اس مزدور دشمن زمانے میں یہی غنیمت ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں