دس ارب کتنے ہوتے ہیں
عمران خان کی جگہ میں ہوتا تو دس ارب تو کیا دس لاکھ بھی قبول کرلیتا
STRASBOURG:
73سال کا ہوگیا ہوں لیکن میں نے آج تک اکٹھے دس لاکھ روپے نہیں دیکھے۔ نوجوانی میں پاک فضائیہ میں جی ڈی پائلٹ بھرتی ہونے کراچی آیا تو اپنے دوست یحییٰ کے پاس ٹھہرا تھا جو رنچھوڑ لائن میں رہتا تھا۔ شام کو وہ مجھے جس ہوٹل میں چائے پلانے لے گیا اس کا نام لکھ پتی تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیا نام ہوا تو اس نے بتایا کہ اس ہوٹل کا مالک چونکہ لکھ پتی ہے،اس لیے اس نے اپنے ہوٹل کا یہ نام رکھا ہے۔
میں نے پوچھا لکھ پتی کون ہوتا ہے، وہ بولا جس کے پاس لاکھ روپے ہوں۔ میں نے پھر پوچھا اور لاکھ روپے کتنے ہوتے ہیں تو اس نے کہا جس کے پاس لاکھ روپے ہوں اس کی سات نسلیں بیٹھ کر کھاتی ہیں، اس سے اندازہ کر لو کہ لاکھ روپے کتنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد میں جس کے بارے میں سنتا کہ یہ لکھ پتی آدمی ہے تو اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے بغور دیکھتا تھا کہ اس میں وہ کیا چیزاضافی یا نئی ہے جو دوسرے انسانوں میں نہیں، لیکن سوائے اچھے کپڑوں اورظاہری ٹیپ ٹاپ کے کوئی فرق نہ ڈھونڈ پاتا۔ سوچتا لکھ پتی کی کوئی پہچان بھی ہونی چاہیے تھی اورکچھ نہیں تو اس کے دو سر یا چار ہاتھ ہوتے۔ دوسروں والا کوئی لکھ پتی تو کبھی دیکھا نہیں۔
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، ہم بات کررہے تھے لکھ پتیوں کی۔ دوسرے دن یحییٰ ہی مجھے ایئر فورس کے بھرتی مرکز چھوڑنے آیا جو ٹھیک اس جگہ ایک پرانے طرزکے بنگلے میں ہوا کرتا تھا جہاں آج کل شاہین کمپلیکس کی پرشکوہ عمارت واقع ہے۔ ہم گیٹ پر ہی کھڑے تھے کہ ایک سیاہ رنگ کی شیورلیٹ کار وہاں ایک لمحے کو رکی اور ایک نوجوان کو اتار کر آگے بڑھ گئی۔ وہ بھی شاید میری طرح انٹرویو دینے آیا تھا، وہ تو پتہ نہیں کون تھا لیکن یحییٰ نے کار والے آدمی کو پہچان لیا اور مجھے بتایا کہ وہ بھی لکھ پتی آدمی ہے اور شہر بھر میں اس کے درجنوں آئل ڈپو ہیں، اس کا بھی ایک ہی سر تھا اور سوائے سیاہ رنگ کی شیورلیٹ کار کے اس کی اور کوئی پہچان نہیں تھی۔ انٹرویو میں فیل ہوکر باہر نکلا تو موجودہ بمبئی ہوٹل والی لائن میں ذرا آگے گرین ہوٹل ہوا کرتا تھا جس میں یحییٰ کا کوئی عزیز ملازم تھا۔ وہ نہیں ملا تو ہم اسی فٹ پاتھ پر چہل قدمی کرتے ہوئے اور آگے نکل گئے۔
ایک اخبار کے بورڈ پر نظر پڑی تو مجھے یاد آیا کہ ابراہیم جلیس بھی اسی اخبار میں کام کرتے ہیں، میں ان کا کالم ''وغیرہ وغیرہ'' بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ تب اخبارات کے دفاتر آج کل کی طرح سیکیورٹی کے حصار میں نہیں ہوتے تھے اور کسی اخبار کے دفتر میں جانے کے لیے پوچھ گچھ اور تلاشی کے مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا تھا۔
میں یحییٰ کو وہیں گیٹ پر چھوڑ کر جلیس صاحب سے ملنے چلا گیا۔ ان کے اور انعام درانی کے چھوٹے چھوٹے کمرے آمنے سامنے تھے۔ این ایس ایف کے کچھ لڑکے جلیس صاحب کو خالق دینہ ہال میں ہونے والے اپنے جلسے کی صدارت کرنے کی دعوت دینے آئے تھے۔ مجھے جلیس صاحب کے ان سے کہے ہوئے الفاظ آج بھی یاد ہیں کہ ''یار، یہ جلسے کی صدارت بھی کوئی صدارت ہے، صدارت کروانی ہے تو پاکستان کی صدارت دلواو۔'' وہ لوگ گئے تو میں آگے بڑھا، اپنا تعارف کروایا تو بڑے تپاک سے ملے اور تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔
پوچھا یہاں کہاں رہتے ہو، میں نے بتایا رنچھوڑ لائن میں تو بولے لکھ پتی ہوٹل کے پاس؟ ان کے منہ سے لکھ پتی کا لفظ سن کر میں نے پوچھا یہ لکھ پتی لوگ کون ہوتے ہیں، انھوں نے میرے سوال کا جو جواب دیا وہ میں یہاں نقل نہیں کر سکتا۔ یہ دس لاکھ اور لکھ پتی لوگوں کی باتیں مجھے عمران خان کے اس دعوے پر یاد آئیں کہ انھیں پاناما گیٹ معاملے میں منہ بند رکھنے کے لیے دس ارب روپوں کی پیشکش کی گئی تھی اور میں تب سے لوگوں سے پوچھتا پھر رہا ہوں کہ یہ دس ارب کتنے ہوتے ہیں، لیکن کوئی نہیں بتاتا، کسی نے دیکھے ہوں گے تو بتائے گا نا۔ وتایو فقیر کے بقول بدھو ضرور ہیں لیکن اتنا تو جانتے کہ دس ارب روپوں میں کئی لاکھ اور لکھ پتی سما جاتے ہوں گے۔ ایسی پیشکش توکوئی کھرب پتی ہی ٹھکرا سکتا ہے۔
عمران خان کی جگہ میں ہوتا تو دس ارب تو کیا دس لاکھ بھی قبول کرلیتا اور منہ بند رکھنے کی ضمانت دینے کی خاطر اپنا کیس ہی واپس لے لیتا۔ 1994 ء میں، میں جس اخبارکا ایڈیٹر تھا اس کا مالک کروڑوں روپوں کے بینک فراڈ کے الزام میں گرفتار ہوکر جیل پہنچا مگر چند ہی دنوں بعد (جنرل مشرف کو ملے ہوئے) میڈیکل سرٹیفکیٹ جیسا سرٹیفکیٹ بنوا کر بندر روڈ پر واقع سروسز اسپتال منتقل ہو گیا جہاں وی آئی پی کی طرح ٹھاٹ سے رہتا تھا۔ اس کے ایک قریبی دوست نے مجھے بتایا کہ نجی محفلوں میں وہ اپنے جرم کا اعتراف توکرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ چیلنج بھی کرتا ہے کہ پورا ملک لوٹ کرکھا جانے والے اس سے کس منہ سے فراڈ کردہ چندکروڑ وصول کریں گے۔
مجھے نہ تو اس کی باتوں سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ کیس سے، پھر بھی میں نے اسے پیغام بھجوایا (اگرچہ اس کے پکڑے جانے سے بہت پہلے میں مستعفی ہو چکا تھا) کہ اگر وہ تنگ ہو اور باہر آنا چاہتا ہو تو متعلقہ لوگوں سے ڈیل کرلے، میں اس کی جگہ اکیلا نہیں، بیوی بچوں کے ساتھ جیل جانے کو تیار ہوں بشرطیکہ بینک سے ہتھیائی ہوئی آدھی رقم وہ مجھے دے دے۔ اب میں یہ یقین سے نہیں کہ سکتا کہ میری پیشکش اس کو پہنچائی بھی گئی تھی کہ نہیں،البتہ مجھے اس کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کیس کا کیا بنا۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ فرض کیجیے عمران خان صحیح کہتے ہیں اور انھیں واقعی منہ بند رکھنے کے عوض دس ارب روپوں کی پیشکش ہوئی تھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے سپریم کورٹ کو یہ بات کیوں نہ بتائی اور اس آدمی کو گھسیٹ کر کیوں عدالت عظمی کے سامنے پیش نہیں کیا جو یہ پیشکش لایا تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر وہ ایسا کرتے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ اس سے بہت مختلف ہوتا جو اب آیا ہے۔ اب فیصلہ آجانے کے اتنے دنوں بعد کوئی بیوقوف ہی ان کی بات پر یقین کرے گا۔ میں پنجاب کے وزیر رانا ثنااللہ کی اس بات سے تو خیر اتفاق نہیں کرتا کہ عمران خان کی اوقات دس ارب تو کیا دس روپوں کی بھی نہیں ہے، لیکن میں اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرا کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔
اتنی بڑی خطیر رقم سے وہ ایک اورکینسر اسپتال بنواسکتے تھے، چوتھی شادی کرسکتے تھے، پی ٹی آئی جیسی ایک اور پارٹی لانچ کر سکتے تھے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا کر سکتے تھے، لیکن پوربی کہاوت کے مصداق''اب کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔'' ارب پتی بننے کا موقع تو وہ گنوا بیٹھے اب دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان، کی تنبیہ پر توجہ دیں جنہوں نے فرمایا ہے کہ ''اختلافی فیصلوں پر دنیا میں کہیں شور نہیں مچتا، سپریم کورٹ پر بداعتمادی ختم کرنا ہوگی، ساری سیاسی قیادت اپنا قبلہ درست کرلے۔'' خان صاحب تو خود کہتے تھے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی، انھیں قبول ہوگا پھر اب اکثریتی فیصلے پر شور کیوں مچا رہے ہیں؟ مجھے ڈر ہے اگر وہ باز نہ آئے تو سپریم کورٹ کو انھیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ دس ارب کتنے ہوتے ہیں۔