آئین میں دو الفاظ بدلنے کی ایک تجویز

تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ملک کے غریب لوگوں کے لیے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا مزید مشکل بنا دیا ہے

پانامہ لیکس ہوں یا ڈان لیکس، قانونی موشگافیوں اور ماہرانہ داؤپیچ کے بعد حتمی فیصلے جو بھی سامنے آئیں، پاکستان کے عوام کی حالت بہتر ہونے کے امکانات نمایاں نہیں ہورہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان نئے نئے عنوانات سے ہوتی رہنے والی رسہ کشی میں کچھ افراد اور طبقات کے لیے کوئی فائدہ (Gain)ہو تو ہو، عوام کے لیے توکوئی فلاح نظر نہیں آتی۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ملک کے غریب لوگوں کے لیے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ غریب طبقے کی محرومیوں نے اُن کی عزتِ نفس کو بھی بُری طرح مجروح کیا ہے۔ لوئر مڈل کلاس یا متوسط طبقے کا حال بھی کچھ بہتر نہیں۔

سی پیک سے وابستہ اُمیدیں اپنی جگہ لیکن فی الحال تو بجلی اورگیس کا بحران پاکستان میں کئی صنعتوں خصوصاً ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بری طرح متاثر کرچکا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کے لیے سب سے زیادہ روزگار اور سب سے زیادہ فارن ایکسچینج فراہم کرنے والی انڈسٹری ہے ۔ انڈسٹری کے متاثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر لوگ روزگار سے محروم ہوں گے اور ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کم ہونے سے پاکستان کوملنے والے فارن ایکسچینج میں کمی آئے گی۔

پچھلی کئی دہائیوں سے حکومتوں میں کام کرنے والے پالیسی سازوں اور اکنامک مینجرزکی شدید ترین نا اہلی یا کھلی بددیانتی کی وجہ سے پاکستانی قوم کو تھرمل ذرایع سے وصول ہونے والی بجلی کی مہنگی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ پاکستان میں شمال تا جنوب بسنے والے سیکڑوں میل طویل صدیوں سے اس خطے کو حیات اور خوشحالی بخشنے والے دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر ڈیم بنا کر سستی ہائیڈل بجلی، دھوپ اورہوا سے انتہائی سستی شمسی اور ہوائی بجلی حاصل کرکے ہم اپنی صنعتوں کو دو تین روپے فی یونٹ بجلی وافر مقدار میں فراہم کرسکتے تھے۔ لیکن وطن سے کمٹ منٹ نہ ہونے، دولت کی شدید ہوس میں مبتلا ہو کر رشوت، کمیشن اورکک بیکس جیسے حرام اور خلافِ قانون ذرایع اختیار کرکے پاکستان کے مفادات کو اور پاکستانی عوام کی فلاح کو بیچا جاتا رہا۔

یہ کام قومی اور جمہوری ہر دور حکومت میں کھلے یا چھپے ہوتا رہا ہے۔عالمی منڈیوں میں گئے برسوں میں تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ کمی کو بھی پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔ یاد رہے کہ تیل کی قیمت فی بیرل 145ڈالر سے کم ہو کر 28 ڈالر فی بیرل کی کم ترین سطح تک گر گئی تھی۔

ہر ملک، ہر قوم میں لوگوں کی اکثریت امن پسند، خیر پر عمل پیرا، شرکو ناپسندکرنیو الی، قانون اور اچھی روایات کی پابند ہوتی ہے۔ چند لوگ شر پسند، فساد اور بگاڑ پھیلانے والے بھی ہوتے ہیں۔ نئے نئے قوانین زیادہ تر انھی چند لوگوں کی بری حرکتوں کے بعد بنانے پڑتے ہیں۔ چند لوگوں کے شر سے اکثریت کو محفوظ رکھنے کے لیے بنائے جانے والے قوانین اور ضابطوں کا اطلاق بہرحال سب پر ہوتا ہے۔اس امرکی وضاحت کے لیے ہمارے معاشرے میں چاروں طرف کئی مثالیں موجود ہیں۔

سن 60ء اور 70ء کے عشروں میں ہوائی سفر کرنے والوں کو بخوبی یاد ہوگا کہ ائیر پورٹس تک عام آدمی کو با آسانی رسائی ہوتی تھی۔ مسافر بغیر کسی تلاشی کے ایئر پورٹ میں مختلف لاؤنجز میں جاتے اور جہاز پر سوار ہوجاتے تھے۔ پھر چند افراد کی جانب سے ہوائی جہازوں کے اغوا کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان محض چند افراد کی وجہ سے ہوائی سفر کرنے والے کروڑوں مسافروں کے تحفظ کے نئے نئے رولز بنائے گئے۔ ہر مسافر کی جسمانی اور اس کے سامان کی تلاشی کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اسٹیشنز قائم کیے گئے۔

ائیر پورٹس کی عمارتوں، تنصیبات، ہوائی جہاز، عملے اور مسافروں کی سیکیورٹی اور نگرانی کے لیے دن بہ دن نئے نئے آلات اور طریقے وضع ہورہے ہیں۔ دنیا بھر میں محض چند سو تخریب کار جہاز اغوا کرنا چاہتے ہوں گے لیکن ان چند سو افراد کے تخریبی عزائم سے تحفط کے لیے کروڑوں مسافروں کو سیفٹی کے ضابطوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔


دنیا کے مہذب اور منظم ملکوں میں عوام جھوٹ، خیانت اور جرم سے نفرت کرتے ہیں۔ ان خرابیوں کو اور ان کے مرتکبین کو معاشرے میں قبول نہیں کیا جاتا۔جرائم سے وسیع پیمانے پر نفرت اور بیزاری کے باوجود جرائم کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے ۔ جرائم سے تحفظ کے لیے وسیع تر حفاظتی قوانین اور فرائض کی ادائیگی کے جذبوں سے سرشار افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں جھوٹ عام ہوجائے، امانت کی پاس داری ختم ہوجائے، نفاذ قانون کے ذمے دار افراد قوانین اور ضابطوں کو خود ہی چکمہ دینے لگیں وہاں کئی قوانین کے باوجود ہر طرح کے سفید وسیاہ جرائم تیزی سے پھیلتے ہیں۔

کسی معاشرے میں ناجائز اور حرام آمدنی کو قبول عام مل جانا، اس معاشرے کی بقا اور فلاح کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی کرپشن ہمیشہ موجود رہی ہے، لیکن اس میں تیز رفتار اضافہ جنرل ضیاء الحق کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ہوا ۔ایک تکلیف دہ مشاہدہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے بعد سے پاکستانی معاشرے میں ناجائز اور حرام آمدنی سے نفرت یا بیزاری بتدریج کم ہوتی رہی اور ہرطرح کی دولت کو قبول عام ملنے لگا۔

جب لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہ رہی کہ ایک شخص اپنے معلوم ذرایع آمدنی سے بڑھ کر ایک باثروت زندگی کیسے گزار رہا ہے تو ناجائز کمانے والے سیاستدانوں، افسروں، تاجروں، صنعتکاروں، زمینداروں کے دلوں سے بھی حرام آمدنی سے بیزاری، لوگوں کی شرم اور جواب دہی کا خوف دور ہوتا گیا۔ بے شمار لوگ نیک کاموں میں ایک دوسرے کے معاون بننے کے بجائے غیرقانونی اور حرام کمانے میں ایک دوسرے کے ساتھی اور معاون بننے لگے۔

جب کسی طبقے یا کسی قوم میں صورت حال اس قدر خراب ہوجائے کہ برائیاں خود چھتری بن کر برے لوگوں کو تحفظ دینے لگیں تو وہاں اینٹی کرپشن اداروں، آڈٹ ، نیب، انٹیلی جنس اداروں کے ہوتے ہوئے بھی مالیاتی جرائم (Financial Crimes) بڑھتے رہتے ہیں۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ذرایع سے ناجائز دولت کمانے والا کسی اعتراض کرنے والے کے سامنے بڑے اطمینان سے کہہ دیتا ہے کہ تمہارے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت ہے تو لے آؤ۔ واقعی کسی کو اپنی آنکھوں سے رشوت لیتے دیکھنے کے باوجود عدالت میں ثابت کرنے کے لیے معترض کے پاس عدالت کے معیار یا اطمینان کے مطابق کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

ناجائز اور غیر قانونی آمدنی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ کسی معاشرے کی اخلاقیات کو بھی تباہ کردیتا ہے۔ ایسے معاشروں میں دیانت دار، دردمند اور مخلص لوگ ناقدری اور تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں۔ طبقہ ٔ اشرافیہ میں کرپٹ اور بُرے اخلاق والے افراد کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جھوٹ بولنا ایک فن اور امانت کی پاسداری احمقانہ عمل قرار دیا جاتا ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے، اعمال کی بنیاد نیت پر ہے۔ نیت اچھی ہے تو کسی کام کا اچھا اجر ہے، نیت خراب ہے تو بظاہر اچھا نظرآنے والا عمل بھی خسارے کا سودا ہے۔ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے لیکن اس کا جھوٹ قانونی حیلوں کے سبب کسی عدالت میں ثابت نہ کیا جاسکے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک صادق القول شخص ہے۔ ایک شخص امانت میں خیانت کرتا ہے لیکن یہ خیانت قانونی موشگافیوں کے سبب عدالت میں ثابت نہ کی جاسکے تو ایسا شخص امین کہلانے کا مستحق بہر حال نہیں ہے۔

ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں کہ جھوٹ عام ہے۔ جائیداد کی خریدو فروخت میں ٹیکس سے بچنے کے لیے جائیداد کی ویلیو اصل سے بہت کم ظاہر کرنے والوں میں سیاستدان، افسران، ججز، صحافیوں، تاجروں، صنعتکاروں سمیت معاشرے کے ہر طبقے میں سے افراد شامل نہیں ہیں؟

جب ہمارے چاروں طرف جھوٹ پھیلا ہوا ہے، ہمارے اکابرین سمیت بے شمار لوگ اپنے چھوٹے بڑے مفادات کے لیے کسی جوابداہی کے خوف کے بغیر بے فکری سے جھوٹ بول دیتے ہیں تو ہم صادق اور امین کی قانونی تشریحات میں الجھ کرکسے مطمئن کررہے ہوتے ہیں، اگر سچائی صرف وہ تسلیم کی جائے جسے عدالت سچ مانے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آئین میں صادق اورامین کے الفاظ دیگر مناسب قانونی الفاظ سے تبدیل کرنے پرغورکیا جائے۔
Load Next Story