سیاسی فرشتہ کوئی نہیں
سیاسی مفاد کے لیے سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ رہنما بھی پیش پیش ہوتے ہیں
سپریم کورٹ سے وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں فیصلے کے بعد عمران خان نے کہا اب میں آصف علی زرداری کے پیچھے پڑوں گا اور نواز شریف کے بے نقاب ہونے کے بعد آصف زرداری کو بے نقاب کروں گا۔
سابق صدر آصف زرداری بھی نواز شریف کو اپنی طرف سے غیر شفاف قرار دینے اور ان کا اب فون بھی اٹینڈ نہ کرنے کے اعلان کے بعد وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرچکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ میں جانتا ہوں نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے حالانکہ وہ اب سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں کی طرف سے صادق و امین نہیں رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے قریبی عزیز اور وزیر مملکت سابق صدرکو کرپٹ قرار دینے اور ان کے لیے بھی جے آئی ٹی بنانے اور ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما جواب میں اسے سیاسی حماقت قرار دے رہے ہیں۔
مسلم لیگی رہنما الیکشن کمیشن سے بار بار فرار اور حکم امتناعی لینے پر عمران خان کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں تو چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار بھی عمران خان کو کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک عام آدمی نہیں قومی لیڈر ہیں اس لیے قومی اداروں کا احترام کریں اور مثبت الفاظ کا استعمال کیا کریں۔
سابق وزیر اعظم کے شوہر نامدار پر ان کی مبینہ کرپشن جو اب تک ثابت ہی نہیں کی جاسکی ٹین پرسنٹ کا جو الزام لگا تھا وہ اب ترقی پا چکا ہے مگر وہ کسی عدالت سے صادق و امین نہ ہونا قرار نہ پائے مگر ان کے مخالفین انھیں صادق و امین نہیں کہتے اور اس طرح تینوں قومی رہنما اپنے مخالفین کی طرف سے سنگین الزامات کا نشانہ بن رہے ہیں اور تینوں کے حامی انھیں فرشتہ سمجھتے ہیں ۔ وزیراعظم کے حامی تو انھیں دو سینئر ججوں کے فیصلے کے بعد بھی صادق اور امین ہی سمجھ رہے ہیں اور آصف علی زرداری اور عمران خان سے بہتر قرار دے رہے ہیں۔
ہماری سیاست اس مقام پر آچکی ہے جہاں نظریاتی سیاست کم اور مفاداتی سیاست عروج پر ہے اور ذاتی مفاد کے لیے سیاسی کارکن اپنے رہنما کے خلاف کوئی بات سر عام سننے کو تیار نہیں اور فوراً لڑ پڑتے ہیں جب کہ اکیلے اور آپس میں اپنا کام نہ ہونے اور مفاد پورا نہ ہونے پر وہ اپنے قائد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اس امید پر رہتے ہیں کہ انھیں بھی سیاسی فائدہ پارٹی میں رہنے سے مل ہی جائے گا، اس لیے چاپلوسی جاری رہتی ہے۔
سیاسی مفاد کے لیے سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ رہنما بھی پیش پیش ہوتے ہیں اور دور کی سوچتے ہوئے مفادات کے لیے سیاسی فیصلے کرتے ہیں مگر ان کے کارکن ان سے کچھ پوچھ نہیں سکتے کہ وہ اپنی سیاسی وفاداری کیوں تبدیل کر رہے ہیں۔ تقریباً پچاس سال قبل جب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تھی اس میں نظریاتی لوگ پہلے شامل ہوئے تھے اور ایوب خان کو جاتا دیکھ کر مسلم لیگی پی پی میں بڑی تعداد میں آئے تو پی پی کے ابتدائی مخالف جاگیردار کیوں پیچھے رہتے وہ ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں۔ پھر پی پی پر جاگیرداروں کے قبضے کے بعد پی پی میں شامل ہونے والے نظریاتی رہنما ڈاکٹر مبشر حسن، مختار رانا، محمود علی قصوری، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد، میر رسول بخش تالپور، علی احمد تالپور و دیگر پی پی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور بعض سیاست ہی چھوڑگئے۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد مفاد پرست مسلم لیگی بن گئے اور باریاں لینے والی پارٹیوں کی حکومتوں میں مزے لوٹتے رہے اور ان کا مسلم لیگ اور پی پی میں آنا جانا لگا رہا۔ وہ بعد میں جنرل پرویز حکومت کے ساتھ رہے اور اب جنرل پرویز کے پرانے ساتھی مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں نمایاں ہیں۔ (ن) لیگ اور پی پی سے مایوس رہنما پی ٹی آئی میں آئے اور پھر معراج محمد خان، جسٹس وجیہہ الدین جیسے دیگر رہنما پی ٹی آئی سے بھی مایوس ہوکرگھر جا بیٹھے۔
پی ٹی آئی میں نئے لوگ کم اور پی پی اور (ن) لیگ میں رہنے والے سیاستدان بڑھتے جا رہے ہیں۔ اصولوں کی بات کرنے والے نواز شریف اور عمران خان کی بھی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ دیگر پارٹیوں سے آنے والے مفاد پرستوں کو قبول کرلیں جب کہ آصف زرداری پی پی چھوڑ کر چلے جانے والوں کو قبول کر رہے ہیں۔ انھوں نے عمران خان کے لیے کہہ دیا کہ عمران خان پشتو بولے بغیر پٹھان نہیں بن سکتے بلکہ سندھ میں سندھی بولنے والے اردو اسپیکنگ افراد کے لیے خورشید شاہ کہہ چکے ہیں کہ سندھی بول کر اردو بولنے والا سندھی نہیں بن جاتا۔
آصف زرداری اور پی پی رہنما خورشید شاہ کے مختلف سیاسی موقف لوگوں کو سوچنے پر مجبورکردیتے ہیں۔ تینوں بڑی پارٹیاں ایک دوسرے ہی کے نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کو فخر سے قبول کر رہی ہیں اور سیاسی فرشتوں کی وفاداری تبدیل کرکے انھیں اپنے ساتھ ملانے میں کوئی عار نہیں سمجھ رہیں کیونکہ وہ اب ان کے پاس آکر مسٹر کلین ہوگئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے 2.3 کے فیصلے کو ہر پارٹی اپنے مطلب کے معنی پہنا رہی ہے۔ نواز شریف کے حامی انھیں استعفیٰ نہیں دینے دیں گے وگرنہ ان کے مفادات متاثر ہوں گے اور نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے والوں کو اپنی انتخابی مہم اسی مطالبے پر چلانی ہے جب کہ دونوں فریقوں میں فرشتہ کوئی نہیں ہے۔ موجودہ حکمران آسرے دلاسوں پر چار سال گزار چکے اور ان کے مخالف پانچواں سال کسی صورت آرام سے گزارنے نہیں دیں گے۔
اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا وقت گزر چکا اور اب عوام کی ہمدردی یا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اب انھیں عوام کے پاس جانا ہوگا اور عوام کو ریلیف دینا ہوگا کیونکہ وزارت خزانہ نے انھیں عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے روکا ہوا تھا اور چار سال وزارت خزانہ مختلف طریقوں سے امیروں کی بجائے غریبوں سے ٹیکس نکلوانے کی ماہر رہی ہے۔ چار سال بجٹوں میں عوام کو گمراہ کرکے لوٹا جاتا رہا۔ آنے والی نسلوں کو بھی مقروض کرا دیا گیا مگر مہنگائی کم ہوئی نہ غربت اور وزیر اعظم وزارت خزانہ کی ہنر مندی پر خاموش رہے اور انھیں دیگر سیاسی فرشتوں کی طرح عوام کا خیال نہیں آیا۔
لوڈ شیڈنگ اور امن و امان ہی نہیں قوم کی اکثریت کی ضرورت مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ہے اور حکومت نے چار سال میں انھیں بڑھا بڑھا کر عوام کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم مستعفی ہوں یا نہ ہوں وہ کبھی فرشتے بھی نہیں رہے عوام کو کسی کے فرشتے ہونے سے نہیں اپنے مسائل کی فکر ہے۔ اس لیے اب وزیر اعظم حقیقی خادم اعظم بن جائیں اور عوام کے لیے کچھ کر ہی جائیں۔