یوم مزدور کا پیغام

حق مانگا نہیں، چھینا جاتا ہے۔

یوم مئی کسی مذہب، قوم، ذات، ملک، خطے یا پھر کسی گروہ کا دن نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
دنیا میں بس دو ہی طبقے ہیں۔ ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ ایک سرمایہ دار اور دوسرا مزدور۔ پہلا زہر پلانے پر بہ ضد اور دوسرا زہر پینے پر مجبور۔ یہی دو طبقے اس سماج کی تشکیل کرتے ہیں۔

خواب دیکھنا اور وہ بھی اچھی زندگی کا خواب، ایسی زندگی جس میں خوشیاں ہوں، امن ہو، روشن مستقبل ہو، کوئی آزار نہ ہو، بس بہار ہی بہار ہو، ایسا خواب دنیا کا ہر انسان دیکھتا ہے۔ اسے دیکھنا بھی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے کہ وہ یہ خواب دیکھے۔ ایسے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے ہی دنیا کا ہر مرد و زن محنت کرتا ہے، اپنا پسینا بہاتا ہے اور ضرورت ہو تو اپنا خون بھی۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرتا ہے۔ ایک مزدور کا خواب اور اسے مجسم تعبیر کرنے کی پیہم جدوجہد، ہاں دنیا کا ہر مزدور ایسا ہی خواب دیکھتا اور اتنی ہی محنت کرتا ہے۔

دوسرا طبقہ ان مزدوروں کے خوابوں کو کچلنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ وہ مزدوروں کو ان کی محنت کا اجر دیتا تو ہے، لیکن اتنا نہیں جتنی وہ محنت کرتے ہیں۔ وہ اپنے سرمائے کی بڑھوتری کے لیے لگائی گئی بے حس مشینوں میں مزدوروں کا خون ہی نہیں ان کے خواب بھی جلاتا ہے اور اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ سرمایہ دار اور مزدور کی جنگ ازل سے برپا ہے اور دونوں ہی اپنی اس جنگ کو جیتنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہاں، ایک اور طرح کے لوگ بھی اس دنیا میں بستے ہیں اور وہ انسان دوست، بے ریا، کشادہ دل اور کشادہ فکر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی سے زیادہ دوسرے مظلوموں کی زندگی کو بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں اور اصل جوہرِ انسان یہی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی زندگی کو بہتر، آسودہ اور مطمئن بنانے کا خواب دیکھیں اور اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہوں۔ ہاں ایسے لوگ ہیں، کم ہیں لیکن ہیں ضرور، اور وہ ہر وقت رہیں گے۔

ایسا ہی ایک دن تھا جب کچھ انسان دوستوں نے جو خود مزدور تھے، ایک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر میں جُٹ گئے تھے۔ ایسا ہی ایک یادگار دن تھا یکم مئی۔ ایسا دن جس نے آنے والی نسلوں اور تاریخ پر گہرے نقوش ثبت کیے اور ایسے کہ جن کو مٹایا نہیں جاسکتا، بھلایا نہیں جاسکتا۔ یوم مئی نہ تو کوئی مقدس دن ہے، نہ ہی خوشی اور غم کا۔ یوم مئی ہنسنے اور رونے کا دن بھی نہیں ہے، یہ دن جشن منانے یا ماتم کرنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ دن سوچنے، آگے بڑھنے، اپنے مقصد اور منزل کے حصول کی جدوجہد اور انقلاب کا عزم کرنے کا دن ہے۔

یوم مئی کسی مذہب، قوم، ذات، ملک، خطے یا پھر کسی گروہ کا دن نہیں ہے۔ یہ دن ہے ایک طبقے کا، وہ طبقہ جو دنیا کے ہر خطے میں اپنی محنت سے زندگی کو روشن اور امر کرتا ہے، کرتا رہے گا۔ ایسا طبقہ جس کی محنت سے کارخانۂ حیات کے کل پرزے رواں ہیں۔

محنت کشوں کے عالمی دن کو پاکستان میں مزدور تحریک کی موجودہ کیفیت، حکم راں طبقات کے پے درپے حملوں اور ان حملوں کے خلاف جدوجہد کے لائحہ عمل کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان اسٹیل، واپڈا، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر تقریبا60 اداروں کو نجی شعبے کو فروخت کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکم رانوں کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ان اداروں کی نج کاری کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم راں نج کاری کرنا بھی چاہتے ہیں مگر محنت کشوں سے خوف زدہ بھی ہیں۔

اسٹیل مل، جو پاکستان کی صنعت کو بام عروج پر پہنچا سکتی تھی، آج خسارے کی دلدل میں دھنس چکی ہے، حکم رانوں نے دوسرے اداروں کی طرح باقاعدہ منصوبہ مندی سے اسے بوجوہ برباد کیا ہے، پچھلے کئی ماہ سے پاکستان اسٹیل کے محنت کشوں کو تن خواہیں نہیں ملی ہیں اور ان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ واپڈا جو اس ملک کے ہر شہر اور گاؤں کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی بجلی بیچ کر زرمبادلہ کا ذریعہ بن سکتا تھا، مگر آج اپنے ملک کو ہی روشن کرنے سے قاصر ہے۔


واپڈا میں نجی شعبہ سب سے پہلے نجی پاور پلانٹس کی شکل میں داخل ہوا اور اس کے بعد سے ملک میں لوڈشیڈنگ اور منہگی بجلی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہیں تھم سکا۔ آج پورے واپڈا کو بیچنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ماضی میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو اونے پونے بیچ کر حکم رانوں نے اپنے ذاتی سرمائے میں اضافہ کیا تھا، اب وہی ادارہ جو کے الیکٹرک کہلاتا ہے، کراچی کے شہریوں کا خون چوس رہا اور اپنی من مانی کرتا ہے۔

کراچی کے عوام ہر روز کے الیکٹرک کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں، لیکن اس ادارے کی انتظامیہ کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی، بل کہ جیسے جیسے مظاہروں میں شدت آتی جاتی ہے کے الیکٹرک کے رویے مزید سفاک ہوتے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان ریلوے جو ایک انتہائی منافع بخش ادارہ تھا۔ آج اس ادارے کے936 ریلوے اسٹیشنز میں سے500 سے زاید غیرفعال یا اجڑ چکے ہیں۔ اس ادارے کی بدترین صورت حال کی وجہ سے اس کی نج کاری کے امکانات بھی کم ہیں۔

اس کی حالیہ مثال ریلوے کی صرف ایک ٹرین کی نج کاری سے سامنے آئی ہے جس کو دو سال تک نجی شعبے میں دے کر اتنا منافع بخش بھی نہیں بنایا جاسکا کہ وہ لاہور، کراچی جیسے منافع بخش روٹ کا کرایہ اور واجبات حکومت کو ادا کرسکے۔ اسی طرح11اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو ایک کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کے بل کی منظوری دراصل نج کاری کو نئے انداز میں پیش کرنے کی واردات ہے۔

ملک میں قائم مختلف صنعتوں میں دیہاڑی اور ٹھیکے داری نظام رائج ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ڈیلی ویجز، کنٹریکٹ اور ٹھیکے داری نظام کو اپنے محکموں میں رائج کیا ہے، اس لیے اب حکومتیں بھی آجروں کے اس قبیح فعل کو غلط قرار نہیں دیتیں۔ حکومت کے اعلان کردہ کم سے کم اجرتوں کے نظام پر کہیں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مزدوروں سے جبراً بارہ سے پندرہ گھنٹے تک ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ کچھ نجی اداروں میں (جن میں نجی سیکیوریٹی کمپنیاں سرفہرست ہیں) تو ہفتہ وار تعطیل بھی نہیں دی جاتی، یہی وجہ ہے کہ ان محنت کشوں کو 84 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، جو حکومت کے مقرر کردہ گھنٹوں سے چوبیس گھنٹے زیادہ ہے۔

فیکٹری کی عمارتوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کے قوانین کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کی واضح مثال بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں سیکڑوں مزدوروں کی ہلاکتیں تھیں۔ مزدوروں کی اکثریت سوشل سیکیوریٹی میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ اس لیے ان کو اپنی تن خواہ کا خاصہ بڑا حصہ طبی سہولتوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پبلک سیکٹر اداروں کے محنت کشوں کے سروں پر نج کاری کا بھوت منڈلا رہا ہے، جو اپنی حقوق کے حوالے سے بے یقینی کے شکار ہیں۔

نج کاری کسی بھی نام، کسی بھی شکل اور کسی بھی سطح پر ہو، اس کا ناگزیر نتیجہ محنت کشوں کی ملازمتوں، سہولیات، مراعات کے خاتمے، تن خواہوں میں کٹوتی اور منہگائی کی شکل میں ہی نکلتا ہے۔ آج کے سرمایہ دار حکم راں تمام ریاستی اداروں کی نج کاری کی تیاری کر رہے ہیں، اس میں کہیں کام یاب بھی نظر آتے ہیں لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ نج کاری کے خلاف محنت کشوں کی تحریکیں بھی منظم اور اپنے حقوق کے لیے اٹھ رہی ہیں، جن کی وجہ سے ریاست اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پوری طرح نہیں پہنا پا رہی ہے۔ فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تحریکوں کو آپس میں مربوط کیا جائے اور منظم پیش قدمی کرتے ہوئے جارحانہ مطالبات کی طرف بڑھا جائے۔

یوم مئی کا پیغام یہ ہے کہ بربادی محنت کش طبقے کا مقدر نہیں ہے۔ اس نظام کے جبر سے نجات اس کے خلاف لڑائی اور بغاوت سے ہی ممکن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کشوں نے تمام حقوق لڑکر ہی حاصل کیے ہیں، مصلحت اور دعائوں سے خیرات ملتی ہے، حق نہیں۔ آج تو اس خیرات کی گنجائش بھی اس نظام میں نہیں ہے۔ حق چھیننا پڑتا ہے، وحشت اور اذیت کے اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔

اس کرۂ ارض پر انسانوں کی تمام ضروریات کے تمام وسائل موجود ہیں، مسئلہ ان کی ملکیت کا ہے، یہ وسائل ہمارے ہیں مگر ان پر قبضہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سامراجی اداروں کا ہے۔ ہمیں ان سے یہ سب کچھ واپس چھیننا ہے، ہم نسل انسان کے مستقبل کو بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں، ہمیں مل کر لڑنا ہے اور جیتنا بھی ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف خواب نہیں ہے بل کہ عملی طور پر عین ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدور تنظیموں کو مربوط اور منظم کیا جائے اور مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے پیش قدمی کی جائے، یہی ایک راستہ ہے جو مزدوروں کے حقوق کا ضامن بن سکتا ہے۔

 
Load Next Story