میاں صاحب دشت امکاں اور سہہ پہر کا مکالمہ

جہاں افراد طاقتور ہوں وہاں ادارے اور قانون کی حکمرانی ایک خوابِ لاحاصل سے زیادہ کچھ نہیں۔


میاں صاحب اداروں کو مضبوط ہوتا پنپتا دیکھ نہیں سکتے۔ اُن کا کارِ حکومت تو ذاتی وفادری اور جز وقتیت پر مبنی ہے۔ فوٹو: فائل

میاں صاحب اگر ''ماریو پوزو'' کے گاڈ فادر نہیں ہیں تو Kate Christensen کے ناول The Epicure's Lament کے Hugo Whittier ضرور ہیں۔ یقین مانیے، میں میاں صاحب کی بابت میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وہ ایک بھولے سے سیاست دان ہیں اور کارِ سیاست کی پیچیدگیوں سے یکسر نا آشنا مگر حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔

میاں صاحب ایک انتہائی گھاگ سیاست دان کے طور پر اُبھرے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں فوج کے ساتھ بھی ہیں اور اس کے مخالف بھی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہیں اور اُس کے حریف بھی ہیں۔ وہ لبرل بھی ہیں اور اُن سے بڑا قدامت پرست بھی کوئی نہیں۔ وہ جمہور کے حامی ہیں مگر جتنی جمہوری قدغنیں اُن کے دور میں آئین اور قانون کا حصہ بنی ہیں، اِس کی رو سے شاید یہ بلاشبہ سیاہ ترین جمہوری دور کہلایا جاسکتا ہے۔ اب اصل میں میاں صاحب کیا ہیں یہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔

وجاہت مسعود لکھتے تو خوب ہیں مگر جتنے بھی نظام کے تسلسل اور جمہوری احیاء کے حق میں دلائل دے لیں مگر یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ میاں صاحب کے اِس دور نے جتنا شہری آزادیوں کو سلب کیا ہے وہ شاید کسی آمرانہ یا فسطائی دور میں بھی ممکن نہ ہوسکتا۔ خورشید ندیم صاحب بھی اِس ضمن میں اپنی توجیہہ دے سکتے ہیں۔ کیا اِس حقیقت سے فرار ممکن ہے کہ سانحہِ پشاور کی آڑ میں جو کاغذ کی فصیل ہم نے بنائی، اُس نے راسخ الاعتقاد، بنیاد پرست اور قدامت پسند سوچ کی ایسی نئی فصل کاشت کی جو ضیائی دور کی تنگ نظری کو بھی مات دے گئی اور جس کو ہم کبھی مردان تو کبھی چترال میں کاٹ رہے ہیں۔

قدیم یونانی مورخ ''تھیسی ڈائڈز'' نے اپنی کتاب The History of Peloponnesian War میں لکھا تھا کہ سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کامیاب سیاست دان وہ ہے جو موقع پرست ہو اور حالات کو اپنے حق میں کرنے کا ہُنر جانتا ہو۔ عمران خان نواز شریف کے ہاتھوں پے در پے مار اِسی لئے کھا رہے ہیں کہ نواز حقیت پسند ہیں اور خان مثالیت پسند۔ قضیے کو چھوڑیں ڈان لیکس کی طرف آئیں، مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے اور بہت پیچیدہ بھی نہیں۔

گزارش بس یہ ہے کہ میاں صاحب اور میر شکیل الرحمان کا 2013ء کے الیکشن سے پہلے اِس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ جیو، ن لیگ کو الیکشن میں سپورٹ کرے گا جب کہ ن لیگ الیکشن جیت کر سویلین بالادستی کو بحال کرے گی۔ فوج کو اِس کے آئینی کردار کی طرف دھکیلا جائے گا اور یوں میاں صاحب طیب اردگان بن کر اُبھریں گے اور پاکستان معاشی ترقی کی منزلیں روز افزوں طے کرے گا اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ میر نے کیا ہی خوبصورت الفاظ میں لکھا تھا،
شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

میاں صاحب جہاں غلطی کر گئے یا یوں کہیں چوک گئے وہ نظریہِ جمہوریت کی بنیادی سی اکائی تھی کہ جمہوریت انتخابی عمل کا نام نہیں، بلکہ حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کا نام ہے۔

ہم میں سے بیشتر لوگ فوج کے سیاسی کردار کے ناقد ہیں اور بجا طور پر ہیں مگر میاں صاحب اور اُن کے رفقاء نے فوج پر وار کا راستہ چنا اور یوں حامد میر حملہ کیس کی آڑ میں فوج پر لشکر کشی کی گئی۔ دلیل اور غلیل کوئی بہت پرانا قصہ نہیں،
ﺳﺐ ﻓﺴﺎﻧﮯ ہیں ﺩنیاﺩﺍﺭﯼ ﮐﮯ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﻟﻮﭨﺎ ہے
ﺳﭻ ﺗﻮ ﯾﮧ ہے کہ ﺍِﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭨﺎ ہوﮞ ﺗُﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭨﺎ ہے

فوج کے میاں صاحب کی بابت میں جو تحفظات ہیں اُن کا بڑا سبب میاں صاحب اور ان کے رفقاء کا فوج کے ضمن میں خِلجان بھی ہے۔ ہمارے وہ تمام احباب جو سویلین بالادستی کے خواہشمند ہیں، اُن میں ہم بھی شامل ہیں مگر عرض صرف اتنا ہے کہ مابعد نو آبادیاتی ریاستوں میں طاقت اور اداروں کا عدم توازن ایک معروضی حقیقت ہے۔ ہم در حقیقت تاریخ کے شعور سے ناآشنا قوم ہیں ورنہ ترکی کے وزیراعظم عدنان مینڈرس کی مثال کافی ہے۔

شمالی اور وسطی افریقہ کی ریاستوں میں فوج کا بالواسطہ اور بلاواسطہ کردار بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ عائشہ جلال کی کتاب The State of Martial Rule اُن تمام عوامل کا جائزہ لیتی ہے جنہوں نے پاکستان میں ادارہ جاتی عدم توازن کو نہ صرف جنم دیا بلکہ مستحکم بھی کیا۔ منیر نیازی نے بھی شاید درد کی عجب رو میں بہہ کر کہا تھا،
منیر اِس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

ڈان لیکس اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ راحیل شریف کی مقبولیت سے خائف جو درحقیقت اتنی نہیں تھی جتنی بنائی اور پھیلائی گئی، فوج کو پھر سے دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ جنرل کیانی نے اپنے دور میں فوج کے لئے ایک نیا کردار تخلیق کیا، خود سامنے آئے بغیر حکومت کی جائے اور ہر بحران میں حکومت سے کچھ نہ کچھ بارگین کیا جائے۔ یوں ہی خارجہ پالیسی اور افغان پالیسی آرمی نے اپنے ہاتھ میں لے لی، زرداری صاحب سندھ میں جرائم اور گینگ کا سینڈیکیٹ چلاتے رہے۔ جب پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا تو ہوش آیا اور پھر سویلین بالادستی کی بھونڈی سی کوشش میں میمو گیٹ جیسی خفت پیپلز پارٹی کے دامن سے آن جڑی۔ ڈان لیکس کے ضمن میں بھی یہی ہوا ہے،
ہزاروں ڈوبنے والے بچا لئے لیکن
اُسے میں کیسے بچاؤں جو ڈوبنا چاہے

میاں صاحب کی مثال اُس بچھو کی سی ہے جس کے چاروں طرف اگر آگ لگا دی جائے تو وہ اپنے آپ کو ڈنک مار کر خود کشی کرلیتا ہے۔ مریم بی بی کو راتوں رات لیڈر بننے کی منہ زور خواہش نے آلیا اور یوں وہ ہوا جو ہم ڈان لیکس کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اٹلی میں 2016ء میں جب راقم کو Bolzano میں ساؤتھ ٹرولین پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع ملا تو وہاں پارلیمنٹ کے صدر تھامس وائڈمین نے بتایا کہ لوگوں کو حکمرانوں سے نہیں حکومت سے غرض ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یورپ سارے میں مقامی حکومتیں اتنی طاقتور اور مضبوط ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کو وزیراعظم کے نام سے ہی آگاہی نہیں ہوتی۔

میرے وہ تمام احباب بشمول ساہی صاحب اور کیری لوگر بل کی عطا کردہ سول سوسائٹی جو سویلین بالادستی کی خواہشمند ہے اور ٹویٹ سے نالاں ہے اُن سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ سیاست دانوں کو سیاست کرنے دیجیئے، فوجیوں کو جنگ کرنے دیجیئے۔ طرزِ حکمرانی کو بہتر کیجئے اور اِس ملک کے اشرافیہ زدہ عمرانی معاہدے کو از سرِ نو پرکھیے۔ فوج اپنے آئینی دائرہ کار میں تبھی آئے گی جب سیاست دان بہتر حکومت کریں گے۔ اپنی ناکامی کے باب میں فوج کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اگر فوج آپ کو کام نہیں کرنے دیتی تو اخلاقی جراٗت کا مظاہرہ کریں اور استعفٰی دے کر باہر آئیں پھر شاید آپ کی قوم بھی ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کو تیار ہوجائے۔

میاں صاحب نوٹیفیکیشن کو واپس لے لیں گے۔ کچھ رعائتیں اور دے دلا کے چھوٹ بھی جائیں گے مگر نظام کی بالادستی، ادارہ جاتی تشکیلات ہمیشہ کی طرح خواب ہی رہیں گے۔ جہاں افراد طاقتور ہوں وہاں ادارے اور قانون کی حکمرانی ایک خوابِ لاحاصل سے زیادہ کچھ نہیں۔
رنگ بھرتے تھے سادہ کاغذ پر
اپنے خوابوں کو لفظ دیتے تھے
اپنی دھڑکن کی بات لکھتے تھے
دل کی باتوں کو لفظ دیتے تھے
اُس کے ہونٹوں سے خامشی چن کہ
اُس کی آنکھوں کو لفظ دیتے تھے
چاندنی کی زباں سمجھتے تھے
چاند راتوں کو لفظ دیتے تھے
ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے
اپنے جذبوں سے تھک گئے جیسے
اپنے خوابوں سے تھک گئے جیسے
دل کی باتوں سے تھک گئے جیسے
اُس کی آنکھوں سے تھک گئے جیسے
چاند راتوں سے تھک گئے جیسے
ایسے خاموشیوں میں رہتے ہیں
اپنے لفظوں سے تھک گئے جیسے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں