ملفوظات شیخ الاسلام
جب کسی کے پاس دولت‘ اقتدار اور شہرت آ جاتی ہے تو وہ بدلتا نہیں‘ بے نقاب ہوتا ہے۔
ہم مشرقی دنیا کے رہنے والے پاکستانی عام مجلسوں میں باہم گفتگو میں جو زبان عموماً استعمال کرتے ہیں، اس میں گالی گلوچ اور بدتمیزی نہیں ہوتی البتہ دو بے تکلف دوست اگر باتوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ سن لیں تو اس کا برا کوئی نہیں مناتا۔ اسے دوستی کی ایک بے تکلفانہ ادا سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں مولوی عبدالشکور قادری عرف علامہ طاہر القادری عرف شیخ الاسلام نے اپنے پرانے محسنوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے اور جس بازاری انداز میں ان کا تذکرہ کیا ہے اس پر حیرت نہیں شرمندگی ہوتی ہے۔
ایسی زبان سن کر غیر متعلق لوگ بھی شرما جاتے ہیں' کجا کہ وہ لوگ جو اس زبان کے اصل مخاطب ہوں۔ درست کہ علامہ صاحب اپنی ناکامی اور نایافت سے بہت آزردہ ہیں بلکہ بہت برہم ہیں لیکن انھوں نے اس کا اظہار جس انداز' لہجے اور زبان میں کیا ہے اس پر ایک پاکستانی کو بھی بہت سبکی محسوس ہوئی ہے' نہ معلوم ان لوگوں کے جذبات کیسے ہوں گے جو ان کے براہ راست مخاطب تھے اور وہ بھی اشتہاری زبان اور برملا انداز میں یعنی بذریعہ میڈیا جس کے ذریعے ان کی شائستگی اور اخلاقیات چہار سو پھیل گئی جب ان کے غیر ملکی کرم فرماؤں اور کرم گستروں نے اپنے پاکستانی عملے سے کہا ہو گا کہ ان کے لیے اس کا وہ انگریزی میں ترجمہ کریں تو اپنے ان اہلکاروں کو آزمائش میں ڈال دیا ہو گا جو سر جھکا کر اس کام میں لگ تو گئے ہوں گے مگر تمام ذہنی ہمتوں کو جمع کرنے کے بعد یہ مہم سر کی ہو گی۔
حضرت شیخ الاسلام نے یہ باتیں اپنے ان پرانے کرم فرماؤں کے بار ے میں کہی ہیں جو اس قدر خوش عقیدہ لوگ ہیں' مکہ مکرمہ کی غار حرا تک انھیں کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کہاں دولت کی ریل پیل میں پلنے والا کامیاب صنعت کار خاندان کا ایک شہزادہ میاں نواز شریف اور کہاں مبینہ طور پر جھنگ کی گلی قصاباں کا رہنے والا کوئی ناقابل ذکر جھنگوی۔ طویل قصے کو چھوڑ کر اس گفتگو اور تقریر کے ماہر کے بارے میں اہل لاہور جانتے ہیں کہ وہ اتفاق مسجد سے متعلق رہے جو میاں صاحبان کی مسجد تھی۔ ان کی تقریروں سے خوش ہو کر اس دولت مند خاندان نے ان کی پرورش کی اور انھیں لاہور کے ایک قیمتی علاقے میں زمین دے کر اس پر ان کا ادارہ بنوا دیا۔
میں وہ زبان استعمال نہیں کرنا چاہتا جو انھوں نے کی ہے لیکن میاں صاحبان اسے نہ جانے کیا کہیں گے۔ سوال یہ نہیں کہ ان کا مخاطب کون ہے' ہمیں اس سے کیا۔ سوال یہ ہے کہ شیخ الاسلام کو یہ زبان کیا زیب دیتی ہے۔ اب ملاحظہ فرمایئے ان کی پریس کانفرنس کی چند جھلکیاں جن سے لاہور کے اخبار بھرے ہوئے ہیں۔ میں نے صرف ایک اخبار سے ان کے چند جملے نقل کیے ہیں۔ وہ چونکہ کروڑوں اربوں خرچ کر کے ہماری قومی سیاست کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ انھوں نے اپنی اخلاقیات اور کردار کا جو تعارف خود کرایا ہے صرف اس کو ہی آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ اتنا ہی کافی ہے' اس میں اضافے کی ضرورت نہیں۔
''19 جنوری کو لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں کہا کہ تخت رائے ونڈ والو تم جو کہہ رہے ہو کہ ہم لانگ مارچ سے ناکام لوٹے ہیں' تمہیں شرم سے ڈوب جانا چاہیے۔ شریف برادران کو ذاتی حملوں سے باز آ جانا چاہیے ورنہ مجھ سے زیادہ ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ میں نے ان کے چہرے سے شرافت کے پردے اٹھا دیے تو ان کا لاہور میں چلنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر ہماری وجہ سے جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جاتا تو تخت لاہور والوں کو بھی ڈنڈے اور کوڑے لگتے اور پھر یہ دم دبا کر بھاگ جاتے۔ حکمران مجھ سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے مگر رائے ونڈ میں بیٹھا ہوا سیاسی جماعتوں کا طبقہ حکمرانوں کو مذاکرات سے روک رہا تھا اور حکومت کو ظلم و جبر کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔
وہ لوگ جو عوام کے چیمپئن بنے بیٹھے ہیں اور رائے ونڈ میں حلوے کھا رہے ہیں' یہ سمجھ لیں کہ آیندہ انتخابات آئین کی دفعات کے مطابق ہوں گے۔ مذہبی لیڈروں نے عوام کو داڑھیاں رکھ کر بے وقوف بنایا ہے۔ ایسے جنازے پڑھنے والے علماء کو اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔ تخت رائے ونڈ والوں کے پاس سے شرم گزر کر بھی نہیں گئی۔ اگر یہ اپنے جھوٹ اور کمینے پن سے باز نہ آئے تو ان کی کھال اتار کر ان کے اندر کا انسان پوری قوم کو دکھاؤں گا۔ میرے سے زیادہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ یاد رہے کہ اب یہ کبھی اقتدار میں نہ آ سکیں گے۔ سپاہ صحابہ اور طالبان جیسے دہشت گرد نواز شریف نے اس وقت بنوائے جب یہ جنرل ضیاء الحق کے جوتے اٹھاتے تھے۔ جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت۔ ایسی حرکات نہ کریں کہ آپ پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ سیاست مکاروں پر قائم نہیں ہونی چاہیے۔''
میں نے لاہور کے ایک بڑے اخبار سے یہ رپورٹ تعجب اور حیرت کے ساتھ نقل کی ہے۔ مجھے اس اخبار کی رپورٹنگ پر اعتماد ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسی زبان بولنے والے لیڈر قوم کے ریکارڈ پر آ جائیں ورنہ میرا نہ تو نواز شریف سے کوئی سیاسی اور اخباری تعلق ہے۔ ان کی جدہ سے واپسی کے بعد صرف ایک پریس کانفرنس میں ملاقات ہوئی۔ جناب شیخ الاسلام کی حرکات وسکنات کو دیکھ کر مجھے جد امجد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول یاد آ رہا ہے کہ جب کسی کے پاس دولت' اقتدار اور شہرت آ جاتی ہے تو وہ بدلتا نہیں' بے نقاب ہوتا ہے یعنی یہ کہ اندر سے کیا تھا' اس کی اصل کیا ہے۔ اس وقت لازم ہے کہ قومی سیاست کے خطروں کو بے نقاب کیا جائے۔