ایف پی سی سی آئی نے سیلز ٹیکس میں 2 فیصد کمی کا مطالبہ کردیا
مخفی اثاثے ظاہرکرنیوالوں کیلیے ایمنسٹی اسکیمیں لانے،ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو بھی رعایتیں دینے کی سفارش۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے لیے تجاویز ایف بی آر میں جمع کرادیں جبکہ ایف پی سی سی آئی نے بجٹ میں 2 مختلف نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کرانے اور سیلز ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد کمی کی تجویز دے دی ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق ایف پی سی سی آئی نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر موجودہ اثاثے ظاہر کرنے والوں کے لیے 3 فیصد کی شرح سے ون ٹائم ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے کی تجویز دی ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے مطابق مذکورہ ٹیکس اسکیم متعارف کرانے سے باہر کے اثاثے ملک کے اندر لانے اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جبکہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں بھی کمی ہوگی۔ اسی طرح ایف پی سی سی آئی نے سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے والوں کے لیے بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے کی تجویز دی ہے اور کہا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے رجسٹرڈ افراد ہیں جو سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز تو باقاعدگی سے جمع کراتے ہیں مگر کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث ماہانہ سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کر پاتے، اس لیے سیلزٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے والوں کے لیے بجٹ میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جائے۔
ایف پی سی سی آئی کے مطابق پاکستان میں سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے اور سیلز ٹیکس کی17فیصد شرح ہی کئی بیماریوں کی ماں ہے، سیلز ٹیکس کی شرح زیادہ ہونا ٹیکس چوری، کرپشن اور اسمگلنگ کی بنیاد وجوہات ہیں۔ امریکا میں سیلز ٹیکس کی شرح 8 فیصد، بھارت ساڑھے 12 فیصد اورانڈونیشیا میں10فیصد ہے، اس لیے بجٹ میں سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح 17فیصد سے کم کرکے 15فیصد مقرر کی جائے۔
علاوہ ازیں ایف پی سی سی آئی کے مطابق بجلی کے ماہانہ 20ہزار تک کے بل والے کمرشل اور صنعتی صارفین 80 سے 1500روپے تک کا ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اگر بل 20 ہزار سے زیاد ہ ہو تو کمرشل صارفین سے 12 فیصد اور صنعتی صارفین سے 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں بجلی کے کمرشل صارفین پر 5 فیصد اور صنعتی صارفین سے 7.5 فیصد پر ٹیکس کی وصولی فکس کی جائے۔ اسی طرح ایف پی سی سی آئی نے بجٹ میں گیس کے صنعتی صارفین سے 5فیصد اور کمرشل صارفین سے 7.5فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق ایف پی سی سی آئی نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر موجودہ اثاثے ظاہر کرنے والوں کے لیے 3 فیصد کی شرح سے ون ٹائم ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے کی تجویز دی ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے مطابق مذکورہ ٹیکس اسکیم متعارف کرانے سے باہر کے اثاثے ملک کے اندر لانے اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جبکہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں بھی کمی ہوگی۔ اسی طرح ایف پی سی سی آئی نے سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے والوں کے لیے بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے کی تجویز دی ہے اور کہا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے رجسٹرڈ افراد ہیں جو سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز تو باقاعدگی سے جمع کراتے ہیں مگر کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث ماہانہ سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کر پاتے، اس لیے سیلزٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے والوں کے لیے بجٹ میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جائے۔
ایف پی سی سی آئی کے مطابق پاکستان میں سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے اور سیلز ٹیکس کی17فیصد شرح ہی کئی بیماریوں کی ماں ہے، سیلز ٹیکس کی شرح زیادہ ہونا ٹیکس چوری، کرپشن اور اسمگلنگ کی بنیاد وجوہات ہیں۔ امریکا میں سیلز ٹیکس کی شرح 8 فیصد، بھارت ساڑھے 12 فیصد اورانڈونیشیا میں10فیصد ہے، اس لیے بجٹ میں سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح 17فیصد سے کم کرکے 15فیصد مقرر کی جائے۔
علاوہ ازیں ایف پی سی سی آئی کے مطابق بجلی کے ماہانہ 20ہزار تک کے بل والے کمرشل اور صنعتی صارفین 80 سے 1500روپے تک کا ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اگر بل 20 ہزار سے زیاد ہ ہو تو کمرشل صارفین سے 12 فیصد اور صنعتی صارفین سے 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں بجلی کے کمرشل صارفین پر 5 فیصد اور صنعتی صارفین سے 7.5 فیصد پر ٹیکس کی وصولی فکس کی جائے۔ اسی طرح ایف پی سی سی آئی نے بجٹ میں گیس کے صنعتی صارفین سے 5فیصد اور کمرشل صارفین سے 7.5فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی ہے۔