سیاست کے بزرگوار
زندگی کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے معاشرے میں ہل چل رہتی ہے
ہمارے سیاسی بزرجمہر اپنی سیاسی بازی گریوں کا مظاہرہ تو کرتے ہی رہتے ہیں اور اپنی بازی گریاں عوام کو دکھاتے رہتے ہیں ۔ زندگی چلتے رہنے کا نام ہے اور اس میں جمود نہیں اگر جمود آجائے وہ ہر شے رک جائے اور یہ دنیا کا چلتا ہوا نظام درہم برہم ہو جائے۔
زندگی کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے معاشرے میں ہل چل رہتی ہے، اس کو زندگی کہتے ہیں اور اس پر صحیح معنوں میں ہمارے سیاستدان عمل کرتے ہیں اور اپنی سیاست کو رواں رکھنے کے لیے وہ مسلسل حرکت میں رہتے ہیں کیونکہ حرکت میں برکت ہے اور اس برکت کا اصل استعمال ہمارے سیاستدانوں نے سیکھا اور اسے استعمال کیا ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وقت کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگیوں کو ضرورت کے تحت تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جب ان سے اس تبدیلی کے متعلق سوال کیا جائے تو اس کا لب لباب نظریہ ضرورت ہی نکلتا ہے جس کے ہمارے یہ سیاستدان شیدائی ہیں۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں انھی سیاستدانوں نے نسل در نسل حکمرانی کی ہے اور لگتا نہیں کہ ہم آنے والے وقتوں میں بھی ان کے چنگل سے آزاد ہو سکیں کیونکہ بطور قوم ہم غلامی کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ایک آزاد ملک میں رہنے کے باوجود بھی ہمارے اندر سے غلامی کے وقتوں کے جراثیم ختم نہیں ہو سکے حالانکہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتاہے لیکن اپنی راہوں کا انتخاب اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے چونکہ ہم نسل در نسل غلامی کے عادی ہو چکے ہیں، اس لیے ستر سال کے بعد بھی ہم غلامانہ زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں ایک ایسا فیصلہ جس میں صرف اورصرف ہماری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے اور اس کی وجوہات وہی ہیں جن سے ہم آج کل گزر رہے ہیں یعنی کسی کا بھٹو زندہ ہے تو کہیں اِ ک واری فیر شیر کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے۔
اس سیاسی جمہود کو توڑنے یا اس سے آزاد ہونے کی کوشش نہیں کی جارہی اور اگر کسی سیاستدان نے اس کا نعرہ لگایا بھی ہے تو نسل در نسل اس ملک پر حکومت کرنے والوں نے گٹھ جوڑ کر کے اس کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی تا کہ ان کا تسلط برقرار رہے اور وہ اپنی باری پر اس ملک کے مختار کل کی حیثیت سے خود یا ان کی نئی نسل حکمرانی کے مزے لوٹ سکے۔
گزرے وقتوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جوانی کے نشے میں اور نئی سیاست کو چمکانے کی خاطر عوامی نعرہ لگایا اور عوام نے اس پر لبیک کہا لیکن بعد میں وہ خود بھی اسی اشرافیہ میں شامل ہوگئے چونکہ ان کا تعلق بھی اسی طبقہ سے تھا اور بعد میں اس کا خمیازہ بھی انھوں نے خود ہی بھگتا ، وہ خود تو تاریخ میں اپنا نام بنا گئے لیکن ان کے بعد وہی نسل در نسل سیاست شروع ہو گئی ۔ ہمارے ہاں ہر سیاسی خاندان نے اپنا متبادل اپنے ہی خاندان سے چن رکھا ہے اور عوامی پذیرائی کے لیے وہ اپنا نام بھی تبدیل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ بات اب ڈھکی چھی نہیں رہی کہ ہماری سیاسی پارٹیاں جن میں خاص طور پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی شامل ہیں سیاسی قیادت کے حوالے سے جمود کا شکار نظر آتی ہیں ان کو اپنے خاندان کے علاوہ کوئی ایسا جوہر قابل دکھائی نہیں دیتا جو ان کی پارٹی یا اس قوم کی قیادت کے قابل ہو وہ گھوم پھر کر اقتدار کو اپنے ہی گھر تک محدود رکھنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں البتہ یہاں پر جماعت اسلامی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جس کے بانی ابواعلیٰ مودودیؒ نے اپنی سیاسی وراثت اپنے سیاسی کارکنوں کی صورت میں چھوڑی جس کو وہ آج بھی نبھا رہے ہیں اور وہ پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں صاف اور شفاف الیکشن کے بعد ہی امیر کا انتخاب ہوتا ہے اور اس میں سیاسی جانشینی کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن سب سے جمہوری جماعت ہونے کے باوجود وہ عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکی جو اس جماعت کا حق ہے۔
اسی طرح اگر ہماری نئی نویلی جماعت تحریک انصاف اور نئی نویلی اس لیے کہ اس جماعت نے ابھی اقتدار کا وہ مزہ نہیں چکھا جو کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا وہ انصاف حصول کے لیے پچھلے چار سالوں سے مسلسل سڑکوں پر ہے اس نے روایتی سیاست سے ہٹ کر سیاست کی اوران خاندانی جماعتوں کو للکارا ہے لیکن اس کے خلاف اپنے وسیع تر مفاد میں یہ خاندانی جماعتیں اکٹھی ہو گئی کیو نکہ پہلے ایک نے پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹے اور اب دوسرا اپنی باری پوری کر رہا ہے۔
ان جید سیاسی لیڈروں نے جو کہ اب سیاسی گاڈ فادر کا خطاب بھی حاصل کر چکے ہیں چاہے آصف علی زرداری ہوں یا میاں نواز شریف دونوں ہی اپنے اقتدار کے دنوں میں اپنی فلاح کے ایجنڈے پر کاربند رہے اور اب جب کہ الیکشن کا طبل بجنے کو ہے تو ان دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کا آغاز کر دیا ہے ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دو ہزار ٓاٹھ کے الیکشن میں پہلے اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور بعد میں میاں نوز شریف کی جماعت نے ''وسیع تر ملکی مفاد'' میں اپنی سیاسی حلیفوں کو چھوڑ کر عین وقت پر الیکشن میں چھلانگ لگا دی اور اپنا سیاسی حصہ وصول کر لیا۔
الزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو ہمارے سیاسی قائدین ایک دوسرے پر لگاتے رہے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت کیو نکہ سیاست میں یہی کچھ ہوتا ہے اور الیکشن سے پہلے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال کر عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکی جاتی ہے یہ وہ الزامات ہیں جن کا وجود تو ہوتا ہے لیکن ان کو جھاڑ پونچھ کر الیکشن کی آمد سے قبل عوام کو پیش کیا جاتا ہے اور ووٹ حاصل کرتے ہی ان کو پھر کسی آنے والے وقت میں استعمال کرنے کے لیے احتیاط سے کسی کونے کھدرے میں محفوظ کر دیا جاتا ہے تا کہ بوقت ضرورت ان کی دوبارہ سے مٹی اتار کر ایک دوسرے کی پگڑی اچھالی جا سکے۔
اب ایک بار پھر قوم کے وسیع تر مفاد میں متحدہ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے کی بات چل رہی ہے اوریہ سیاسی گاڈ فادر اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے تحریک انصاف کو بھی گھیرنے کے چکر میں ہیں تا کہ وہ اس کے پرَ اپنی بچھائی گئی بساط کے مطابق کاٹ سکیں اور اس کی سیاسی اڑان کو محدود کر دیں۔
تحریک انصاف جو کہ ابھی تک خاندانی سیاسی جانشینی سے بچی ہوئی ہے اسے اپنی عوامی پذیرائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان سیاسی جگادریوں سے بچانا ہو گا تا کہ عوام میں جو امید کی کرن ابھر چکی ہے اس کو ماند نہ پڑنے دیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ اب گیندعوام کے کورٹ میں بھی ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں انھی سیاسی گارڈ فادروں کی غلامی میں رہنا پسند کریں گے یا اپنے لیے آزادی کاا نتخا ب کرتے ہوئے ان کے چنگل سے آزادی کو ترجیح دیں گے یا یوں کہ اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہیں گے۔