شام میں جھڑپوں کے دوران 74 شدت پسند ہلاک

دمشق کے نواح میں جیش الاسلام اور القاعدہ کے ذیلی گروپ کے درمیان لڑائی ہوئی۔

روس بشارالاسد کوعہدے سے ہٹانے کے لیے مذاکرات پر آمادہ ہوگیا۔ فوٹو: فائل

شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں متحارب عسکری گروپوں کے درمیان لڑائی میں 74 عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔

سیرین آبزرویٹری فارہیومن رائٹس کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات میں کہا گیاہے کہ لڑائی جیش الاسلام اور القاعدہ کے ایک اور ذیلی گروپ کے جنگجوؤں کے درمیان ہوئی۔ حما میں ایک فضائی کارروائی میں شہری دفاع کے 8 رضاکار جاں بحق ہوگئے۔

دوسری طرف امریکا نے اپنے فوجی دستے شام اور ترکی کی سرحدوں کی جانب روانہ کردیے ہیں تاہم پینٹاگان نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے فوجیوں کو ترکی اور شام کی سرحدوں کی جانب روانہ کر دیا ہے جس کامقصد ترکی اور شام کے فوجیوں کے درمیان جنگ کو روکنا ہے جبکہ روس اور مختلف فریقوں کے درمیان مذاکرات کی میز پر شامی صدر بشارالاسد کے انجام سے متعلق بحث جاری ہے۔

ادھر عرب ٹی وی کے مطابق روسی اہلکاروں کے بیانات کے حوالے سے بتایا گیاکہ اس معاملے کے ریڈ لائن کی صورت اختیار کر جانے کے بعد روس بشار الاسد کے مستقبل پر بات چیت کیلیے تیار ہے۔ روسی سفارت کاروں کے مطابق حالیہ عرصے میں ماسکو اور مغرب کے درمیان مذاکرات میں بشارالاسد کے مستقبل کا معاملہ شامل رہا ہے۔ روس بات چیت کے دوران ایک سے زیادہ مرتبہ مقابل فریقوں سے بشارالاسد کی متبادل شخصیات کے نام طلب کرچکاہے۔ بظاہر یہ پیش رفت ماسکو کی علانیہ پالیسی کے مخالف نظر آتی ہے۔


اخبار کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورہ ماسکو کے دوران یہ امریکی پیشکش سامنے آئی کہ مغربی ممالک ایسے کسی بھی شخص کے ساتھ معاملات کیلیے تیار ہیں جس کو ماسکو بشارالاسد کے متبادل کے طور پر چنے گاجبکہ ماسکو نے بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق اقتدار کی سیاسی منتقلی کی کارروائی شروع کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس کے دوران اقوام متحدہ کے زیر نگرانی براہ راست انتخابات کا انعقاد کرایا جائے اور ان انتخابات میں دیگر امیدواروں کے ساتھ بشار الاسد کو بھی حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا گیاہے کہ عبوری عرصے کے دوران بشار الاسد کے اختیارات محدود ہوں گے۔

علاوہ ازیں اگر روس بشار الاسد کی سپورٹ سے پیچھے ہٹتا ہے تو ایسی صورت میں علاقائی فریقوں کی جانب سے ایک نیا مجوزہ منظرنامہ سامنے آئے گا جس میں بشارالاسد پر اعتماد کے حوالے سے ایک وسیع عوامی ریفرنڈم کرایا جائے جس کے ذریعے شامی صدر کے باہر نکلنے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام میں جاری بحران کے حل کیلیے امریکا کے ساتھ تعاون کو تیار ہے۔

 
Load Next Story