ان کے درد کا درماں کیا ہوگا
ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ محنت کشخواتین کے مصائب بڑھتے جا رہے ہیں۔
WASHINGTON:
ماہی گیری پاکستان کی اہم صنعت ہے جس سے لاکھوں خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے جس طرح میدانی علاقوں کے گائوں دیہات میں گھرکی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اسی طرح ساحلی علاقوں کے کنارے آباد ماہی گیر بستیوں کی خواتین بھی گھر چلانے میں مردوں کا مساوی ساتھ دیتی ہیں۔
ماہی گیر سمندر سے مچھلیاں اور جھینگے پکڑ کر لاتے ہیں۔ مچھلیوں کی چھانٹی اور جھینگوں کی صفائی کا کام عام طور پر خواتین کے ذمے ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین قلیل معاوضے کے عوض گھروں میں رہ کر یہ کام کرتی ہیں۔ جھینگوں کی صفائی محنت طلب کام ہے، جس کے دوران عورتوں کے ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں، بالخصوص ناخن بدنما ہوجاتے ہیں۔
عسرت زدہ بستیوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں اور فشریز میں کام کرنے والی ان محنت کش خواتین کو نہ تو صاف ستھرا ماحول میسر ہوتا ہے، اور نہ ہی کسی قسم کی سہولتیں۔ بڑے ٹھیکیدار معمولی محنتانے کے عوض ان سے کام لیتے ہیں مگر انھیں صاف ستھرے ماحول سمیت حفاظتی اور طبی سمیت کسی قسم کی کوئی سہولت مہیا نہیں کی جاتی۔
سردیوں میں جھینگوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے کام کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ مسلسل کام میں مصروف رہنے کے باعث یہ محنت کش عورتیں بیمار پڑجاتی ہیں۔ ان عورتوں میں بخار، کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ،کے علاوہ ایگزیما اور دوسرے جلدی امراض بھی عام ہیں۔ جلدی امراض کی وجہ آبی شکار کی چھانٹی اور صفائی کے دوران ان کے ہاتھ پائوں اور چہرے پر لگ جانے والا گند ہوتا ہے۔اس گند میں سمندری نمکیات اور دوسرے کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جو جلدی امراض کا سبب بنتے ہیں۔ مگر گھر کا چولھا جلانے کے لیے محنت کش خواتین اپنی صحت کی پروا نہیں کرتیں۔
زیادہ کام اور کم معاوضہ ان محنت کش ماہی گیر عورتوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ عورتیں صبح سے شام تک موسم کی شدتوں کو نظر انداز کرکے اپنے کام کو بڑی ذمے داری سے نبھاتی ہیں۔ پھر یہاں سے گھر آکر گھر کی ذمے داری پوری کرتی ہیں اس طرح سارا دن محنت میں گزرتا ہے۔ صبح پھر گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر فشریز پہنچ جاتی ہیں۔
گرمیوں میں سخت دھوپ میں بھی اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ سردی کے دنوں میں بھی ان کا کام جاری رہتا ہے اور وہ صبح سے شام تک جھینگے صاف کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ اتنی محنت و مشقت کے باوجود انھیں برائے نام معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے وہ بہ مشکل گھر چلاپاتی ہیں، مگر ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ معاوضہ بڑھانے کی بات کریں تو انھیں کام نہیں دیا جاتا۔ پھر ان کے بجائے غیر مقامی لوگوں کو کام کے لیے رکھ لیا جاتا ہے۔ یوں بے روزگاری کے خوف سے محنت کش ماہی گیر عورتیں کم معاوضے پر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ماہی گیر خاندانوں کی ان کی جفاکش عورتوں کے مسائل آج بھی وہی ہیں جو کل تھے۔ ماضی میں کراچی کے ساحلی علاقے ابراہیم حیدری میں بہت سی عورتیں مچھلیاں پکڑنے کے جال بناتی تھیں۔ ایک جال ڈیڑھ سے دو ماہ میں بن جاتا تھا جس کا معاوضہ انھیں تین ہزار روپے ملتا تھا، لیکن پھر مشینی جال کے آجانے سے ان عورتوں کے روزگار پر اثر پڑا۔ بعض خواتین سمندری جزیروں پر جاکر مچھلیوں کا شکار کرتی تھیں اور کئی جال سے مچھلیاں نکالنے کا کام کرتی تھیں۔ مگر غیر مقامی لوگ سمندر پر آنے لگے تو ماہی گیر عورتوں نے جزائر پر جانا چھوڑدیا۔ اس طرح ان کا ایک معقول اور مستقل ذریعہ معاش ختم ہوگیا۔
دوسری جانب فشریز جاکر جھینگے صاف کرنے والی محنت کش عورتوں سے کم معاوضے پر غیر حفاظتی ماحول میں زیادہ محنت طلب کام لیا جاتا ہے جس سے ان کی صحت متأثر ہوتی ہے مگر مہنگائی سے پریشان یہ عورتیں اپنی ساری تکالیف بھول کر محنت کرنے پر مجبور ہیں۔ اب تو افغان عورتیں بھی فشریز جاکر جھینگے صاف کرنے کا کام کررہی ہیں۔
ماہی گیر محنت کش عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہیئں۔ جھینگے مچھلی برآمد کرنے والے کارخانوں میں عورتیں روزانہ اجرت پر کام کرتی ہیں ایک طرف انھیں معاوضہ بہت کم دیا جاتا ہے تو دوسری جانب انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ملتی۔ وہ پیدل فاصلہ طے کرتی ہیں لیبر لاز اور سوشل سیکیورٹی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ سندھ کی جھیلوں پر ٹھیکیداری جیسا ظالمانہ نظام مسلط ہے ۔ ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ افراد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے گھر کے لیے مچھلی لے جاسکیں۔ وہ مارکیٹ میں آزادانہ طریقے سے مچھلی فروخت کرنے کے بجائے ٹھیکیداروں کو مچھلی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی مچھلی مارکیٹ کراچی فش ہار بر بڑے پیمانے پر یورپی ممالک میں مچھلی اور جھینگے برآمد کرتی ہے جس سے بڑی مقدار میں زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ماہی گیر محنت کش عورتوں کے بنیادی حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ آج دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ مگر وطن عزیز میں محنت کش عورتیں کل بھی جبرواستحصال کا شکار تھیں، آج بھی ہیں۔ ان کی یہ محرومی کب ختم ہوگی اور کب ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا؟
ماہی گیری پاکستان کی اہم صنعت ہے جس سے لاکھوں خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے جس طرح میدانی علاقوں کے گائوں دیہات میں گھرکی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اسی طرح ساحلی علاقوں کے کنارے آباد ماہی گیر بستیوں کی خواتین بھی گھر چلانے میں مردوں کا مساوی ساتھ دیتی ہیں۔
ماہی گیر سمندر سے مچھلیاں اور جھینگے پکڑ کر لاتے ہیں۔ مچھلیوں کی چھانٹی اور جھینگوں کی صفائی کا کام عام طور پر خواتین کے ذمے ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین قلیل معاوضے کے عوض گھروں میں رہ کر یہ کام کرتی ہیں۔ جھینگوں کی صفائی محنت طلب کام ہے، جس کے دوران عورتوں کے ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں، بالخصوص ناخن بدنما ہوجاتے ہیں۔
عسرت زدہ بستیوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں اور فشریز میں کام کرنے والی ان محنت کش خواتین کو نہ تو صاف ستھرا ماحول میسر ہوتا ہے، اور نہ ہی کسی قسم کی سہولتیں۔ بڑے ٹھیکیدار معمولی محنتانے کے عوض ان سے کام لیتے ہیں مگر انھیں صاف ستھرے ماحول سمیت حفاظتی اور طبی سمیت کسی قسم کی کوئی سہولت مہیا نہیں کی جاتی۔
سردیوں میں جھینگوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے کام کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ مسلسل کام میں مصروف رہنے کے باعث یہ محنت کش عورتیں بیمار پڑجاتی ہیں۔ ان عورتوں میں بخار، کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ،کے علاوہ ایگزیما اور دوسرے جلدی امراض بھی عام ہیں۔ جلدی امراض کی وجہ آبی شکار کی چھانٹی اور صفائی کے دوران ان کے ہاتھ پائوں اور چہرے پر لگ جانے والا گند ہوتا ہے۔اس گند میں سمندری نمکیات اور دوسرے کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جو جلدی امراض کا سبب بنتے ہیں۔ مگر گھر کا چولھا جلانے کے لیے محنت کش خواتین اپنی صحت کی پروا نہیں کرتیں۔
زیادہ کام اور کم معاوضہ ان محنت کش ماہی گیر عورتوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ عورتیں صبح سے شام تک موسم کی شدتوں کو نظر انداز کرکے اپنے کام کو بڑی ذمے داری سے نبھاتی ہیں۔ پھر یہاں سے گھر آکر گھر کی ذمے داری پوری کرتی ہیں اس طرح سارا دن محنت میں گزرتا ہے۔ صبح پھر گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر فشریز پہنچ جاتی ہیں۔
گرمیوں میں سخت دھوپ میں بھی اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ سردی کے دنوں میں بھی ان کا کام جاری رہتا ہے اور وہ صبح سے شام تک جھینگے صاف کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ اتنی محنت و مشقت کے باوجود انھیں برائے نام معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے وہ بہ مشکل گھر چلاپاتی ہیں، مگر ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ معاوضہ بڑھانے کی بات کریں تو انھیں کام نہیں دیا جاتا۔ پھر ان کے بجائے غیر مقامی لوگوں کو کام کے لیے رکھ لیا جاتا ہے۔ یوں بے روزگاری کے خوف سے محنت کش ماہی گیر عورتیں کم معاوضے پر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ماہی گیر خاندانوں کی ان کی جفاکش عورتوں کے مسائل آج بھی وہی ہیں جو کل تھے۔ ماضی میں کراچی کے ساحلی علاقے ابراہیم حیدری میں بہت سی عورتیں مچھلیاں پکڑنے کے جال بناتی تھیں۔ ایک جال ڈیڑھ سے دو ماہ میں بن جاتا تھا جس کا معاوضہ انھیں تین ہزار روپے ملتا تھا، لیکن پھر مشینی جال کے آجانے سے ان عورتوں کے روزگار پر اثر پڑا۔ بعض خواتین سمندری جزیروں پر جاکر مچھلیوں کا شکار کرتی تھیں اور کئی جال سے مچھلیاں نکالنے کا کام کرتی تھیں۔ مگر غیر مقامی لوگ سمندر پر آنے لگے تو ماہی گیر عورتوں نے جزائر پر جانا چھوڑدیا۔ اس طرح ان کا ایک معقول اور مستقل ذریعہ معاش ختم ہوگیا۔
دوسری جانب فشریز جاکر جھینگے صاف کرنے والی محنت کش عورتوں سے کم معاوضے پر غیر حفاظتی ماحول میں زیادہ محنت طلب کام لیا جاتا ہے جس سے ان کی صحت متأثر ہوتی ہے مگر مہنگائی سے پریشان یہ عورتیں اپنی ساری تکالیف بھول کر محنت کرنے پر مجبور ہیں۔ اب تو افغان عورتیں بھی فشریز جاکر جھینگے صاف کرنے کا کام کررہی ہیں۔
ماہی گیر محنت کش عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہیئں۔ جھینگے مچھلی برآمد کرنے والے کارخانوں میں عورتیں روزانہ اجرت پر کام کرتی ہیں ایک طرف انھیں معاوضہ بہت کم دیا جاتا ہے تو دوسری جانب انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ملتی۔ وہ پیدل فاصلہ طے کرتی ہیں لیبر لاز اور سوشل سیکیورٹی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ سندھ کی جھیلوں پر ٹھیکیداری جیسا ظالمانہ نظام مسلط ہے ۔ ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ افراد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے گھر کے لیے مچھلی لے جاسکیں۔ وہ مارکیٹ میں آزادانہ طریقے سے مچھلی فروخت کرنے کے بجائے ٹھیکیداروں کو مچھلی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی مچھلی مارکیٹ کراچی فش ہار بر بڑے پیمانے پر یورپی ممالک میں مچھلی اور جھینگے برآمد کرتی ہے جس سے بڑی مقدار میں زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ماہی گیر محنت کش عورتوں کے بنیادی حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ آج دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ مگر وطن عزیز میں محنت کش عورتیں کل بھی جبرواستحصال کا شکار تھیں، آج بھی ہیں۔ ان کی یہ محرومی کب ختم ہوگی اور کب ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا؟