پاک ایران تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت
پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرنے کیلیے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔
ADELAIDE:
حال ہی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے ایران کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ کئی دنوں پر مشتمل تھا۔ اس سے پہلے یہ دورہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کرنا تھا لیکن انھوں نے وفاقی حکومت سے کچھ اختلافات کو جواز بناتے ہوئے اپنا دورہ ایران منسوخ کر دیا۔ لگ ایسا رہا تھا کہ بس چیئرمین سینیٹ کسی بھی وقت استعفی دینے والے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ تو چائے کی پیالی میں طوفان تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی بہانے دورہ ایران منسوخ کیا جائے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا ایران جانا اور چیئرمین سینیٹ کا دورہ ایران عین موقع پر منسوخ کرنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس طرح سے امریکا کی گڈبکس میں آنے کی کوشش کی ہو۔ ویسے تو مسلم لیگ ن ہو یا پیپلزپارٹی دونوں ہی امریکا نواز ہیں۔ دونوں ہی اقتدار میں رہنے اور آنے کے لیے امریکی خوشنودی کی طالب رہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پیپلزپارٹی کے عوامی اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کو تخلیق کیا گیا۔ یہ حکمت عملی کامیاب بھی رہی۔ پیپلزپارٹی جو کسی زمانے میں اینٹی امریکا رہی زمانے کے تلخ تجربات نے اسے بھی سکھا دیا کہ اسلام آباد کا راستہ واشنگٹن سے ہوکر گزرتا ہے۔ جب تک واشنگٹن کی بڑی سرکار مہربان نہیں ہوگی پاکستان میں اقتدار میں آنا خواب ہی رہے گا۔
پچھلے ہفتے ایرانی صدر سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پاکستانی پارلیمانی وفد کے اراکین نے تہران میں ملاقات کی۔ صدر روحانی نے ایران میں صدارتی الیکشن میں مصروفیات کے باوجود پاکستانی وفد کے ہمراہ کافی وقت گزارا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے پاکستان کی مسلم ممالک کے مابین اتحاد کی پالیسی پر زور دیتے ہوئے ایرانی صدر روحانی کو یقین دلایا کہ پاکستان کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جو برادر ملک ایران کے مفادات کے خلاف ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہے۔
اس لعنت نے نہ صرف ہماری ترقی کو متاثر کیا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے جس کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنے وسائل کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے حالیہ مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے جلد حل کے لیے ایران کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے ایاز صادق نے مسئلہ کشمیر پر ایران کی طرف سے مسلسل حمایت پر شکریہ بھی ادا کیا۔
اس موقع پر یہ بات بھی زیر غور آئی کہ ایران پاکستان دو برادر ملک ہونے کے باوجود ان کے مابین تجارتی حجم محض 500 ملین امریکی ڈالر ہے جو کہ بہت کم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان ایران دو ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود معیشت کے مختلف شعبوں میں تعاون کی گنجائش وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی اور گہرائی پیدا ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی خوش حال ہوں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے باہمی ملاقات میں ایران میں پاکستانی مصنوعات پر عائدٹیکسوں کی شکل میں مختلف پابندیاں اٹھانے پر زور دیا جس میں چاول اور کینو شامل ہیں۔
ایران کے صدر نے اسپیکر ایاز صادق کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہونا چاہیے۔ ایرانی صدر نے سی پیک میں شامل ہونے کے لیے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آئیںگے۔ یاد رہے کہ ایرانی صدر نے پچھلے سال کے آخر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعہ پر چینی صدر سے ملاقات میں بھی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔ جب کہ پاکستان کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ چاہ بہار گوادر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں حلیف اور مددگار ثابت ہوں گی۔
یہی بات چینی سفیر نے بھی اس وقت کہی جب ایکسپریس اخبار کے زیر اہتمام سی پیک پر کانفرنس کی گئی جس میں چینی سفیر نے کہا کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یاد رہے کہ گوادر پورٹ کا ٹھیکہ اور وہاں ہر طرح کا ترقیاتی کام کی ذمے داری چین کی ہے۔
گوادر پورٹ کو اگرچاہ بہار سے نقصان پہنچتا تو سب سے پہلے ایران آواز اٹھاتا۔ پاکستان میں ایسی قوتیں ہیں جن کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان ایران میں دشمنی ہوجائے۔ یہ نادان یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان پہلے ہی بھارت اور افغانستان کی دشمنی میں پھنسا ہوا ہے۔ ایران سے بھی دشمنی چاہتے ہیں تاکہ خدانخواستہ پاکستان تینوں اطراف سے دشمنوں کی لپیٹ میں آجائے گا۔
اگر کوئی ملک تینوں اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہو تو کیا اس کی سالمیت خطرے میں نہ پڑ جائے گی۔ پاکستان دشمنوں کی یہی خواہش ہے۔ جب بھی پاکستان ایران ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں کوئی نہ کوئی سازش ہو جاتی ہے۔
پاکستانی وفد اسپیکر اسمبلی کی قیادت میں ابھی پاکستان پہنچا ہی تھا کہ پاک ایران سرحد کے قریب دہشتگردوں نے اچانک حملہ کر کے دس ایرانی محافظوں کو مار ڈالا ۔ جب سے ایران میں امریکی مفادات کا خاتمہ ہوا ہے ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی سپانسرڈ پراکسی وار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود مقام شکر ہے کہ پاکستانی آرمی چیف قمرجاوید باجوہ کہہ چکے ہیںکہ ایران ہمارا اسلامی برادر ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ دوستی پر کسی بھی طرح ''سمجھوتہ'' نہیں ہو سکتا۔
...جون جولائی سے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک خطرناک وقت شروع ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
حال ہی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے ایران کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ کئی دنوں پر مشتمل تھا۔ اس سے پہلے یہ دورہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کرنا تھا لیکن انھوں نے وفاقی حکومت سے کچھ اختلافات کو جواز بناتے ہوئے اپنا دورہ ایران منسوخ کر دیا۔ لگ ایسا رہا تھا کہ بس چیئرمین سینیٹ کسی بھی وقت استعفی دینے والے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ تو چائے کی پیالی میں طوفان تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی بہانے دورہ ایران منسوخ کیا جائے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا ایران جانا اور چیئرمین سینیٹ کا دورہ ایران عین موقع پر منسوخ کرنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس طرح سے امریکا کی گڈبکس میں آنے کی کوشش کی ہو۔ ویسے تو مسلم لیگ ن ہو یا پیپلزپارٹی دونوں ہی امریکا نواز ہیں۔ دونوں ہی اقتدار میں رہنے اور آنے کے لیے امریکی خوشنودی کی طالب رہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پیپلزپارٹی کے عوامی اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کو تخلیق کیا گیا۔ یہ حکمت عملی کامیاب بھی رہی۔ پیپلزپارٹی جو کسی زمانے میں اینٹی امریکا رہی زمانے کے تلخ تجربات نے اسے بھی سکھا دیا کہ اسلام آباد کا راستہ واشنگٹن سے ہوکر گزرتا ہے۔ جب تک واشنگٹن کی بڑی سرکار مہربان نہیں ہوگی پاکستان میں اقتدار میں آنا خواب ہی رہے گا۔
پچھلے ہفتے ایرانی صدر سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پاکستانی پارلیمانی وفد کے اراکین نے تہران میں ملاقات کی۔ صدر روحانی نے ایران میں صدارتی الیکشن میں مصروفیات کے باوجود پاکستانی وفد کے ہمراہ کافی وقت گزارا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے پاکستان کی مسلم ممالک کے مابین اتحاد کی پالیسی پر زور دیتے ہوئے ایرانی صدر روحانی کو یقین دلایا کہ پاکستان کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جو برادر ملک ایران کے مفادات کے خلاف ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہے۔
اس لعنت نے نہ صرف ہماری ترقی کو متاثر کیا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے جس کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنے وسائل کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے حالیہ مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے جلد حل کے لیے ایران کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے ایاز صادق نے مسئلہ کشمیر پر ایران کی طرف سے مسلسل حمایت پر شکریہ بھی ادا کیا۔
اس موقع پر یہ بات بھی زیر غور آئی کہ ایران پاکستان دو برادر ملک ہونے کے باوجود ان کے مابین تجارتی حجم محض 500 ملین امریکی ڈالر ہے جو کہ بہت کم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان ایران دو ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود معیشت کے مختلف شعبوں میں تعاون کی گنجائش وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی اور گہرائی پیدا ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی خوش حال ہوں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے باہمی ملاقات میں ایران میں پاکستانی مصنوعات پر عائدٹیکسوں کی شکل میں مختلف پابندیاں اٹھانے پر زور دیا جس میں چاول اور کینو شامل ہیں۔
ایران کے صدر نے اسپیکر ایاز صادق کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہونا چاہیے۔ ایرانی صدر نے سی پیک میں شامل ہونے کے لیے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آئیںگے۔ یاد رہے کہ ایرانی صدر نے پچھلے سال کے آخر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعہ پر چینی صدر سے ملاقات میں بھی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔ جب کہ پاکستان کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ چاہ بہار گوادر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں حلیف اور مددگار ثابت ہوں گی۔
یہی بات چینی سفیر نے بھی اس وقت کہی جب ایکسپریس اخبار کے زیر اہتمام سی پیک پر کانفرنس کی گئی جس میں چینی سفیر نے کہا کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یاد رہے کہ گوادر پورٹ کا ٹھیکہ اور وہاں ہر طرح کا ترقیاتی کام کی ذمے داری چین کی ہے۔
گوادر پورٹ کو اگرچاہ بہار سے نقصان پہنچتا تو سب سے پہلے ایران آواز اٹھاتا۔ پاکستان میں ایسی قوتیں ہیں جن کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان ایران میں دشمنی ہوجائے۔ یہ نادان یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان پہلے ہی بھارت اور افغانستان کی دشمنی میں پھنسا ہوا ہے۔ ایران سے بھی دشمنی چاہتے ہیں تاکہ خدانخواستہ پاکستان تینوں اطراف سے دشمنوں کی لپیٹ میں آجائے گا۔
اگر کوئی ملک تینوں اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہو تو کیا اس کی سالمیت خطرے میں نہ پڑ جائے گی۔ پاکستان دشمنوں کی یہی خواہش ہے۔ جب بھی پاکستان ایران ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں کوئی نہ کوئی سازش ہو جاتی ہے۔
پاکستانی وفد اسپیکر اسمبلی کی قیادت میں ابھی پاکستان پہنچا ہی تھا کہ پاک ایران سرحد کے قریب دہشتگردوں نے اچانک حملہ کر کے دس ایرانی محافظوں کو مار ڈالا ۔ جب سے ایران میں امریکی مفادات کا خاتمہ ہوا ہے ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی سپانسرڈ پراکسی وار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود مقام شکر ہے کہ پاکستانی آرمی چیف قمرجاوید باجوہ کہہ چکے ہیںکہ ایران ہمارا اسلامی برادر ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ دوستی پر کسی بھی طرح ''سمجھوتہ'' نہیں ہو سکتا۔
...جون جولائی سے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک خطرناک وقت شروع ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997