یکم مئی اور آج کا منظرنامہ

مزدور طبقہ تمام تر پیداواری عمل میں اپنی اہمیت کے باوجود اپنے سماجی،معاشی اور سیاسی اظہار میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے۔


ناصر منصور May 01, 2017
مزدور طبقہ تمام تر پیداواری عمل میں اپنی اہمیت کے باوجود اپنے سماجی،معاشی اور سیاسی اظہار میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

آج یکم مئی ہے۔ مزدوروں کا عالمی تہوار، آج بین الاقوامی مزدور تحریک ایسے عہد سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف شکست وریخت ہے تو دوسری طرف نئے زمانے کے ظہور کے لیے جدوجہد کی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن فی الوقت سرمائے کی حیوانیت کا راج ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم اپنے سماج پر نظر ڈالیں تو ہم حیوانیت کے ایک بھیانک سیاسی اظہار یعنی آمریت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیتے ہیں، لیکن اس جمہوری فتح کے ثمرات عوام خصوصاً محنت کشوں کی دسترس میں آنے کی بجائے حکم رانوں کی امارت میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ حکمرانوں نے آمریت سے چھٹکارے کے لیے جمہوریت کو زینے کے طور پر استعمال کیا، تاکہ وہ آمروں کے کم تر حصہ دار بننے کی بجائے بلاشرکت غیرے لوٹ مار کا بازار گرم کرسکیں۔ وہ کام یاب جا رہے ہیں۔

سماجی انصاف اور قانون پر مبنی محنت کش دوست جمہوریت کی جانب مراجعت کے لیے کوئی بڑی تحریک اور جستجو کرتی عوامی قوت موجود نہیں۔ سماجی تبدیلی اور بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی خواہاں قوتیں نہ صرف کم زور ہیں بلکہ راہ ہی سے بھٹکی ہوئی ہیں۔ وہ اس قوت کی جانب دیکھ ہی نہیں رہیں اور نہ ہی متوجہ کر پا رہی ہیں جن کو وہ تبدیلی کا انجن قرار دیتی ہیں۔

سماجی تبدیلی کا انجن محنت کش یعنی مزدور، ہاری، کسان ملک کی کل آبادی کا 32 فی صد سے زائد ہیں اور بالغ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ 70 فی صد سے زائد یعنی ساڑھے چھے کروڑ کے قریب بنتا ہے۔ آج ہم اس طبقے کی گم گشتہ عظمت کے ترانے گانے کے بجائے نئے حالات میں اس کے گردوپیش کا جائزہ لیں گے اور اگر کہیں دبی چنگاری سلگ رہی تو اسے بھی کریدنے کی موہوم سی کوشش کریں گے۔

پاکستان کی لیبر فورس کا 80 فی صد سے زائد غیرمنظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ منظم ٹریڈ یونین میں اس کی شرح 2 فی صد سے زائد نہیں۔ اگر گورنمنٹ یعنی پبلک سیکٹر جس میں ریلوے، واپڈا، بلدیات، آئل گیس اور اسٹیل ملز جیسے اداروں کے مزدوروں کا شمار نہ کیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونین میں منظم مزدور ایک فی صد سے بھی کم رہ جاتے ہیں جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم تر سطح ہے۔ مزدور تحریک کو منظم کرنے کے قانونی ذرائع تیزی کے ساتھ اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔

لیبر قوانین کی ارتقائی تاریخ بتاتی ہے کہ نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملنے والے قوانین کئی لحاظ سے آج کے قوانین اور عمل درآمد کے طریقۂ کار کے اعتبار سے بہتر تھے۔ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے مزدور یونین سازی کے حق سے بہرہ مند تھے، یہاں تک کہ فوجی اداروں میں تمام سویلین اور پولیس تک کو یونین سازی کا حق حاصل تھا، لیکن بتدریج مزدوروں سے نہ صرف کئی ایک شعبوں میں یونین سازی کا حق چھین لیا گیا بل کہ اداروں میں یونین سازی کا طریقہ اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا کہ یونین سازی تقریباً ناممکن ہو کر رہ گئی۔

لیبر قوانین کی تشکیل نہایت جمہوری انداز میں طے کرنے کا سہہ فریقی طریقہ کار رائج ہے۔ یعنی مالکان، مزدور راہ نما اور حکومتی نمائندے باہمی مشاورت سے صنعتی تعلقات سے متعلق قوانین کو حتمی شکل دیتے ہیں۔ اس عمل میں مزدور ہمیشہ کم تر اور کمزور پوزیشن میں رہے ہیں۔ یوں مالکان جو کچھ خود تسلیم کرتے ہیں اس پر بھی عمل درآمد نہیں کرتے بلکہ اس کی خلاف ورزی کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔

حکومتی ادارے اور حکومتیں بلا استثنا صنعت کاروں کے خدمت گار بننے کو طرہ امتیاز سمجھتی ہیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمائے نے براہ راست سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری یا پھر جہانگیر ترین، یہ سیاست داں اور قانون سازی کرنے والے اداروں کے روح رواں ہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے صنعت کار ہیں۔ ان کے درمیان تمام تر سیاسی اختلافات اور رسہ کشی کے باوجود ایک قدر مشترکہ ہے کہ یہ سب اپنی فیکٹریوں میں مزدوروں کو یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کے بنیادی آئینی اور جمہوری حق دینے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے عظیم ترین علم بردار بھی یہی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی صنعتوں میں مزدور حقوق کے لیے آواز اٹھانا، صنعتی تنازعات کے حل کے لیے لیبر کورٹس اور لیبر ڈپارٹمنٹ سے آس لگانا پتھر کا ہوجانے کے مترادف ہے۔ یوں سیاست کی آڑ میں سرمائے کے تسلط کا بھیانک کھیل جاری ہے۔

اس ملک میں حکومتوں نے کئی ایک بین الاقوامی لیبر کنونشنز کی توثیق کی ہے اور یہ اس پر عمل درآمد کا خوش کن نقشہ بھی پیش کرتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے بھی کئی گنا بھیانک ہے، جس کا عمومی طور پر مزدوروں کے حالات کار سے متعلق تصور کیا جاتا ہے۔ غیرمنظم شعبوں یعنی زراعت، بھٹوں، گھر مزدوروں، تعمیراتی، کانکنی ودیگر سے متعلق کروڑوں مزدوروں کا کوئی پرسان نہیں ہے۔ منظم صنعتی شعبے کا مزدور جدید دور کا غلام ہے۔

قانون اور آئین کہتا ہے کہ وہ یونین بنا سکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سے زائد کام غیرقانونی ہے لیکن حقیقت میں یہی قانون ہے، ہیلتھ اور سیفٹی، پنشن اور قانون سازی حق ہے، مگر محنت کش نہ صرف اس سے محروم ہیں بلکہ اس پر بات کرنا بھی ان کے لیے بے روزگاری کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اجتماعی سوداکاری باہمی معاہدے، یونین سازی، گریجویٹی، گروپ انشورنس، پانچ فی صد سالانہ بونس جیسے حقوق لیبر قوانین کی کتابوں میں افسانوں کی طرح موجود ہیں، لیکن کوئی اس حق کو زبان پر لائے تو دیوانہ قرار پائے۔ صنعتوں کے مالکان کے نزدیک حقوق کی بات معاشی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے، جب کہ حکومتیں ان کی اس بے وزن دلیل کو عملاً تسلیم کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود غیرقانونی ٹھیکے داری نظام مختلف شکلوں میں رائج ہے۔ کام کی جگہوں پر ماحول خطرناک حد تک غیرمحفوظ ہے۔

بلدیہ فیکٹری سانحہ، شپ بریکنگ گڈانی کے سانحے اس لیے نظروں میں آگئے کہ انھیں چھپانا ناممکن ہوگیا تھا، لیکن عام فیکٹریوں، کارخانوں سے لے کر شاہراہوں، پلوں کی تعمیر، کانکنی کے دوران ہونے والے مسلسل حادثات سانحہ کی فہرست میں نہیں آتے، اس لیے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ فیکٹریاں، کارخانے اور کارگاہیں حقیقی معنوں میں موت کے پروانے جاری کرنے کے مراکز ہیں۔

نئے قوانین کی نوید سنائی جاتی ہے، لیکن مزدوروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ آئین میں ہونے والی 18ویں آئینی ترمیم نے بھی صنعتی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے مزید بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پی پی کی سابق وفاقی حکومت جہاں اس تاریخی فیصلے کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے وہیں خود اس نے آئینی ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی سطح پر لیبر منسٹری کو نئے نام سے متعارف کرایا۔

آئی آر اے 2012کے ذریعے ایک بار پھر مرکز کو صوبوں پر مسلط کردیا اور آجEOBIجیسے کئی ایک اداروں کو وفاق اور صوبوں کے درمیان فٹ بال بنا دیا گیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو لیبر سے متعلق قوانین بنانے کا کلی اختیار مل گیا۔ لیکن تیاری نہ ہونے کی بنا پر صوبے بھی عمومی طور پر ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے۔ نتیجے کے طور پر مزدور مزید مشکلات میں گِھر گئے۔ IRA2012کے تحت نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن ملنے والے اختیارات کے تحت NIRC مزدوروں کے لیے تو مذبح بن گیا ہے، جہاں مزدوروں کے

لیے یونین سازی کے دروازے بند ہیں، لیکن پاکٹ یونین رجسٹرڈ کرنے میں یہ ادارہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ NIRC میں چیئرمین کی نامزدگی حکومتی استحقاق ہے اور یہ ریٹائرڈ جج ہوتا ہے، جو تین سال کے لیے عہدے پر ہوتا ہے۔ یوں یہ ادارہ مزدوروں کو ریلیف پہنچانے کی بجائے مالکان کے تحفظ کا مضبوط مرکز بن گیا ہے۔

اگر کچھ مزدور کسی فیکٹری یا کارخانے میں صوبائی سطح پر تمام تر مشکلات کے باوجود یونین رجسٹرڈ کروا بھی لیتے ہیں تو فیکٹری انتظامیہ IRA2012کی آڑ میں بدنیتی سے دیگر کسی بھی صوبے میں اپنا آفس یا گودام ظاہر اور بین الصوبائی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرکے اپنے قانونی مشیروں کے توسط سے ایک صوبے میں موجود فیکٹری کے کچھ ورکرز اور دوسرے صوبے میں موجود گودام یا آفس کے ایک دو گھوسٹ ملازمین کی ممبر سازی اور بین الصوبائی یونین کی رجسٹریشن کے لیے NIRCسے رجوع کرتی ہے۔ یوں وہ بیک وقت دو یونینز کی رجسٹریشن حاصل کرلیتی ہے۔ اس طرح نہ صرف صوبائی سطح پر رجسٹرڈ یونین غیرفعال ہوجاتی ہے بلکہ بین الصوبائی حقیقی مزدور یونین کی رجسٹریشن کا راستہ بھی مکمل طور پر روک دیا جاتا ہے۔

مزدوروں کے لیے اسلام آباد جاکر NIRCمیں رجسٹریشن کے لیے کاغذات جمع کرانا اور مسلسل چکر لگانا معاشی طور پر تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ تمام بڑے پرائیویٹ صنعتی اداروں خصوصاََ ٹیکسٹائل، گارمنٹس میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو علم ہی نہیں کہ ان کے اداروں میں یونینز موجود ہیں اور NIRCسے مالکان نے رجسٹریشن حاصل کی ہے، تاکہ بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز کو کاغذی طور پر مطمئن کیا جاسکے اور ان کے لیے بھی کافی ہے کہ صارفین کو بتایا جا سکے کہ قانون کی پاسداری ہو رہی ہے۔

NIRC کا ادارہ مزدوروں اور مزدور تحریک کے لیے زہرقاتل اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ایسا خطرناک ہتھیار ہے جس سے رہی سہی مزدور مزاحمت کو کچلا جارہا ہے۔ NIRCمویشی منڈی کا منظر پیش کرتا ہے جہاں انصاف بکتا ہے، مزدوروں کا جانوروں کی مانند خرید وفروخت کا بازار لگتا ہے، ان کے خون اور پسینے کا سودا دن دہاڑے ہوتا ہے اور کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ صوبائی ادارے اپنے آئینی حق سے دستبردار ہوچکے ہیں اور مزدورحقوق کو وفاق کے نام پر NIRCکی قربان گاہ میں صنعتی ترقی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

ایسے میں بین الاقوامی کنونشنز کی پاسداری اور ILOکا طریقۂ کار بھی صورت حال کو تبدیل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ GSP+ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کی مصنوعات کے لیے منڈیوں کو کھولنے کے خصوصی مراعات کا معاہدہ ہے، جس کے ذریعے پاکستانی ریاست اور صنعت کاروں خصوصاً ٹیکسٹائل گارمینٹس کے شعبے کے سرمایہ داروں نے مراعات سے تو خوب استفادہ کیا، لیکن اس میں مزدور حقوق پر عمل درآمد کے وعدوں سے مسلسل انحراف روا رکھا۔ GSP+سے حکومت نے نیک نامی کمائی، مالکان اور برانڈز نے خوب منافع کمایا، لیکن مزدوروں کے حصے میں شب وروز محنت اور بدحال زندگی ہی آئی۔

یہی کچھ کئی بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز کے بین الاقوامی مزدور تنظیموں کے ساتھ ہونے والے گلوبل فریم ورک ایگریمنٹس (GFA) کے سلسلے میں بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے برانڈز صارفین کو بتا رہے ہیں کہ جن فیکٹریوں سے وہ مال حاصل کرتے ہیں وہاں ان معاہدوں کی روشنی میں مزدوروں کو تمام بنیادی حقوق مل رہے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ GFAکو ہمارے جیسے ممالک میں مزدور حقوق سے متعلق برانڈز کی مجرمانہ غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے نہ صرف استعمال کیا ہے بلکہ اپنے صارفین کو مسلسل دھوکا دیا جارہا ہے۔ پاکستان اس کی بدترین مثال ہے۔

بدقسمتی سے بین الاقوامی مزدور تنظیمیں اور ان میں شامل شمالی حصے کی ٹریڈ یونینز اپنی طاقت کی بنیاد پر بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز سے جب GFAکرتی ہیں تو جنوب کے ان کروڑوں مزدوروں اور ان کی تنظیموں سے بامعنی مشاورت کو درخور اعتنا نہیں سمجھتیں، جہاں ان معاہدوں پر عمل درآمد ہونا ہوتا ہے اور جہاں سے یہ کمپنیاں اور برانڈز اپنی مصنوعات مزدوروں کا بدترین استحصال کرکے تیار کراتی ہیں۔ اسی لیے یہ معاہدے تیزی سے بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں مزدور تحریک کو پیچیدہ اور گمبھیر چیلینجز سے مقابلے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت عرصہ دراز سے درپیش ہے۔ آج سرمائے کی تاریخی جبلت کی بنا پر ILOکا پیش کردہ تصور کہ مزدور سماج میں سوشل پارٹنر ہیں، یہ طبقاتی منافرت کی بجائے طبقاتی مفاہمت کا سوشل ڈیموکریٹک نظریہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ، جب کہ منظم مزدور تحریک کی کم زوری کی وجہ سے مزدور طبقہ سوشل کاؤنٹر پارٹ (سماجی متبادل) بننے میں بھی اب تک ناکام رہا۔

مزدور طبقہ تمام تر پیداواری عمل میں اپنی اہمیت کے باوجود اپنے سماجی، معاشی اور سیاسی اظہار میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے۔ محنت کش اپنی حقیقی شناخت سے فراریت کی راہ پر گام زن رہا۔ اس لیے سیاسی اظہار کے لیے اپنے دشمن طبقات سے آس لگاتا آیا ہے، نسلی اور قومی تفاخر کی شمع کے گرد پروانے کی طرح جل مرنے پر تیار رہتا ہے اور یہ من حیث الطبقہ خودشکستگی کے حصار سے باہر نکلنے پر عمومی طور پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا سب کچھ ہے تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔

سچ یہی ہے کہ محنت کش طبقے کے لیے کوئی چارہ گر نہیں بن سکا۔ لیکن جب بھی محنت کشوں نے خود سے اپنی قیادت سنبھالی چھوٹی ہی سہی لیکن کام یابی حاصل کی، سانحہ بلدیہ کی جدوجہد ہو یا گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت سے وابستہ مزدور ہوں یا دیگر اداروں میں جدوجہد ہو وہ اپنی جنگ خود لڑ کر فتح یاب ہوئے ہیں۔ یہی مزاحمت نئے حوصلوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔

بہت ہی چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن نئی صف بندی آہستگی اور غیرمحسوس انداز میں جنم لے رہی ہے۔ فیکٹریوں میں تنظیم سازی شجر ممنوعہ ہے تو بستیوں میں جتھا بندی روکنا ممکن نہیں۔ ملک کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60 فی صد جب کہ صنعتی مزدوروں میں نوجوانوں کی شرح 72 فی صد سے زائد ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے لیے پرجوش بھی ہیں اور حق کے لیے انفرادی کی بجائے اجتماعی طور پر لڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ اس لیے مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن یہی نوجوان محنت کش ہیں جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہے اور وہ منظم ہونے کے لیے شعوری طور پر آمادہ ہو رہے ہیں۔

یہی وہ وقت ہے کہ طاقت کے توازن کو سرمائے کے مقابلے میں محنت کشوں کے حق میں بدلنے کی طرح ڈالی جائے۔ یکم مئی کا دن اس '' طرح '' ڈالنے کے عزم کا دن ہے۔ آج یکم مئی کے عظیم موقع پر اس عہد کو دہرانا ہوگا کہ مزدور کو اپنی سب سے طاقت ور شناخت یعنی ''مزدور '' کی حیثیت سے منظم ہونا ہے اور خود کو مذہب، فرقہ نسل پرستی، لسانیت کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرنا، کیوںکہ سرمائے کے ہاتھ میں مزدوروں کے خلاف یہ سب سے خطرناک اور مہلک ہتھیار ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں