سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی
21 جون 1943ء کو سندھ مدرسہ کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے دست مبارک سے کیا،
کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار تعلیمی میدان میں اس کے مقام سے ہوتا ہے، یہی وہ پیمانہ ہے جو قوم کے مستقبل کے حوالے سے آگاہی دیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم اس میدان میں بہت پیچھے رہے۔ مسلم دنیا کی مجموعی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 57 مسلمان ممالک مل کر بھی سال بھر میں اتنے تحقیقی جرائد شائع نہیں کرتے، جتنے صرف اسرائیل صرف ایک سال میں چھاپتا ہے، جب کہ ہم اگر صرف اپنے ملک کا جائزہ لیں تو شرح خواندگی سے لے کر معیار تعلیم تک کہیں بھی معاملہ تسلی بخش نہیں۔ بہت سے علاقے آج بھی صحیح معنوں میں کسی اسکول سے محروم ہیں، جب کہ اتنے بڑے ملک میں جامعات کی تعداد اور ان کا معیار بھی شرم ناک حد تک کم ہے۔ ایسے میں کسی تعلیمی ادارے کا قیام اور اس کی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدام بلاشبہ ایک نیک شگون ہوتے ہیں۔ ایسی ہی خوش گوار ہوا کا جھونکا ''سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی'' کا قیام ہے، جو کراچی کی ایک قدیم درس گاہ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ ادارہ مسلمانوں کی پس ماندگی دور کرنے کی غرض سے 1885ء میں قائم کیا گیا۔
اس وقت خطے کے مسلمان نہ صرف تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے تھے بلکہ وسائل اور ذرائع کی کمی کے ساتھ اس میں ان کی دل چسپی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بمبئی یونیورسٹی نے 1870ء میں پہلی مرتبہ میٹرک کا امتحان منعقد کرایا تو اس میں ایک بھی مسلمان طالب علم کام یاب نہ ہو سکا۔ اگرچہ اس وقت سندھ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 75 فی صد تھا۔ ایسے وقت میں اشد ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں شعور اور آگاہی بے دار کرنے اور انہیں تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی جائے۔
سر سید احمد خان نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا اور 1875ء میں علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا۔ اس سے متاثر ہوتے ہوئے اس دور کی ایک اور جید شخصیت حسن علی آفندی نے اس تجربے کو دُہرانے کا ارادہ کیا۔ اس کام میں انہیں کلکتے کے تعلیمی ماہر سید امیر علی سمیت متعدد ہم خیال لوگوں کا تعاون بھی حاصل رہا۔ سید امیر علی نے نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے نام سے ایک سماجی رفاہی تنظیم قائم کی تھی،ساتھ ہی سندھ میں بھی اس کی شاخ کھولنے کا فیصلہ ہوا جس کے صدر حسن علی آفندی بنائے گئے۔
اس وقت سندھ میں ایک اچھے اسکول کے قیام کے لیے درکار وسائل کی شدید کمی تھی مگر جن کے ارادے پختہ ہوں، مشکلات اور مصائب ان کی راہ نہیں روک سکتے اور منزل ہر صورت ان کا مقدر بنتی ہے۔ تعلیمی ادارے کے قیام کے لیے چندہ لے کر وسائل کی اس کمی کو بھی پورا کیا گیا، لیکن جگہ کا مسئلہ برقرار رہا۔
اس وقت تک برصغیر میں ریلوے نظام نہیں آیا تھا اور کراچی شہر میں افغانستان، ایران، عرب ممالک سمیت برصغیر کے دیگر حصوں تک تجارت اونٹوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ کراچی میونسپلٹی نے ایسے قافلوں کی سہولت کے لیے مسافر خانے تعمیر کیے تھے، جسے ''قافلہ سرائے'' کہا جاتا تھا۔ انگریزوں نے جب ریل گاڑیوں کے لیے پٹریاں بچھائیں تو ایسے مسافر خانوں کی ضرورت نہ رہی، لہٰذا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حسن علی آفندی کی سربراہی میں ایسوسی ایشن نے میونسپلٹی کو راضی کیا کہ یہ جگہ ہمارے تعلیمی ادارے کے لیے وقف کر دی جائے۔ بالآخر انہیں اس میں کام یابی ہوئی اور یوں یکم ستمبر 1885ء کو سندھ مدرستہ الاسلام کا قیام عمل میں آگیا، جو آج بھی اس ہی جگہ پر قائم ہے۔
سندھ مدرسے کے ابتدائی دو سال کے عرصے میں قائداعظم نے بھی یہاں داخلہ لیا اور اپنے تعلیمی مدارج طے کیے۔ قائداعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انھوں نے اپنی وصیت میں بھی اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس کے نام کر دیا تھا۔ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے 21 جون 1943ء کو سندھ مدرسہ کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے دست مبارک سے کیا، اس تاریخی موقع پر انہوں نے اس ادارے سے اپنی لگن اور تعلق کو یوں بیان فرمایا کہ ''میں ان شان دار میدانوں کے ایک ایک انچ سے اچھی طرح واقف ہوں، جہاں میں نے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا۔''
سندھ مدرسہ اپنے قیام کے 58 برس بعد کالج کے درجے تک پہنچا اور پھر مزید آگے کے مراحل طے کرتے ہوئے 79 سال بعد بالآخر ایک جامعہ کا روپ دھار گیا۔ تاریخی سندھ مدرستہ الاسلام نے اپنے نام ''مدرستہ الاسلام'' سے قطع نظر مسلمانوںاور غیر مسلموں کو تعلیم کے یک ساںمواقع فراہم کیے۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اسے بھی قومیالیا گیا، جس کے بعد سے یہ صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہے۔ سندھ مدرستہ الاسلام کو جامعہ کا درجہ دلانے کے لیے صدر مملکت آصف علی زرداری (جو کہ حسن علی آفندی کے پر نواسے بھی ہیں) نے خصوصی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔
سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے قیام کا بل دسمبر 2011ء میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا اور 21 فروری 2012ء کو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کا چارٹر شیخ الجامعہ محمد علی شیخ کے حوالے کیا، جس کے بعد رواں برس اس میں پہلے تعلیمی سیشن کا آغاز ہوا۔ ابتدائی طور پر یہاں پانچ شعبہ جات میں تعلیم دی جا رہی ہے، جن میں کمپیوٹر سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، میڈیا اسٹڈیز، ایجوکیشن اور انوائرنمینٹل اسٹڈیز شامل ہیں، جب کہ کچھ ہی سالوں میں دیگر اہم شعبوں کا آغاز بھی کیا جائے گا۔
جامعہ میں اعلٰی تعلیم یافتہ اور قابل پی ایچ ڈی فیکلٹی کو سو فی صد میرٹ کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی اسٹوڈیو بھی زیر تعمیر ہیں تاکہ طلبا وقت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو کر جدید تعلیم حاصل کر سکیں۔ مستقبل میں سندھ مدرسے کے لیے ملیر کے علاقے میں 100 ایکڑ اراضی پر مرکزی کیمپس تعمیر کیا جائے گا، جب کہ جامعہ کی موجودہ عمارت سٹی کیمپس کے طور پر خدمات انجام دے گی۔
سندھ مدرسے کو جامعہ کا درجہ ملنے کے بعد شہر قائد میں بھی اعلا تعلیمی اداروں کی کمی کا ازالہ ممکن ہوا، کیوں کہ کچھ عرصے پہلے تک شہر میں سرکاری سطح پر صرف جامعہ کراچی اور جامعہ اردو ہی موجود تھیں، جب کہ حال ہی میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے قیام سے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ بلاشبہ اعلا تعلیم کے شعبے میں ایک اہم قدم ہے۔
بدقسمتی سے ہم اس میدان میں بہت پیچھے رہے۔ مسلم دنیا کی مجموعی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 57 مسلمان ممالک مل کر بھی سال بھر میں اتنے تحقیقی جرائد شائع نہیں کرتے، جتنے صرف اسرائیل صرف ایک سال میں چھاپتا ہے، جب کہ ہم اگر صرف اپنے ملک کا جائزہ لیں تو شرح خواندگی سے لے کر معیار تعلیم تک کہیں بھی معاملہ تسلی بخش نہیں۔ بہت سے علاقے آج بھی صحیح معنوں میں کسی اسکول سے محروم ہیں، جب کہ اتنے بڑے ملک میں جامعات کی تعداد اور ان کا معیار بھی شرم ناک حد تک کم ہے۔ ایسے میں کسی تعلیمی ادارے کا قیام اور اس کی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدام بلاشبہ ایک نیک شگون ہوتے ہیں۔ ایسی ہی خوش گوار ہوا کا جھونکا ''سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی'' کا قیام ہے، جو کراچی کی ایک قدیم درس گاہ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ ادارہ مسلمانوں کی پس ماندگی دور کرنے کی غرض سے 1885ء میں قائم کیا گیا۔
اس وقت خطے کے مسلمان نہ صرف تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے تھے بلکہ وسائل اور ذرائع کی کمی کے ساتھ اس میں ان کی دل چسپی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بمبئی یونیورسٹی نے 1870ء میں پہلی مرتبہ میٹرک کا امتحان منعقد کرایا تو اس میں ایک بھی مسلمان طالب علم کام یاب نہ ہو سکا۔ اگرچہ اس وقت سندھ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 75 فی صد تھا۔ ایسے وقت میں اشد ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں شعور اور آگاہی بے دار کرنے اور انہیں تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی جائے۔
سر سید احمد خان نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا اور 1875ء میں علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا۔ اس سے متاثر ہوتے ہوئے اس دور کی ایک اور جید شخصیت حسن علی آفندی نے اس تجربے کو دُہرانے کا ارادہ کیا۔ اس کام میں انہیں کلکتے کے تعلیمی ماہر سید امیر علی سمیت متعدد ہم خیال لوگوں کا تعاون بھی حاصل رہا۔ سید امیر علی نے نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے نام سے ایک سماجی رفاہی تنظیم قائم کی تھی،ساتھ ہی سندھ میں بھی اس کی شاخ کھولنے کا فیصلہ ہوا جس کے صدر حسن علی آفندی بنائے گئے۔
اس وقت سندھ میں ایک اچھے اسکول کے قیام کے لیے درکار وسائل کی شدید کمی تھی مگر جن کے ارادے پختہ ہوں، مشکلات اور مصائب ان کی راہ نہیں روک سکتے اور منزل ہر صورت ان کا مقدر بنتی ہے۔ تعلیمی ادارے کے قیام کے لیے چندہ لے کر وسائل کی اس کمی کو بھی پورا کیا گیا، لیکن جگہ کا مسئلہ برقرار رہا۔
اس وقت تک برصغیر میں ریلوے نظام نہیں آیا تھا اور کراچی شہر میں افغانستان، ایران، عرب ممالک سمیت برصغیر کے دیگر حصوں تک تجارت اونٹوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ کراچی میونسپلٹی نے ایسے قافلوں کی سہولت کے لیے مسافر خانے تعمیر کیے تھے، جسے ''قافلہ سرائے'' کہا جاتا تھا۔ انگریزوں نے جب ریل گاڑیوں کے لیے پٹریاں بچھائیں تو ایسے مسافر خانوں کی ضرورت نہ رہی، لہٰذا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حسن علی آفندی کی سربراہی میں ایسوسی ایشن نے میونسپلٹی کو راضی کیا کہ یہ جگہ ہمارے تعلیمی ادارے کے لیے وقف کر دی جائے۔ بالآخر انہیں اس میں کام یابی ہوئی اور یوں یکم ستمبر 1885ء کو سندھ مدرستہ الاسلام کا قیام عمل میں آگیا، جو آج بھی اس ہی جگہ پر قائم ہے۔
سندھ مدرسے کے ابتدائی دو سال کے عرصے میں قائداعظم نے بھی یہاں داخلہ لیا اور اپنے تعلیمی مدارج طے کیے۔ قائداعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انھوں نے اپنی وصیت میں بھی اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس کے نام کر دیا تھا۔ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے 21 جون 1943ء کو سندھ مدرسہ کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے دست مبارک سے کیا، اس تاریخی موقع پر انہوں نے اس ادارے سے اپنی لگن اور تعلق کو یوں بیان فرمایا کہ ''میں ان شان دار میدانوں کے ایک ایک انچ سے اچھی طرح واقف ہوں، جہاں میں نے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا۔''
سندھ مدرسہ اپنے قیام کے 58 برس بعد کالج کے درجے تک پہنچا اور پھر مزید آگے کے مراحل طے کرتے ہوئے 79 سال بعد بالآخر ایک جامعہ کا روپ دھار گیا۔ تاریخی سندھ مدرستہ الاسلام نے اپنے نام ''مدرستہ الاسلام'' سے قطع نظر مسلمانوںاور غیر مسلموں کو تعلیم کے یک ساںمواقع فراہم کیے۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اسے بھی قومیالیا گیا، جس کے بعد سے یہ صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہے۔ سندھ مدرستہ الاسلام کو جامعہ کا درجہ دلانے کے لیے صدر مملکت آصف علی زرداری (جو کہ حسن علی آفندی کے پر نواسے بھی ہیں) نے خصوصی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔
سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے قیام کا بل دسمبر 2011ء میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا اور 21 فروری 2012ء کو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کا چارٹر شیخ الجامعہ محمد علی شیخ کے حوالے کیا، جس کے بعد رواں برس اس میں پہلے تعلیمی سیشن کا آغاز ہوا۔ ابتدائی طور پر یہاں پانچ شعبہ جات میں تعلیم دی جا رہی ہے، جن میں کمپیوٹر سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، میڈیا اسٹڈیز، ایجوکیشن اور انوائرنمینٹل اسٹڈیز شامل ہیں، جب کہ کچھ ہی سالوں میں دیگر اہم شعبوں کا آغاز بھی کیا جائے گا۔
جامعہ میں اعلٰی تعلیم یافتہ اور قابل پی ایچ ڈی فیکلٹی کو سو فی صد میرٹ کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی اسٹوڈیو بھی زیر تعمیر ہیں تاکہ طلبا وقت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو کر جدید تعلیم حاصل کر سکیں۔ مستقبل میں سندھ مدرسے کے لیے ملیر کے علاقے میں 100 ایکڑ اراضی پر مرکزی کیمپس تعمیر کیا جائے گا، جب کہ جامعہ کی موجودہ عمارت سٹی کیمپس کے طور پر خدمات انجام دے گی۔
سندھ مدرسے کو جامعہ کا درجہ ملنے کے بعد شہر قائد میں بھی اعلا تعلیمی اداروں کی کمی کا ازالہ ممکن ہوا، کیوں کہ کچھ عرصے پہلے تک شہر میں سرکاری سطح پر صرف جامعہ کراچی اور جامعہ اردو ہی موجود تھیں، جب کہ حال ہی میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے قیام سے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ بلاشبہ اعلا تعلیم کے شعبے میں ایک اہم قدم ہے۔