فواد حسن فواد پر تنقید کیوں

افسوس اس بات کاہے کہ چند افراد بلاجواز فواد کوتختہ مشق بنا رہے ہیں۔

raomanzarhayat@gmail.com

لاہور:
کافی عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ چند لکھاری، سیاستدان اورکچھ اینکرز وزیراعظم کے دفترکو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ سنجیدہ اور مدلل تنقید میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جہاں مقصد ہیجان پیدا کرنا ہو یا اپنے قد میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنی ہو، وہاں تمام تیر،نیزوں اوربھالوں کارخ سرکاری ملازم کی طرف کر دیا جاتا ہے۔اس رویہ میں دن بدن شدت آرہی ہے۔

سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الزامات کی بوچھاڑ وزیراعظم کے سرکاری دفتر پر برسائی جارہی ہے۔ بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ طعنے دینے والوں کومعلوم ہے کہ سرکاری ملازم قواعدو ضوابط میں بندھاہوا انسان ہوتا ہے اور اکثرمعاملات میں اپناجائز دفاع بھی نہیں کرسکتا لہذا اسے رگیدنا سب سے آسان کام ہے ۔

میرا سیاست سے دوردورکا تعلق نہیں۔کوئی دلچسپی بھی نہیں حالانکہ پوراخاندان اسی صحراکا مسافر ہے۔دادا سے لے کر والد محترم تک،اوراب چچازادبھائی سے لے کرہم زلف تک۔ سیاست مشکل کام ضرورہے۔مگراس میں ایک سہولت ہے۔ اگرایک فریق دوسرے پرالزام لگائے،تووہ بڑی آسانی سے جواب دے سکتاہے۔ٹی وی پرآکراپنا نقطہ نظربیان کرسکتا ہے۔

روز نظر آتا ہے کہ اگرتحریک انصاف، حکومتی جماعت پرکوئی بھی آوازاٹھتی ہے توجواب دینے کے لیے اگلے لمحے ہی مسلم لیگ(ن) کے عمائدین موجود ہوتے ہیں۔ قصداً پیپلزپارٹی کا ذکر نہیں کررہا کیونکہ وہ لق دوق صحرا کی ریت پررقص بسمل میں مصروف ہے۔

دنیامیں ایک مسلمہ اصولِ سیاست ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے الزامات کااسی زبان میں جواب دیتے ہیں، جس بیانیہ میں الزام لگایاجاتاہے۔مگریہ سہولت سرکاری ملازم کومیسرنہیں ہے۔کئی ممالک میں سرکاری ملازم جواب دے سکتا ہے۔ جیسے چند مغربی ممالک اور ہمارے ہمسایہ ملک میں آئی اے ایس(Indian Adminstrative Service)کی باضابطہ غیرسیاسی تنظیم۔مگریہ آسانی پاکستان میں نہیں ہے۔چنانچہ بیوروکریسی کوہرطریقے سے ذلیل ورسوا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ان کا ٹھٹھا اُڑایا جاتا ہے۔ انھیں انگریز کے کالے جانشین کہہ کر طنز کیا جاتا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ سرکاری ملازمین میں سے چند فیصد لوگ ہرقسم کے ناجائز دھندے میں مصروف کار ہیں مگرغالب اکثریت آج بھی خاموشی سے اپنے تئیں سرکاری کام کرنے میں مصروف ہے۔ ذاتی مشاہدہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی غالب اکثریت سفیدپوشی کی زندگی گزاررہی ہے۔بات وزیراعظم کے دفتر کی ہورہی تھی۔وہاں پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اس وقت ہدف تنقید ہیں۔ ہر کچاپکا جھوٹ اس شخص کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔حقیقت کاعلم ہوئے بغیر،چنددوست، بغیر سوچے سمجھے اوربغیرکسی ثبوت کے ہیجان پیداکرنے میں مصروف کاررہتے ہیں۔ اس رجحان میں بغض بھی شامل ہوتا ہے اورکئی بارمقصد اپنے آپ کواہم بنانا بھی ہوتاہے۔

چندکالم نویس،بیوروکریسی کے متعلق مسلسل لکھتے چلے جارہے ہیں۔اکثریت کوسرکاری ملازمت کی جزئیات اور مشکلات کاکوئی علم نہیں۔انھوں نے ایک دن بھی سرکاری نوکری نہیں کی۔جس اَمرکاانھیں کوئی عملی تجربہ ہی نہیں، وہ اس پربزرجمہربن کرایسی ایسی باتیں فرماتے ہیں کہ حیرت سے طالبعلم ششدررہ جاتاہے۔سکے کے دوسرے رخ کی طرف آتاہوں۔ سی ایس ایس کرنے کاایک باضابطہ طریقہ کارہے۔آج تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن پرکرپشن یا کسی کو فائدہ پہنچانے کاالزام نہیں لگا۔

درست ہے کہ اِکادکاایسے واقعات ہوئے جونہیں ہونے چاہیے تھے۔مگراس کی مکمل روک تھام کی گئی اوروہ بھی فی الفور۔مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ انتہائی جانفشانی اورایمانداری سے کام کررہاہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کے سلیکشن کے طریقے کارپرکسی قسم کاکوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ہزاروں امیدوارشدید محنت بلکہ ریاضت کرکے امتحان دیتے ہیں۔صرف چند سو انٹرویوکے لیے بلائے جاتے ہیں۔

سخت ترین چھلنی سے گزرنے کے بعد محض ڈیڑھ دوسوامیدوارپورے ملک میں کامیاب قرار دیے جاتے ہیں۔اس میں ڈی ایم جی سے لے کرپوسٹل تک ہر گروپ شامل ہوتاہے۔صوبائی سطح پربھی صوبائی پبلک سروس کمیشن صوبوں میں انتہائی محنت سے قابل افسروں کا انتخاب کرتی ہے۔یہی چند سو افراد تین دہائیوں تک ملک کی باگ ڈورسنبھالتے ہیں۔ بلاخوف تردیدکہہ رہاہوں کہ پبلک سرس کمیشن کا طریقہ کار فوج سے بہتراورپختہ ہے۔


عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بہترین دماغ سول سروس میں آتے ہیں اورصرف اہلیت اورقابلیت پرمنتخب ہوتے ہیں۔ عرض کروںگاکہ ان پر بے جا اور بے بنیاد تنقیدکرنے والے کس چھلنی سے کشید ہوکرسامنے آتے ہیں۔مقصدکسی بھی ادارے یاپروفیشن پر ہرگز ہرگز تنقید نہیں بلکہ حقائق کوسامنے پیش کرناہے تاکہ سنجیدہ بحث کی جاسکے۔

دوبارہ وزیراعظم کے دفترکی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ پرنسپل سیکریٹری پوری وفاقی حکومت کے لیے دماغ یاNevre Centreکی حیثیت رکھتاہے۔کس افسرکوکہاں پوسٹ کرنا ہے۔کسے کس محکمہ پرتعینات نہیں کرنا۔یہ تمام سرکاری کام اس کی ذمے داری میں شامل ہے۔کسی بھی وزیراعظم کوسرکاری اوراہم غیرسرکاری معاملات میں اپنی صائب رائے دینا، پرنسپل سیکریٹری کابنیادی کام ہے۔اسکوتنخواہ ہی اسی چیزکی ملتی ہے کہ وزیراعظم کی معاونت ہردم اور تقریباً ہرکام میں کرے۔

ثبوت سے عرض کرونگاکہ جب سے پاکستان بناہے،ہرسیاسی اورفوجی چیف ایگزیکٹیو،پرنسپل سیکریٹری اپنے بھروسہ کاہی رکھتاہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس حیثیت میں پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم یاصدر کے ہرمعمول کو جانتاہے، اس کے مزاج کوسمجھتاہے اوراپنی صلاحیت کے حساب سے کام کرنے کی کوشش کرتاہے۔وزیراعظم یا صدر اسے جوبھی حکم دیتے ہیں،وہ اسی پرعملدرامدکرتاہے یا سرکاری مشینری سے کراتا ہے۔ کیا صدر پرویز مشرف کے دورمیں طارق عزیز، حکومت کے ہرفیصلہ پراثراندازنہیں ہوتا تھا۔مشہورتھاکہ صدرمشرف سے ملناآسان ہے مگران کے سیکریٹری طارق عزیز سے ملنا مشکل ہے۔

دور مت جائیے۔ وزیراعظم گیلانی کی پرنسپل سیکریٹری، نرگس سیٹھی کیا طاقت کی علامت نہیں تھیں۔ ہربیوروکریٹ اورسیاستدان اس دھان پان سی خاتون سے گھبراتا تھا۔ان کے مشورہ سے امورحکومت سرانجام دیے جاتے تھے۔صدر زرداری کے پاس توسلمان فاروقی موجودتھے جن کے پاس موت کے علاوہ ہرمسئلہ کافوری حل موجود تھا۔عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کرآج تک پرنسپل سیکریٹری کی پوسٹ سب سے اہم اورفیصلہ کن ہوتی ہے۔ اسی تسلسل اور تناظرمیں دیکھیے توآج کے دورمیں فوادحسن فواد انتہائی نازک اورمشکل ترین فیصلوں میں بھی اپنی رائے دیتے ہیں اسلیے کہ اپنے پیش رؤافسروں کی طرح،یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمے داری ہے۔

افسوس اس بات کاہے کہ چند افراد بلاجواز فواد کوتختہ مشق بنا رہے ہیں۔مثال نہیں دینا چاہتا۔گزارش کروں گا کہ اسٹاف کالج میں خاکسارنے تین سال میں سیکڑوں افسروں کواپنی عاجزبساط کے مطابق پڑھایا ہے۔ ان کی صلاحیت کو حکومتی ضابطوں کے تحت پرکھا ہے۔ سیکڑوں افسروں کے ساتھ پاکستان اورغیرممالک میں تربیتی دورے کیے ہیں۔ان میں فوادحسن فوادبھی شامل ہے۔

پوری ذمے داری سے گزارش کروں گاکہ اس شخص میں موقعہ محل کے حساب سے بولنے کی حیرت انگیزصلاحیت موجودہے۔فن تقریرپراسے مکمل دسترس ہے۔اسٹاف کالج ہی میں معلوم ہواکہ زمانہ طالبعلمی ہی سے غضب کا مقرر رہا ہے۔دوسری بات،جوبحیثیت استادیامعلم محسوس کی، وہ کسی خوف کے بغیراپنی رائے دیتاہے۔ہمارے جیسے منافق معاشرہ میں یہ غیرمعمولی بات ہے۔یہاں تولوگ حاکم کے سائے تک سے خوفزدہ رہتے ہیں۔اپنی رائے کا برملا اظہاربہت کم افسر کر پاتے ہیں۔

فواد ان میں سے ایک ہے بلکہ لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ خوفناک حد تک سچ بولنے کا عادی ہے۔یہ نہیں کہ اسے نقصان نہیں ہوا۔اسے ہماری ہی سروس کے افسروں نے بھی ہرطریقے سے تختہ مشق بناکر رکھا۔ کسی کومعلوم نہیں کہ پرویز مشرف کے دورکے بیشتر حصے میں فواد نوکری سے رخصت پر رہا۔نجی ادارے میں کام کرنے پرمجبورتھا۔آٹھ دس برس کا عرصہ بڑے صبرسے گزارا۔ایک اوربات، جس افسر نے اس کے ساتھ زیادتی کی،ان میں سے اکثریت کواس نے کچھ نہیں کہا۔حالانکہ وہ انھیں بے انتہانقصان پہنچا سکتا تھا۔ مگر اس نے تہذیب اورشائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

ہرسروس میں افسرکے دوست بھی ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے دشمن بھی۔افسرمیں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی۔بشری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اورذاتی پسند اور ناپسندبھی۔کوئی شخص بھی اس سے مبرا نہیں۔لیکن کسی بھی شخص کامجموعی تاثراس کے سارے کردارکوسامنے رکھ کر کرنا چاہیے۔توازن سے بات کرنی چاہیے۔کسی بھی افسرکوصرف اسلیے ٹارگٹ کرناکہ وہ وزیراعظم کے ساتھ تعینات ہے ، میری نظرمیں ایک غیرذمے دارانہ عمل ہے۔

ہاں مثبت اورجائزتنقید کی ہرجگہ گنجائش موجودہے اورہونی بھی چاہیے۔پورے چارسال کے دورانیے میں فواد حسن فواد سے میں ایک آدھی بارملاہوں۔میرا اس سے کسی قسم کاکوئی رابطہ نہیں۔مگر اپنے تجزیہ کی بنیاد پر ضرور کہوں گاکہ وہ ایک غیرمعمولی افسراوراعلیٰ درجہ کاانسان ہے۔باقی کیا لکھوں۔ یہاں کیونکہ سرکاری ملازم اپنا جائز دفاع نہیں کر سکتا، لہذاس پرالزام لگانا سب سے سہل ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ اس کالم پرفوادمجھ سے ناراض ہوجائیگا۔ مگرکوئی مسئلہ نہیں۔ میں جس بات کودرست سمجھتاہوں، ہرقیمت پر لکھتارہوںگا۔یہی حرمت قلم ہے۔یہ حرمت میں نے بے پناہ ذاتی نقصان پر خریدی ہے!اپنے قلم سے لکھے ہوئے ہرلفظ پرقائم ہوں۔ ہمیشہ کی طرح!
Load Next Story