مزدور تحریکیں و عصر حاضر
شکاگو کا سانحہ محنت کشوں کے لیے کوئی آخری سانحہ نہ تھا
ایک بہت بڑی غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ یکم مئی 1886 کو شکاگو کے محنت کش شاید اچانک ہی اپنے مطالبات تسلیم کروانے کے لیے کلورمک کے ٹریکٹر سازی کے کارخانے کے سامنے ہجوم درہجوم امڈے چلے آئے تھے اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے جان سے گئے تھے۔ یہ ضرور تھا کہ یکم مئی 1886 کا شکاگو میں محنت کشوں کا احتجاج نقطہ عروج پر تھا مگر اس سے قبل بھی احتجاجی تحریکیں مختلف اشکال میں موجود تھیں۔
البتہ صداقت یہی ہے کہ یکم مئی 1886 کو شکاگو میں ہونے والے خون ریز احتجاج نے دنیا بھرکے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے شعور دیا اور دنیا بھرکے محنت کش عملی طور پر متحد ہوگئے اور ان محنت کشوں کے لیے حصول حقوق کا عمل شروع ہوگیا۔ بہرکیف یہ ضرور تھا کہ کام کے گھنٹے کم کروانے کے لیے احتجاج دنیا بھر میں ہوتا رہا ہے۔
اس سلسلے میں اس نشست میں ہم خواتین محنت کشوں کی ہی جدوجہد کا ذکرکریں تو وہ ان الفاظ میں عرض کریں گے کہ 1820میں مانچسٹر انگلستان میں گارمنٹس کی صنعت سے وابستہ خواتین نے ایک بھرپور احتجاج منظم کیا یہ خواتین صبح 5 بجے کام پر آتیں ان خواتین کے لیے ضروری تھا کہ خالی پیٹ کام پر آئیں۔
فیکٹری مالکان کا یہ موقف تھا کہ اگر یہ خواتین ناشتہ کرکے کام شروع کریں گی تو ان کی کام کی رفتار سست پڑ جائے گی جب کہ ان خواتین کو ہفتہ بھر میں حاصل اجرت تھی فقط 3 پونڈز، جس میں سے ڈیڑھ پونڈ ان خواتین کو ملنے والی بورڈنگ ہاؤس میں رہائش کے عوض وصول کرلیے جاتے جب کہ ان خواتین کے کام کے گھنٹے بھی لامحدود ہی تھے۔ چنانچہ ان خواتین کا احتجاج اس لیے تھا کہ ان کے یومیہ کام کے گھنٹے 10 کردیے جائیں، مگر یہ خواتین اپنے کام کے گھنٹے کم نہ کروا سکیں کہ یہ خواتین غیرمنظم بھی تھیں چنانچہ ان خواتین کو کام پر واپس آنا پڑا جب کہ اسی مانچسٹر کی فیکٹری کی خواتین نے 1834 اور 1836 میں اپنے حقوق کے لیے بھرپور احتجاج کیے مگر لاحاصل۔
1944 میں باہمت خواتین نے لا فیمیل لیبر ایسوسی ایشن تنظیم قائم کی اور بیان کیا جاتا ہے کہ یہ خواتین کام کے 10 گھنٹے کروانے میں کامیاب ہوگئیں جب کہ خواتین محنت کشوں کی ایک تحریک کا ذکر 1857 کا بھی ہے۔ یہ تحریک امریکا کی خواتین نے اپنے کام کے 10 گھنٹے کروانے کے لیے چلائی تھی یہ خواتین بھی گارمنٹس کی صنعت سے وابستہ تھیں اور ان خواتین کا تعلق نیویارک سے تھا، اس تحریک کو ریاستی قوت سے کچل دیا گیا۔
اسی طرح دنیا بھر میں مختلف اوقات میں مختلف تحاریک چلتی رہیں یہاں تک 1886 کا شکاگو کا سانحہ پیش آگیا، شکاگو کا سانحہ محنت کشوں کے لیے کوئی آخری سانحہ نہ تھا بلکہ اس شکاگو سانحے کے بعد دنیا بھر کے محنت کشوں کی آواز کو دبانے کے لیے پوری پوری ریاستی قوتیں استعمال ہونے لگیں۔ یہ ضرور ہوتا رہا کہ محنت کشوں نے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی اوراپنی جدوجہد کے عوض وہ کسی حد تک ایک ایک کرکے اپنے حقوق حاصل کرتے رہے۔
ہم فقط خواتین کی تحریکوں ہی کا ذکر کررہے ہیں تو خواتین کی ایک تحریک کا ذکر 1903 کا بھی ہے جیسے تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کرلیا ہے، چنانچہ 1903 میں ہی امریکی محنت کش خواتین نے ایک تنظیم نیشنل وومن ٹریڈ یونین لیگ کے نام سے قائم کی۔ یہ ایک منظم تنظیم ثابت ہوئی اس تنظیم سے وابستہ خواتین ہر اس جدوجہد میں شریک ہوجاتی جوکہ خواتین اپنے حقوق کے لیے کرتیں۔
اس منظم تحریک کے باعث محنت کش خواتین اپنے حقوق کے حصول کی جانب گامزن رہیں یہ ضرور تھا کہ ان خواتین کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں یعنی ان خواتین نے عدالتوں کا سامنا بھی کیا اور جیل یاترا بھی کی، بالخصوص ٹرائی اینگل ویسٹ کی خواتین کی جدوجہد بے مثال رہی۔
یہ اسی ٹرائی اینگل ویسٹ کا ذکر ہے جہاں 1904 میں تاریخ کی بدترین آتشزدگی ہوئی اور یہ آتشزدگی 146 خواتین جن میں نو عمر بچیاں بھی تھیں کی زندگیاں نگل گئی جیسے کہ ہمارے ہاں سانحہ بلدیہ ٹاؤن، علی انٹر پرائززکراچی پیش آیا اور 260 زندگیاں نگل گیا، بہرکیف صداقت یہی ہے کہ شکاگو سانحہ کے بعد دنیا بھر کے محنت کشوں نے پوری قوت سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور اس جدوجہد کا ثمر بھی حاصل کیا مگر اس صداقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ 1980 کے بعد سے محنت کشوں کو دی گئی تمام مراعات ایک ایک کرکے واپس لینے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
یہ مراعات واپس لینے کا سلسلہ فقط ترقی پزیر ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ چند ماہ قبل جرمنی سے تشریف لانے والے ایک ادیب نے دوران گفتگو تمام حاضرین کو اس وقت ورطہ حیرت میں یہ انکشاف کرکے ڈال دیا کہ محنت کشوں کو دی گئی مراعات واپس لینے کا سلسلہ جرمنی کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک تک پھیل چکا ہے۔
بہرکیف ذکر خیر اگر وطن عزیز کا کریں تو 1947 کے بعد جب بھی پاکستان کے صنعتی شعبے سے وابستہ محنت کشوں نے جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے تو ضرورکچھ مراعات لی ہیں مگر 1977 اور اس کے بعد پاکستانی محنت کش سیاست کی نظر ہوگئے اور ان محنت کشوں کی تمام تر جدوجہد اپنی اپنی سیاسی جماعتوں تک محدود ہوگئی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
نتیجہ یہ کہ آج کا پاکستانی محنت کش مکمل طور پر ٹھیکیداری نظام میں جکڑ دیا گیا ہے۔ اب ان محنت کشوں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت تمام قسم کی مراعات سے محروم کردیا گیا ہے، چنانچہ آج کے محنت کش کو جب انتظامیہ چاہے ملازمت سے بے دخل کردیتی ہے حد تو یہ ہے کہ گزشتہ برس ایک ہی روز میں کورنگی کی ایک فیکٹری سے 850 خواتین اور 130 مرد ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔
بعدازاں معلوم ہوا کہ اس فیکٹری کا مالک ایک نام نہاد دانشور بھی ہے اور ایک بڑے اخبار میں کالم بھی لکھتا ہے جب کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں محنت کشوں نے کسی بڑے ہدف کے لیے کبھی احتجاج بھی نہیں کیا، ماسوائے سانحہ بلدیہ علی انٹرپرائزز کے متاثرین کے لیے فقط نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما و کارکنان آواز بلند کر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ یہ لوگ تمام مطالبات منوانے تک خاموش نہیں بیٹھیں گے البتہ اگر ہمارے سماج کے محنت کشوں کا مقصود اپنے حقوق کا حصول ہے تو پھر ان محنت کشوں کو اپنی سیاسی جماعت تشکیل دینا ہوگی۔
ایسی سیاسی جماعت جس کی قیادت بھی محنت کشوں کے ہاتھ میں ہو، پھر وہ جماعت محنت کشوں کی آمریت قائم کرنے کے لیے حقیقی جدوجہد کرے تاکہ سماج میں حقیقی تبدیلی آسکے۔ یاد رہے بقول عظیم دانشور و فلسفی کارل مارکس کے کہ سماج میں تبدیلی فقط سیاسی جماعت نہیں لاتی بلکہ سیاسی جماعت فقط قیادت کرتی ہے حقیقی تبدیلی عوام ہی لاتے ہیں اور عوام میں فقط صنعتی مزدور نہیں ہوتے بلکہ زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں البتہ صنعتی مزدور شعوری طور پر آگے بڑھا ہوا طبقہ ضرور ہوتا ہے جوکہ جدوجہد میں آگے بڑھ کر رہنما کردار ادا کرتا ہے آخر میں یکم مئی 1886 کے شکاگو کے محنت کشوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔اس عزم کے ساتھ کہ تمام حقوق کے حصول تک جدوجہد جاری رہے گی مسلسل جدوجہد۔