لاڑکانہ شہر میں تبدیلیاں پہلا حصہ

شہر میں گاڑی چلانا ایک عذاب سے کم نہیں ہے اس لیے میں اپنے دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پر شہر جاتا تھا.

لاڑکانہ میرا شہر ہے جہاں میں نے جنم لیا، پڑھا لکھا، کھیلا کودا اور سروس بھی کی ہے۔ میں تو کراچی چلا آیا مگر میرے والد، ایک بہن اور کئی رشتے دار اور پرانے دوست وہاں پر رہتے ہیں اس لیے وہاں جانا لگا رہتا ہے مگر وہاں پر قیام دو سے تین دن کے درمیان ہوتا تھا۔

گزشتہ ڈھائی مہینے میں نے وہاں بسر کیے کیونکہ ایک ذاتی اور اہم ایمرجنسی کام کی وجہ سے مجھے اتنا عرصہ وہاں گزارنا پڑا۔ جب میں 16 جنوری 2017 کو صبح بیدار ہوا تو میں نے کہا کہ باہر نکل کر صبح کی کرنیں دیکھوں لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ بستر کو چھوڑا جائے پھر بھی باہر نکلا تو وہاں پر ساری دکانیں بند نظر آئیں اور صرف گاڑیاں، رکشے، موٹرسائیکلیں تیز دوڑتی ہوئی نظر آئیں جس میں اسکول جانے والے بچے یونیفارم میں ملبوس نظر آئے۔ جب وہاں سے نظر کو ہٹا کر دکانوں کی طرف دیکھا تو تقریباً ہر دکان کے اوپر سیور جلتے نظر آئے جو دکان کھلنے کے بعد بھی پورا دن جلتے رہے۔

ایک وقت تھا اذان کے ساتھ لوگ اٹھ جاتے تھے، نماز ادا کی، قرآن پاک کو پڑھا اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنے اپنے کام کی طرف چل دیے۔ اب وہاں بھی کراچی جیسا حال ہے، لوگ دیر تک سوتے رہتے ہیں، لاڑکانہ میں جہاں اپنی بہن کے گھر ٹھہرا ہوا تھا، وہ شیخ زید کالونی کہلاتی ہے جس میں دبئی کے شیخ زید نے بھٹو کے زمانے میں کوارٹر نما گھر بنائے تھے جس میں غریب لوگ رہتے تھے، کیونکہ یہ کوارٹر مفت میں بھٹو نے غریب لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔ اب یہ کوارٹر بنگلوں اور بڑے گھروں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور انھوں نے غریب افراد سے دو یا تین کوارٹر خرید کر اسے ایک ہی گھر بنادیا ہے۔

لاڑکانہ کی حدود میں رات کو ہم لوگ ساڑھے 12 بجے داخل ہوئے تو اندھیرے نے ہمارا استقبال کیا کیونکہ پتا چلا کہ لاڑکانہ میں بجلی 12 سے 18 گھنٹے روزانہ روٹھی رہتی ہے۔ چلو خاص دشواری اس لیے نہیں ہوئی کہ جنوری کا مہینہ تھا۔ مگر جیسے جیسے مارچ کا مہینہ درمیان میں آیا تو گرمی نے آنکھیں دکھانا شروع کیا۔ جب سے میں نے شہر کی طرف رخ کیا تو مجھے ہر جگہ دھول اور مٹی اڑتی ہوئی میرے چہرے، بالوں، کانوں، سانس کی نال میں اور آنکھیں میں بن بلائے مہمان کی طرح بس گئی۔

یہ صورتحال اس لیے تھی کہ شہر کا تقریباً ہر حصہ کھدا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے ٹریفک کئی گھنٹوں مسلسل جام رہتی تھی اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے ٹریفک کا کوئی عملہ نظر نہیں آیا سوائے اس کے کہ جہاں پر وی آئی پی افسران اور لوگوں کے دفاتر اور گھر تھے۔ اس کوفت نے مجھے اتنا بے زار کیا کہ میں نے پریس کلب جاکر دوستوں سے کہا کہ وہ اس صورتحال پر کیوں نہیں لکھتے تو انھوں نے کہا کہ اخباروں میں لکھ چکے ہیں، الیکٹرانک میڈیا پر دکھا چکے ہیں مگر یہ آواز اس کہاوت کی طرح ہے جیسے ''نقار خانے میں طوطی کی آواز۔''

وہاں بھی اب کراچی کی طرح الٹی طرف سے ٹریفک کا استعمال عام ہوگیا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ چنگ چیوں کا ایک ایسا لمبا اور طویل سلسلہ پورے شہر کے منظر پر چھایا ہوا ہے، گاڑیاں بے ترتیب چل رہی ہیں اور خاص طور پر جب اسکول اور کالج کی چھٹی ہوتی تھی تو ہمیں اپنی منزل کی طرف پہنچنے میں ایک سے دو گھنٹے لگ جاتے تھے کیونکہ اب شہر کی وہ صورتحال نہیں ہے کہ اسٹوڈنٹ پیدل چل کر گھر پہنچیں یا اسکول جائیں۔ یہ میرے شہر کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بھی چیز اصلی روپ میں نظر نہیں آرہی تھی اور ہر آدمی دوسرے کو دھکا دیتا ہوا آگے نکل جاتا تھا۔

شہر میں گھومتے مجھے اصلی لاڑکانہ میں بسنے والے لوگ نظر نہیں آئے اور اگر کوئی اتفاقاً نظر آیا تو میری آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی تھی اور میں تیزی سے لپک کر اس سے ملتا تھا اور اس کے جذبات بھی وہی تھے جو میرے تھے۔ مجھے اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے ملنے کے لیے ان کے گھر جانا پڑتا تھا مگر میں ان کے گھر ڈھونڈنے میں دقت محسوس کرتا تھا کیونکہ اب لاڑکانہ شہر میں لوگوں نے شہر اور محلوں میں اپنے پرانے گھر گرا کر انھیں نئے انداز سے بنایا ہے جن میں نیچے دکانیں اور اوپر اپنے گھر بنائے ہیں۔ اب گلیاں بازار بن گئی ہیں جس کی وجہ سے گلیاں تنگ ہوگئی ہیں اور دوسری بات یہ کہ لوگوں نے اپنے گھر اوپر سے بھی باہر نکال لیے ہیں جس کی وجہ سے نیچے ہوا کی آمد رک گئی ہے جس سے گرمی زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔


شہر میں گاڑی چلانا ایک عذاب سے کم نہیں ہے اس لیے میں اپنے دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پر شہر جاتا تھا، مگر کھلی سواری سے میرا پورا چہرہ مٹی سے سفید ہوجاتا تھا اور بالوں میں مٹی چپک جاتی، جس کی وجہ سے ہر مرتبہ شہر سے واپس گھر آنے پر نہاتا تھا، ورنہ رات کو بھی جسم کو مٹی کاٹتی رہتی تھی اور نیند نہیں آتی تھی۔ اب میں نے اپنے آپ کو اس حالت سے بچانے کے لیے رومال اپنے چہرے اور سر پر باندھ لیتا تھا۔ مٹی نے نہ صرف مجھے بلکہ ہر آنے جانے والے کو سانس کی بیماری میں مبتلا کردیا ہے۔

صفائی کے سلسلے میں، میں نے لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن کے میئر سے بھی ملاقات کی جس نے اپنی مجبوریاں بیان کردیں جس سے لاڑکانہ کے شہریوں کی امیدیں ڈوبتی نظر آئیں۔ میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ کئی کروڑ روپے خرچ کرکے لاڑکانہ شہر کی گلیوں اور روڈوں کو روشن کرنے کے لیے سولر سسٹم لگوایا ہے، جسے میں ڈھونڈتا رہا جو مجھے صرف وی آئی پی روڈ پر نظر آیا کیونکہ وہاں رہنے والے پاور فل بیورو کریٹ ہیں یا پھر ایسی جگہیں جہاں کے افراد میونسپل کے میئر کے لیے مسئلہ کھڑا کرسکتے ہیں۔

اس شہر کو بگاڑنے میں کچھ ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو 2010 اور 2011 کے سیلاب کے بعد لاڑکانہ شہر آگئے اور پھر واپس نہیں گئے، اور اس سے پہلے جب امن و امان کا مسئلہ بڑھ گیا تھا تو گاؤں سے کافی لوگ لاڑکانہ شہر میں آکر آباد ہوئے۔ ان آنے والے لوگوں نے، راشی افسران نے اور پیسے سے اور اپنے اقتدار سے محبت کرنے والے سیاستدانوں نے لاڑکانہ شہر کو شہر سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے جو بظاہر بڑی عمارتوں اور بزنس مرکزوں سے شہر نظر آتا ہے لیکن وہاں پر رہنے والے لوگوں کی سوچ نے اسے گاؤں کی شکل دے دی ہے جہاں پر شعور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی کیونکہ یہ لوگ چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھ کر فلمیں دیکھنا جانتے ہیں یا پھر قرضے لینے کے ماہر ہیں۔

اب تو یہ حال ہے کہ وہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی ایسی بات ہو تو وہ جلوس نکالیں، اپنی تصویریں بنوائیں یا پھر چینل والے ان سے بات چیت کریں اور بلیک میل کرکے کچھ پیسے حاصل کریں۔

لاڑکانہ میں کبھی اتنے اچھے ریسٹورنٹ ہوتے تھے جہاں پر پڑھے لکھے لوگ آکر ادب اور سیاست پر گفتگو کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب جب میں لاڑکانہ کے ہوٹل میں گیا جہاں پر صبح اور شام پڑھے لکھے، مدبر قسم کے لوگ آکر ملکی، بین الاقوامی اور شہری مسائل پر گفتگو اور بحث کرتے تھے، صبح کو ہال کے اندر اور شام کو ہال سے باہر کرسیاں اور ٹیبلیں بڑے احسن طریقے سے رکھی ہوتی تھیں وہاں بڑے احترام اور خاموشی سے دھیمی آواز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔

اب اس ہوٹل میں عجیب قسم کے لوگ قہقہے لگاتے، سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے، زور زور سے باتیں کرتے ملے۔ اس کے علاوہ ٹی وی کی آواز کافی بلند تھی۔ اب ایسے ہوٹلوں کا ماحول نہیں رہا جہاں آپ سکون سے ادبی، علمی، ثقافتی اور سیاسی تبادلہ خیال کرسکیں جس کی وجہ سے ایسے لوگ گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)
Load Next Story