جمہوریت کو برداشت کریں

جنگ ہمیشہ دو متصادم و متحارب سیاسی قوتوں یعنی آمریت و فسطائیت اور جمہوریت کے درمیان ہوئی


Zahida Hina May 03, 2017
[email protected]

یہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری برس ہیں۔گزرے ہوئے بیس پچیس برسوں میں وقت کتنا بدلا ہے، اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں کیونکہ اس مختصر عرصے کے دوران جو کچھ ہوچکا ہے، ہورہا ہے اور جو آیندہ ہونے والا ہے، اس کے ادراک کے لیے قیاس کے دوڑائے جانے والے برق رفتارگھوڑے بھی تھک ہار کر گردن ڈال دیتے ہیں اور ایک طرف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وقت نے دنیا میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ آئیے پاکستان کی مثال لیتے ہیں۔

آج سے چند برس پہلے تک کون ماننے کو تیار تھا کہ جمہوریت کی ننھی کونپل ایک پودے کی شکل اختیار کر سکے گی۔ یہ خیال محض خواب تھا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی حکومت اقتدار میں آکر اپنی مدت مکمل کرسکے گی۔ لیکن پھر چشم حیراں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ 2008ء میں ایک مخلوط منتخب حکومت اقتدار میں آئی۔ اسے آئے ہوئے ابھی چند ماہ نہیں ہوئے تھے کہ اس کے رخصت ہونے کی تاریخیںدی جانے لگیں۔ فاضل دانشوروںکے بڑے حلقے نے ہر صبح اخبارات اور ہر شام ٹیلی وژن پر نوزائیدہ جمہوریت اور منتخب حکومت کے خلاف عدالتیں لگاکرفیصلے سنانے شروع کردیے۔''اس نیک مہم'' کو چلانے والے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے انتہائی باوثوق ذرایع اور ''طاقتور باخبر'' حلقوں کے حوالے سے قارئین اور ناظرین کو پی پی پی حکومت کی رخصتی کا مژدہ سناتے تھے۔ چائے کی پیالی میں خوب طوفان برپا کیے گئے، بحران اورمحاذ آرائی کی فضا بھی پیدا ہوئی لیکن منتخب حکومت نے اپنی میعاد مکمل کرکے پاکستان میں تاریخ رقم کردی۔

2013ء کے عام انتخابات میں ایک دوسری جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی۔ جانے والی منتخب حکومت نے ایک دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ اس طرح ہماری سیاسی تاریخ میں ایک دوسرا باب رقم ہوا۔ یہ تاریخی واقعہ ، جمہوریت کی ناکامی اور منتخب حکومت کی قبل ازوقت رخصتی کی پیش گوئی کرنے والوں کے لیے کسی 'عظیم سانحے' سے کم نہیں تھا۔ فوری طور پر مزاحمت ممکن نہیں تھی۔ ایک سال تک ماحول نسبتاً معمول کے مطابق رہا۔ تاہم، جمہوری استحکام سے خائف عناصر کی جانب سے بے اطمینانی کی فضا پیدا کرنے کا عمل دوبارہ شروع کردیا گیا۔ 2014 سے آج تک جمہوری عمل کو غیر مستحکم کرنے کی بار بار کوششیں کی گئیں۔ منتخب وزیراعظم کی کردار کُشی کے لیے تمام حدیں پار کرلی گئیں۔ عوام کو مطلع کیا جانے لگا کہ تمام تیاریاں مکمل ہیں اور وزیراعظم کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ تک رخصت کردیا جائے گا۔

یہ مہم چلتی رہی اور تقریباً چار سال کا عرصہ گزر گیا۔ ایک سال اور گزرتا ہے کہ جب جمہوری تسلسل کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی دوسری منتخب حکومت بھی اپنی آئینی میعاد مکمل کرکے اقتدار تیسری منتخب حکومت کو منتقل کرے گی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور نیا باب رقم کرے گی، لیکن اگرکسی کا یہ خیال ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات تک کا عرصہ پُر سکون انداز سے گزرجائے گا تو وہ شدید خوش فہمی یا خام خیالی میں مبتلا ہے۔ پاناما گیٹ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا، الزامات ثابت نہیں ہوسکے اسی لیے وزیراعظم کو نا اہل قرار دینے کی استدعا مسترد کردی گئی۔ اس فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا بلکہ اسے متنازعہ بنا کر 'وزیراعظم استعفیٰ دو' کی تحریک کا آغاز کردیا گیا۔

اسی دوران ڈان لیکس کے حوالے سے کوئی ٹویٹ آگیا اور اس پر بھی طوفان برپا ہوگیا۔ حتمی طور پر نتیجہ اخذ کرلیا گیا کہ سیاسی اور فوجی قیادت میں اختلافات کی ایک ایسی خلیج پیدا ہوگئی ہے جو بالآخر نواز شریف حکومت کے خاتمے پر منتج ہوگی۔ جمہوری تسلسل کو توڑنے کے لیے بعض عناصر اور ان کے سیاسی حلیفوںکی جانب سے اداروں پر دباؤ ڈالنے کی جو مہم چلائی گئی ہے اور اہم ترین شخصیات پر براہ راست تنقید کا جو عمل جاری ہے اس کے مظاہر مختلف شکلوں میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ صورتحال آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گی، تاہم امید ہے کہ ریاست کا کوئی بھی اسٹیک ہولڈر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا کیونکہ سیاسی عدم استحکام، معاشی اور سماجی عدم استحکام کا باعث بنے گا اور پاکستان ان دنوں اندرونی، علاقائی اور عالمی سطح پر جن مسائل سے دوچار ہے اس کے تناظر میں اس نوعیت کی صورتحال کے کیا نتائج نکلیں گے اس سے ''سب'' اچھی طرح باخبر ہیں۔

پاکستان کو جمہوریت کے راستے سے ہٹانے کی کوئی بھی کوشش خود کشی کے مترادف ہوگی۔ وہ ادارے، سیاسی جماعتیں اور افراد جو صورتحال پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، ان کے لیے 21 ویں صدی کی بدلی ہوئی سیاسی اور معاشی حرکیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ 2 بنیادی نکات ایسے ہیں جن پر عمل کرنا تاریخی طور پر ناگزیر ہے۔ پہلا نکتہ یہ کہ جمہوریت سے مفر کسی طور اس لیے ممکن نہیں کہ دنیا بڑی تیزی سے ایک معاشی اکائی کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار ترقی نے کھربوں ڈالر کا اضافی سرمایہ پیدا کردیا ہے جو عالمی سطح پر گردش میں ہے اور سرمایہ کاری کے نئے امکانات تلاش کررہا ہے۔اس نوعیت کی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ دنیا کے ملکوں کے سیاسی نظام ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں۔ اسی لیے جمہوریت اکیسویں صدی کا ایک فطری تقاضہ ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ یہ جان کرکئی لوگوں کو حیرت ہوگی کہ تاریخ میں آج تک دو جمہوری ملکوں کے درمیان کوئی بڑی اور باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی۔

جنگ ہمیشہ دو متصادم و متحارب سیاسی قوتوں یعنی آمریت و فسطائیت اور جمہوریت کے درمیان ہوئی۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو غیر جمہوری ملکوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس 20 ویں صدی میں دنیا متحارب سیاسی و نظریاتی نظاموں میں تقسیم اور باہم برسر پیکار تھی۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ جمہوریت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی ترجیح بن چکی ہے۔ اس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں، 35 سال پہلے اور آج کا عالمی منظر نامہ بالکل مختلف ہے۔

پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں تمام تر مزاحمت کے باوجود جمہوریت اور اس کے ادارے ارتقائی عمل سے گزر کر خود کو مستحکم کررہے ہیں۔ ایک جمہوری نظام میں فطری ارتقاء کے ذریعے جو سماج وجود میں آتا ہے اس کی سیاسی، معاشی اور سماجی ساخت، آمریت میں پروان چڑھنے والے سماج سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ آج کی معروف اصطلاحات کے حوالے سے کہہ لیں کہ دونوں نظاموں کے بیانیے اور اسٹیک ہولڈر الگ ہوتے ہیں اور جمہوری تبدیلی کی صورت میں ان کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 9 برسوں کے دوران جو تبدیلی رونما ہورہی ہے جس کے نتیجے میں ٹکراؤ کا عمل شدت اختیار کر رہا ہے، اس کے مظاہر ہمیں ہر صبح اور شام مختلف محاذوں پر صاف نظر آتے ہیں۔

جدید دور کا سیاسی، معاشی اور سماجی بیانیہ ماضی کے بیانیے پر حاوی آنے کی کوشش کررہا ہے، جس کے باعث ہم کو ملک کے اندر ٹکراؤ، فساد، کشمکش اور محاذ آرائی نظر آرہی ہے۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ 21 ویں صدی کے بیانیے کو شکست دینا عملاً نا ممکن ہے۔ ارتقاء کا اپنا ایک عمل ہوتا ہے۔ اس کی حرکیات میری یا آپ کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتیں۔ دنیا کے ممالک ایک دوسرے سے مربوط ہورہے ہیں۔

ذرا غور فرمائیں کہ کیا حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ لندن سے مال و اسباب سے لدی ہوئی ایک مال گاڑی جس میں اعلیٰ وہسکی کی بوتلیں، اور بچوں کے لیے دودھ بھی لدا ہوا تھا، بارہ ہزار کلو میٹر کا سفر 20 دنوں میں طے کر کے چین پہنچی۔ ''ون بیلٹ ون روڈ'' کی حکمت عملی کے تحت قائم ہونے والا یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ریلوے روٹ ہے۔ اس روٹ کے تحت لندن سمیت 15 شہر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف نگاہ ڈالیں تو ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان ہے جس نے جمہوریت کے تسلسل کے ذریعے سیاسی استحکام حاصل کیا اور صرف 70برس میں دنیا کے مفلس ترین ملک سے 40 کروڑ کی مضبوط مڈل کلاس پر مشتمل ابھرتی ہوئی عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ ہم میٹرو اور اورنج لائن پر لڑرہے ہیں، وہاں تیز رفتار ٹرینیں چل رہی ہیں۔ بلٹ اور ہائپرلوپ کے منصوبے بن رہے ہیں جس کے بعد دو دن کا سفر چند گھنٹوں میں طے ہونے لگے گا۔

پاکستان کو آمریتوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ آمروں نے نہ خود کچھ کیا اور نہ کسی منتخب حکومت کو کھل کر کام کرنے دیا۔ جب بھی کسی وجہ سے کسی جمہوری حکومت کو راستہ دینا پڑا تو اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کے لیے مسائل پیدا کیے گئے۔ اسی محاذ آرائی میں ہمارے تقریباً 70سال برباد ہوگئے۔

اس نئی صدی میں جینا اور آگے بڑھنا ہے تو ہم سب کو جمہوریت اور اس کے نتیجے میں منتخب حکومتوں اور وزرائے اعظم کو ''برداشت'' کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ ہم آمروں کے زیر سایہ زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں لیکن اب ہمیں جمہوری نظام میں جینے کا ڈھب اختیار کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں